میری والدہ کا انتقال میرے بچپن میں ہوا تھا۔ میرے والد اور والدہ کی عمروں میں کم سے کم دس سال کا فرق تھا۔ والدہ دوسری شادی کرسکتی تھیں، مگر انھوں نے میری خاطر شادی نہیں کی اور ساری زندگی میری پرورش میں تیاگ دی۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آمین!
ابو جون رضا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/raza/
ایک خاص بات جو میں ہمیشہ محسوس کی، وہ والد کے انتقال کے بعد اُن کا شوخ کلر کے کپڑے پہننے سے اجتناب اور میک اَپ وغیرہ سے دوری تھی۔ وہ اچھی طرح سے سمجھتی تھیں کہ جس معاشرے میں وہ رہتی ہیں، اُس میں ہندو رسومات کا اثر موجود ہے۔ یہاں بیوگی کے بعد اگر عورت لال دوپٹا گلے میں ڈال لے، تو آوازیں اُٹھتی ہیں۔ شادی بیاہ میں ایسی خواتین کو دور رکھا جاتا ہے کہ کہیں اُن کا منحوس سایہ دولھا دلھن پر نہ پڑے اور شادی ناکام نہ ہوجائے۔
اسی طرح سے گود بھرائی کی رسم جس میں حاملہ خاتون کی گود میں پھل فروٹ وغیرہ رکھے جاتے ہیں اور مختلف رسومات ادا کی جاتی ہیں…… اُن میں بھی ایسی خواتینِ کو دور رکھا جاتا ہے، جن کے یہاں اولاد نہ ہو کہ کہیں ’’مس کیرج‘‘ نہ ہوجائے یا ہونے والے بچے یا حاملہ عورت پر کوئی برا اثر پڑ جائے۔
یہ وہ چند توہمات ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ اگر کوئی چاہے، تو بے تحاشا برے اعتقادات کی لسٹ اس کو معاشرے میں ڈھونڈنے سے مل سکتی ہے اور یہ اس معاشرے میں رائج ہے…… جہاں اللہ، رسول، اہلِ بیت اور صحابہ کا نام شد و مد سے لیا جاتا ہے۔ ایک طرف منھ سے کہتے ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور دوسری طرف خدا کو اتنا مجبورِ محض جانتے ہیں کہ بیوہ عورت کے دلھن کو رسم کروانے سے منحوسیت کا سایہ پڑنے کا گمان کرتے ہیں۔ یہ کھلا شرک ہے، جس کا اظہار ہمارے یہاں عام نظر آتا ہے۔
کمال تعجب ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ شادی شدہ جوڑوں میں ایک نہ ایک انسان اپنے شریکِ حیات سے پہلے مرجائے گا۔ یہ مسلمہ بات ہے اور ازل سے دنیا کے ہر جوڑے کے ساتھ یہ عمل ہوتا آیا ہے، مگر پھر بھی ان باتوں پر توجہ دی جاتی ہے۔
سر جیمز فریزر نے شاخِ زریں میں لکھا کہ ’’بولیویا کی ’ماکساس‘ قوم کا یہ اعتقاد تھا کہ اگر شکاری کی بیوی اُس کی غیر موجودگی میں اپنے شوہر سے بے وفائی کرے، تو اُس شکاری کو سانپ یا جیگوار کاٹ کھائے گا۔ چناں چہ اگر ایسا کوئی حادثہ پیش آتا، تو شکاری انسان کی بیوی کو خواہ اس کا قصور ہو یا نہ ہو…… خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا، بلکہ بعض اوقات اس کی پاداش میں وہ عورت قتل کر دی جاتی تھی۔‘‘
ہندومت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کی موت کے بعد پاک دامنی کے ساتھ زندگی بسر کرے، یا اُس کے ساتھ چتا پر چڑھ جائے۔ منو سمرتی میں لکھا ہے کہ ’’ستی ہونے والی عورت اتنے سال تک جنت میں رہتی ہے، جتنی شریانیں اس کے مرد کے جسم میں ہوتی ہیں۔‘‘ (منو دھرم شاستر، بابِ دوم)
اسی طرح سے یہ بھی لکھا ہے کہ کسی بھی ذی شعور کو اپنی بیٹی ایک شخص کو ایک بار دینے کے بعد کسی دوسرے شخص کو نہیں دینی چاہیے۔ نیک لوگ اس شخص کی مذمت کرتے آئے ہیں، جو اپنی جہالت کی وجہ سے بیوہ کو کسی دوسرے کی اولاد پیدا کرنے پر تفویض کرتے ہیں۔ بیوہ کو کسی دوسرے کے ساتھ نہیں رکھا جانا چاہیے…… جو لوگ ایسا کریں گے وہ ابدی قانون کی خلاف ورزی کریں گے۔ (منو دھرم شاستر، بابِ نہم)
یہ قبیح رسم ہمارے یہاں بھی ہندو معاشرے سے آئی ہے، جس میں بیوہ کی دوسری شادی کو تمسخرانہ انداز میں دیکھا جاتا ہے، یا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ خاص کر وہ خواتین جن کے شوہر کسی ناگہانی گولی کا شکار ہوتے ہیں، یا لسانی یا مذہبی دنگوں میں مارے جاتے ہیں اور ان کو ’’شہید‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین کو اُن کے گھر والے کہتے ہیں کہ تم شہید کی بیوہ ہو۔ اب تم ساری زندگی اس نام پر بیٹھی رہو۔ تمھیں یہ نام اپنے نام سے مرتے دم تک جدا نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی عورتیں مذہب پر یا معاشرے پر قربان ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنے ارمانوں اور جذبات کا گلا گھونٹتی ہیں اور ساری زندگی اس نام نہاد شہید کو یاد کرکے روتی ہیں۔ جو زندہ تھا، تو کھلے سانڈ کی طرح گھومتا تھا اور اس کی زندگی میں گھر میں کوئی خوش حالی گھر والوں کو دیکھنے کو نہیں ملی تھی، لیکن گولی لگتے ہی وہ اَمر ہوجاتا ہے…… اور اس کی بیوہ اس کے نام پر ساری زندگی بیٹھی رہتی ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر عورت شہید ہوتی، تو کیا اس کا شوہر بھی ساری زندگی رنڈوا بن کر رہتا…… اور جو نام نہاد شہید ہے، اس کو جنت میں 70 حوریں ملیں، یا اُس نے وہاں جاکر اعلان کردیا ہے کہ کیوں کہ میری بیوی دنیا میں اپنے جذبات کا گلا گھونٹے بیٹھی ہے، تو مَیں بھی یہاں نامردی کا ٹیکا لگا کر اس کے مرنے کا انتظار کروں گا……؟
یہ سب مذہبی پاک باز لوگ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیواؤں سے شادی کو مثال سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ عرب میں جہاد پر جانے والے افراد جو جنگ میں شہید ہوجاتے تھے، اُن کی بیوائیں تین مہینے بھی بمشکل بغیر شوہر کے رہتی تھیں اور ان کی عدت کے فوراً بعد شادی ہوجاتی تھی۔
اگر کسی کو بیواؤں کے مسائل کو قریب سے دیکھنا ہے، تو کینڈین نژاد ’’دیپا مہتا‘‘ کی فلم ’’واٹر‘‘ دیکھ لے…… جس کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ گوکہ فلم میں آزادی سے قبل کا دور دکھایا گیا ہے، لیکن جس انداز میں بیواؤں کے مسائل کو اُجاگر کیا گیا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔ اعلا ذات کی ہندو بیوائیں بچپن کی شادی کی وجہ سے اکثر کم عمر ہوتی ہیں، لیکن خاندان کی عزت اور وراثت کے تحفظ کے لیے انھیں شادی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ انھیں مجبوراً ستی (خود سوزی) کی رسم نبھانی پڑتی یا شوہر کے گزر جانے کے بعد زندہ رہتے ہوئے محرومی، سماجی طور پر پس ماندہ اور بدنامی کی زندگی بسر کرنا پڑتی۔
فلم میں بہترین منظر کشی کی گئی ہے کہ والدین اور عزیز و اقارب کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد بیوائیں سنیاس کا راستہ اختیار کرتے ہوئے آشرم میں پناہ لیتی ہیں اور سوگ کی علامت کے طور پر سفید لباس پہنتی ہیں۔ اس طرح تا عمر اپنے شوہر کی موت کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے لیے مذہبی تقریبات، تہوار، لذیذ کھانے، رنگ برنگے ملبوسات اور زیورات جیسی خوش گوار چیزیں ممنوع ہیں۔ مزید یہ کہ نام نہاد ’’پاک باز مرد‘‘ ان کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں۔
ایک تبصرہ نگار اس صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’1856ء کے ایکٹ میں ہندو بیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت تو دی گئی، مگر اس صورت میں وہ اپنے شوہر کی وراثت سے محروم ہوجاتیں۔ اس قانون کا اصل نفاذ ان بچیوں پر ہوتا تھا، جو شادی ہونے کے بعد اور رخصتی سے قبل بیوہ ہوجاتی تھیں۔‘‘
آج دور بدل گیا ہے۔ سوچ میں تبدیلی آگئی ہے، مگر کچھ رسومات اور توہمات نے ایسی جڑ پکڑی ہوئی ہے کہ ہمارے معاشرے سے ان کا خاتمہ اگلے پچاس سالوں میں بھی مشکل سے ہوتا نظر آتا ہے۔
قارئین! اللہ تعالا ہم سب کو عقل و شعور عنایت فرمائے اور دین کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔