ہمارا عمومی رویہ

صبح تا شام اور پھر شام تا صبح ہم کتنی تنقید کرتے ہیں اور کتنی تعریف؟ اس کا ہمیں شاید خود بھی اندازہ نہیں ہے۔ تعریف نامی شے تو شاید ہم بھول گئے ہیں کہ آخری بار ہم نے کب، کیوں اور کس کی تعریف کی تھی؟ البتہ تنقید کا موقع ہم کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ’’تنقید برائے تنقید‘‘ ہماری معاشرتی کمزوری اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تنقید اگر اصلاح کے لیے ہو، تو کوئی بھی اس سے انکار نہ کرے، مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تنقید، اصلاح کی خاطر نہیں بلکہ سیاسی، نظریاتی اختلافات اور کلچر ڈائیورسٹی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ہم اوروں کے کلچر کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ان کی بود و باش ہم سے الگ ہے۔ اب اگر کسی کا کلچر ہم سے الگ ہو، تو ہم اس کو کس کھاتے میں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ ہمارے کلچر میں جو چیزیں عام ہیں، اس طرح ان کے کلچر میں بھی کچھ چیزیں عام ہوں گی، جنہیں ہم لائقِ تنقید سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اگر مخالف سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص آپ کے علاقے میں کوئی اچھا کام کرے، تو محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہم اس کے اچھے کام کی تعریف نہیں کرتے بلکہ اسے الیکشن کی تیاریوں اور ووٹ بنک کے حصول کا نام دیتے ہیں۔ پھر اگر کوئی ترقی کا کام ہو بھی رہا ہو، تو آپ کو صرف تنقید کی وجہ سے کوئی ترقی نظر نہیں آئے گی۔ اس طرح اگر کوئی نظریاتی طور پر الگ دنیا بسائے ہوئے ہو، تو ہم اُسے گویا تہذیب و تمدن کے دائرے سے ہی نکال دیتے ہیں۔
اگر ہم لوگوں کے نظریہ اور ثقافت کو ایک دوسرے سے الگ سمجھ کر انہیں بے وجہ تنقید کا نشانہ نہ بنائیں، تو ہمارے معاشرہ میں کافی حد تک امن اور بھائی چارہ قائم ہوسکتا ہے۔ اب اگر کوئی سیاسی بندہ کچھ اچھا کرتا ہے، تو اس کو تنقید کے بجائے تعریف سے نوازنا چاہئے۔ اگر امیر مقام سوات میں کوئی ترقیاتی کام کرتا ہے، تو ہم اس پر بھی تنقید کے نشتر چلانے سے نہیں کتراتے۔ لفظ ’’شکریہ‘‘ کہنا تو دور کی بات ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنقید نے ہمارے معاشرہ میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق لوکل انتظامیہ میں صفائی پر مامور افراد کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ ہر گلی کے لیے الگ سویپر مہیا کیا جائے۔ باقی یہ کام سویپر کے ذمہ ہے کہ وہ صفائی کرے۔ اگر وہ دیر سے صفائی شروع کرے، تو تنقید۔ اچھا کام کرے، تو اس کی تعریف کوئی نہیں کرتا۔ اسے کبھی شاباشی نہیں دی جاتی کہ آج آپ نے صفائی ٹھیک طرح سے کی ہے۔ ہماری بھی تو ذمہ داری بنتی ہے کہ ارد گرد ماحول کو جتنا ہوسکے، صاف رکھیں۔ بحیثیت ایک ذمہ دار شہری، ہم نے ماحول کو صاف رکھنے کے لئے کیا ہی کیا ہے؟

چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنقید نے ہمارے معاشرہ میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔ (Photo: charlesstone.com)

اگر ہم صرف تنقید کی حد تک رہ گئے ہیں، تو ترقی کا سفر اس طرح رکاوٹوں کا شکار رہے گا۔

اس طرح اگر ٹریفک پولیس ٹریفک رواں دواں رکھنے، بارش اور گرمی دونوں میں چوک کے بیچ کھڑے ہوکے ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہو، تو کوئی تعریف نہیں کرے گا اور نہ کوئی اس کے پاس جاکے اس کا شکریہ ادا کرے گا۔ البتہ اگر ٹریفک کی روانی میں تھوڑا خللل پڑ جائے، تو پھر تنقید ہم اپنا اولین حق گردانتے ہیں۔

کوئی اخبار یا خبر رساں ادارہ آپ کو علاقے کی پل پل کی خبر سے آگاہ کرے، تو کسی نے اس کا شکریہ ادا نہیں کرنا۔ الٹا خبر نہ چھپنے کی بھڑاس نکالتے ہوئے صحافیوں کے لئے ’’لفافہ صحافی‘‘ اور ’’زرد صحافت‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

اس طرح اگر سرکاری سکول کا کوئی طالب علم نمایاں کارکردگی دکھائے، تو کسی نے اسے تھپکی نہیں دینی اور نہ کسی نے تعریف کرنی ہے۔ انہیں سرکاری سکولوں کی خراب یا کمزور کاردگی پر ہم نے آسمان سر پر اٹھانا ہے کہ دیکھیں، اساتذہ کتنی تنخواہیں لے رہے ہیں۔ حکومت سکولوں پر خرچہ کر رہی ہے مگر اس کے باوجود یہ حال ہے۔ اس طرح اور بھی بہت سی چیزیں معاشرے میں موجود ہیں جن میں ہمیں صرف برائیاں اور کمیاں ہی نظر آتی ہیں، اچھائی بالکل نہیں۔ جتنی توانائی ہم تنقید کرنے میں صرف کرتے ہیں، اگر اس کا نصف بھی تعریف کرنے میں خرچ کرنے لگ جائیں، تو ترقی کا سفر اور ایک اچھا معاشرہ تشکیل پانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

…………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔