کالام مربوط ترقیاتی منصوبے (KIDP) کے آخری دن تھے۔ غالباً 1998ء یا 1999ء کی بات ہے کہ یہ منصوبہ اشتراک کے نام سے ایک رسالہ چھاپتا تھا، جو اُردو میں ہوتا تھا۔ اس میں سماجی ترقی، سماجی تحریک اور سماجی کام کے بارے میں معلومات ہوتی تھیں۔ یہ میرے طالب علمی کے دن تھے۔ مَیں نے اس رسالے میں ایک چھوٹا مضمون ’’اصل ترقی‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ اس میں کچھ مثالوں کی مدد سے سادہ انداز میں اپنے ذہن کے مطابق لکھا کہ اصل ترقی وہ ہوتی ہے جو انسانوں کے رویوں، عادات، کارکردگی، ذہنی و فکری نشونما اور ماحول دوستی پر مبنی ہو۔ یہ خیالات اس وقت ویسے ہی اپنے ذہن میں آئے تھے۔ بعد میں جب ترقی کے بارے میں مختلف لوگوں کے نظریے نظر سے گزرے، تو دیکھا کہ اس نکتۂ نظر کو پائیدار ترقی کہا جاتا ہے۔
معاشیات ومعاشی فلسفے میں نوبل انعام یافتہ استاد و مفکر امرتیا سِن کو پڑھا، تو وہ اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ مادی طور پر عمودی ترقی (یعنی وہ ترقی جو اونچے/ نیچے، آگے/ پیچھے، ترقی یافتہ/ پس ماندہ، مہذب/ وحشی وغیرہ جیسے تصورات پر مبنی ہو) سے بڑھ کر وہ ترقی ہے جہاں انسان کی صلاحیت (Capacity) بڑھائی جاتی ہے کہ جس میں مادی سے زیادہ، رویوں، عادات، اقدار، ہنر اور شعور شامل ہیں۔ ایسی ترقی پائیدار ہوتی ہے۔
اس کی وضاحت آسان الفاظ میں اس مشہور مثال سے دی جاتی ہے کہ کسی مجبور کو مچھلی دینے کی بجائے اس کو مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھایا جائے، یا کسی بھکاری کو بھیک دینے کی بجائے اس کو کوئی چھوٹاکاروبار بناکر دیں۔
اشتراک رسالے کے اس مضمون میں ایک گاؤں/محلے کی مثال دی تھی۔ وہ محلہ کچا ہے۔ اس کی گلیاں تنگ اور کچی ہیں۔ وہاں گند پڑا رہتا ہے۔ کوئی آکر ترقی کے نام پر اس محلے کی گلیوں میں سنگِ مرمر لگاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ترقی آگئی۔ کچھ دنوں بعد دیکھا، تو پتا چلا کہ وہ سنگِ مرمر کی تختیاں بھی گند اور غلاظت کے نیچے دب گئی ہیں۔
اس کے برعکس اگر کوئی آکر اس محلے کے لوگوں کو صفائی بارے آگاہ کرتا اور ان کے رویوں پر اثرانداز ہوتا، تو یہی کچی گلیاں پاک صاف ہوجاتیں اور لوگ انہیں خود پاک صاف رکھتے۔
ہمیں صرف ٹھوس چیزوں میں ترقی نظر آتی ہے، جیسے کہ سڑکیں، راستے، پل، گھر، ہوٹل، بازار، دکان، سکول کی عمارات وغیرہ۔
اسی طرح ہمیں صرف ’’نقدی‘‘ دولت لگتی ہے۔ ان ہی چیزوں کو ہم ترقی سمجھتے ہیں اور دولت کو خوشی و خوش حالی کا باعث۔ جو لوگ ذہنوں پر کام کرتے ہیں، ان کا کام ہمیں دو ٹکوں کا نہیں لگتا۔ وقت کی ہمیں کوئی قدر نہیں۔ رویوں کی کوئی پروا نہیں۔ ہم اگر اخلاقی درس بھی کسی شے کو سمجھتے ہیں، تو اس کو بھی چند باتوں اور کچھ خاص حلیوں تک محدود کرکے دیکھتے ہیں۔ اخلاق سے مراد پوری طرزِ زندگی ہوتی ہے، تاہم ہمارا تصور اس بارے بہت محدود ہے۔
اس طرح کردار کو شناخت بناچکے ہیں اور اسی کو کسوٹی سمجھے ہیں۔ کسی کو اس کے حلیے، نسل، رنگ، قومیت یا دولت سے جج کیا جاتا ہے۔ ہمیں کسی بندے کی سماجی و معاشرتی قدروں، پیشہ ورانہ قدروں اور انسانی قدروں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جن عوامل کی وجہ سے ان قدروں کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے، ان کو ہم نے اپنے کھوکھلے پن سے کھوکھلا کردیا ہے۔ ہماری تعلیم، سکول اور مدرسہ دونوں، خاص بیانیوں اور شناختوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ معافی چاہتا ہوں…… اس سے آگے کوئی بات مجھے ان عوامل میں نظر نہیں آئی۔
ہماری سیاست، اشرافیہ (سیاسی و عسکری) کے بیچ صرف طاقت کی رسہ کشی بن کر رہ گئی ہے۔ اس سیاست سے اقدار، اصول، سچائی اور نکتۂ نظر غائب ہوچکے ہیں۔ اب یہ دور تفہیمات اور خرافات کا دور رہ چکا ہے۔ ہر طبقہ اور فرد مذہب، سیاست، خدمت اور مزاحمت کو اپنے طور پر اپنے مفاد کی خاطر بناکر پیش کرتا ہے۔
ہمارے اپنے علاقے میں پہلے ترقی ’’نقدی‘‘ کو کہاجاتا تھا اور اس کے بڑے ذرائع زمین، جنگلات اور مویشی ہواکرتے تھے۔ جس کے پاس یہ اشیا، مال زیادہ ہوتا وہی امیر کبیر قرار پاتا اور وہی سیاست کرنے کا حقدار ٹھہرتا۔ اب اس کی جگہ دولت اور تجارت نے لی ہے۔ جو بندہ کچھ دولت کمائے معزز کہلاتا ہے اوروہ سر اٹھا کر سیاست شروع کرتا ہے۔ کیوں کہ سیاست میں دونوں مزے ہیں: یعنی شہرت/ نام بھی اور پیسا بھی۔ دولت عزت بن چکی ہے۔ دولت ترقی بن چکی ہے اور دولت ہی سیاست بن چکی ہے۔ اصول وغیرہ سب غائب ہوچکے ہیں۔ اسی سیاست اور دولت کی بنا پر مقابلہ شروع ہوگیا ہے اور یہی مقابلہ ہمیں پارٹیوں میں تقسیم کرتا ہے۔ انتہا درجے کا لالچی بناتا ہے۔ کاروبار کرنا، تجارت کرنا، سیاست کرنا اچھی چیزیں ہیں مگر ان سے اقدار اور اصول ایسے غائب ہوچکے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
یقین نہ آئے، تو کسی کاروباری، سیاسی یا تجارتی فرد سے معاملہ کرکے اس کا تجربہ خود کریں۔
ہماری ذہنی صلاحیت اور شعوری حالت اگر اسی پیمانے پر رہتی ہے…… تو میرا یقین کیجیے کہ ہمارے لوگ 2099ء میں بھی سڑکوں، پائپ، نلکوں اور راستوں کے پیچھے بھاگیں گے۔ کیوں کہ یہ چیزیں کبھی پائیدار نہیں ہوتیں اور ان کی اپنی عمر ہوتی ہے۔ ایسے میں حکومتیں اگر ان سب کی تعمیر کر بھی لیں، تو کچھ سالوں بعد یہ سب پھر خراب ہوجائیں گے۔
ایسے لوگوں کے ہاں ان چیزوں کی پائیداری کیا ہوگی جو کسی این جی اُو سے اپنے ہی گھر کے راستے کے لیے کیش فار ورک کے تحت جعلی چیک بنالیں! ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے جن کے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر پیکیج لیتے تھے/ ہیں! ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے جو کسی خیراتی این جی اُو سے پیکیج حاصل کرنے کو گاؤں کی سب سے بڑی غیرت گرادنتے ہوں! مجھے یاد ہے جب سیلاب کے بعد کسی گاؤں میں کوئی شخص اگر کوئی پیکیج وصول نہ کرپاتا،تو وہ بے چارہ سر جھکا کر چلتا کہ اس کی اتنی اوقات بھی نہیں ہوتی کہ کسی این جی اُو سے راشن کا پیکیج حاصل کرسکے!
مجھے یقین ہے کہ ہمارے بعض سیاسی رہنماؤں اور نمائندوں کو ان باتوں کا احساس ہے، مگر ان کی سیاسی مجبوری ہے کہ لوگ انھی ٹھوس چیزوں کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں اور ووٹ دیتے ہیں! جس ملک میں میٹرو، اورینج لائن اور گرین ٹراسپورٹ وغیرہ سب سے بڑی سیاسی خبریں ہوں، وہاں پائیدار ترقی کا کیا تصور کیا جاسکتا ہے!
یہی وجہ ہے کہ کوئی افسرشاہی اٹھتا ہے اور کسی سیاحتی مقام کی خوب صورتی کے لیے ایک ارب سے زیادہ رقم ٹائلوں پر خرچ کرتا ہے مگر وہاں کسی بندے کی سیاحت کے حوالے سے صلاحیت (Capacity) نہیں بڑھاتا!
یہی وجہ ہے کہ عمارات، راستوں، سڑکوں، پلوں، پائپوں پر زور دیا جاتا ہے لیکن ان سے جن انسانوں کا واسطہ پڑتا ہے، ان کے رویوں، اقدار اور معاملات پر کچھ توجہ نہیں دی جاتی۔
یہی وجہ ہے کہ ہم پیٹ کو بھرتے ہیں لیکن کھوپڑی کے اندر دماغ کو خالی رکھتے ہیں! یہ ساری سہولیات ان صلاحیتیوں کو بڑھانے میں مددگار عوامل ثابت ہوسکتی ہیں لیکن بنیادی تبدیلی کے لیے انسان کی ذہنی صلاحیت پر سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے!
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔