قارئین کرام، گذشتہ دنوں تحصیل چارباغ کے علاقہ اشار بنڑ میں کچھ ضروری کام کی غرض سے جانا ہوا۔ وہاں پہنچ کردن تین بجے کے قریب جب بارش شروع ہوئی، تو اس سے بچنے کے لیے ہم نے کچھ دیر گورنمنٹ پرائمری سکول اشاربنڑ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جب ہم 300 کے قریب بچوں کے لیے کھولے جانے والے اس سکول میں داخل ہوئے، تو حیران رہ گئے۔ کیوں کہ مذکورہ سرکاری سکول آثارِ قدیمہ کے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا تھا۔سکول کی چھت انتہائی بوسیدہ ہوچکی تھی۔ دس سال بعد بھی جگہ جگہ پر مارٹرگولوں کے واضح نشان موجود تھے۔ دیواروں پر بارش کے پانی سے بنے ہوئے نقش بھی اصل صورت میں موجود تھے۔ اساتذہ کے لیے کلاسز میں موجود ٹیبل اور کرسیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں، جو انتہائی بے ڈھنگ طریقے سے کلاسز میں رکھی گئی تھیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ انہیں میوزیم میں رکھا جائے۔

گورنمنٹ پرائمری سکول اشار بنڑ کی چھت جس سے مارٹر گولہ آر پار ہوا ہے۔ (فوٹو: حضرت علی)

قارئین، سکول میں دو تین بوسیدہ چٹائیوں کے علاوہ فرش پر بیٹھنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ مذکورہ سکول تین چار گاوؤں کے لیے واحد پرائمری سکول ہے۔ اس کے علاوہ اشاربنڑ اور اردگرد کے علاقوں میں کوئی پرائیوٹ سکول بھی موجود نہیں ۔ بچوں کے والدین کا اس حوالہ سے کہنا تھا کہ گورنمنٹ ہائی سکول وہاں سے چھے کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ جہاں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے گاڑی کا بندو بست کرنا پڑتا ہے۔ پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد غربت کی وجہ سے والدین بچوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی بجائے ان سے زمین داری، گھر کا کام، جانور پالنے یا محنت مزدوری کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں سیکڑوں بچوں کا پرائمری کے بعدتعلیمی سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔

سکول کی خستہ حال چار دیواری جو کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ (فوٹو: حضرت علی)

قارئین، آئینِ پاکستان کے آرٹیکل A/24 کے مطابق ہر بچے کو سولہ سال تک لازمی مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی ریاست کی پہلی ترجیح تعلیم ہوتی ہے۔ کیوں کہ تعلیم کے بغیر ترقی اور خوشحالی ناممکن ہے۔ ہزاروں نفوس پر مشتمل گاؤں اشار بنڑ اور اردگرد گاوؤں کے سیکڑوں بچوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ ریاست انہیں میٹرک تک تعلیمی سہولیات فراہم کرے اور آبادی کے تناسب سے وہاں مڈل اور ہائی سکول تعمیر کرے، تاکہ وہ اپنی تعلیم سرگرمیاں ادھوری نہ چھوڑیں۔ افسوس، ہمارے منتخب نمائندے الیکشن سے پہلے بلندبانگ دعوے تو کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد وہ اپنا ہی علاقہ، گلی محلہ تک بھول جاتے ہیں۔

اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں گورنمنٹ پرائمری سکول اشار بنڑ میں استادِ محترم کے لیے رکھی گئی ماڈل میز اور طلبہ و طالبات کے لیے تختہ سیاہ کا منظر۔ (فوٹو: حضرت علی)

اشار بنڑ کے لوگوں کے مطابق انہوں نے کئی بار منتخب نمائندوں کو یہاں کے مسائل سے آگاہ کیا ہے، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ تعلیمی ایمرجنسی کی یہ حالت دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا۔ اشاربنڑ گاؤں کے سابق ایم این اے علاؤالدین خان کے قلعہ نما گھر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر یہ سکول موجود ہے۔ تبدیلی سرکار کے موجودہ ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی دو بار پہلے بھی اسی علاقے سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، جب کہ موجودہ ایم پی اے عزیزاللہ گران اس علاقے کے سے منتخب ہیں۔ وہ تو ماشاء اللہ آج کل کرپشن ختم کرنے کے لیے لنگوٹ کسے ہوئے ہیں، جب کہ ان کے حلقے کے سکولوں کا یہ حال ہے۔ اگر گران صاحب کے کانوں تک میری بات پہنچ سکتی ہو، "تو فرما دیجیے اک نظر کرم ادھر بھی!”

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔