زندگی کے پانچ بڑے پچھتاوے

زندگی کے پانچ بڑے پچھتاوے

ہر کسی کو پچھتاوے رہتے ہیں۔ کاش، ایسا ہو جاتا، ایسا کردیتا تو ٹھیک ہو تا، ایسا نہ کرتا، تو بھی ٹھیک بات ہوتی۔
برونی ویئر ایک آسٹریلین نرس تھیں۔ انہوں نے زندگی کے کئی برس ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے میں گزارے جن کی زندگی مٹھی میں بھری ریت کی طرح بڑی تیزی سے سرک رہی تھی، جن کے پاس چند ہفتوں کی مہلت تھی۔ اس کے زیادہ تر مریض شدید بوڑھے اور بیمار ترین لوگ تھے، جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ موت کا انتظار اور مرنا، یہ دو کام بچ گئے تھے۔ برونی کا کام ایسے مریضوں کی دیکھ بھال اور انہیں ذہنی دباؤ سے نجات دلانے کی کوشش کرناتھا۔ یہ کوئی عام ذہنی دباؤ نہیں تھا بلکہ موت کو اپنے دوبدو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہونے کی وجہ سے پیداکردہ ذہنی ہیجان تھا۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسا دباؤ کس قدر شدید اوراَن مٹ ہوسکتا ہے۔ زندگی تو سب کو پیاری ہوتی ہے، مگر موت زیادہ تر انسانوں کے لئے کمفرٹیبل زون نہیں ہوتا، حتی کہ ہم اس کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا تک پسند نہیں کرتے۔دنیا کی سب سے دکھی حقیقت اور سچ یہ ہے کہ ہم تمام لوگ ایک نہ ایک دن مر جائیں گے۔ ہم جی ہی اس لئے رہے ہیں کہ ایک دن مر سکیں۔ آپ کو پتا چل جائے کہ آپ کی زندگی ہفتوں پر محیط بچی ہے، تو آپ اس کڑوی گولی کو نگل نہیں سکیں گے۔ ایسے لوگ شروع میں انکار کرتے ہیں، پھر خوف زدہ ہو جاتے ہیں، پھر غصے کا شکار ہونے لگتے ہیں، پھر دوبارہ انکاری اور آخر کار تھک ہار کر موت کو قبول کر لیتے ہیں۔ ایسے موت کے انتظار میں زندگی کی آخری ا سٹیشن پر بیٹھے مریضوں کے پچھتاوے جب برونی نے یکجا کئے، تو اسے پانچ پچھتاوے عام اور بہت زیادہ ملے۔ اس بھلی مانس نے اپنی کتاب میں یہ پچھتاوے لکھ دیئے۔ آپ ان کو پڑھ کر چونک جائیں گے، حیران ہو جائیں گے اور سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

زندگی تو سب کو پیاری ہوتی ہے، مگر موت زیادہ تر انسانوں کے لئے کمفرٹیبل زون نہیں ہوتا، حتی کہ ہم اس کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا تک پسند نہیں کرتے۔دنیا کی سب سے دکھی حقیقت اور سچ یہ ہے کہ ہم تمام لوگ ایک نہ ایک دن مر جائیں گے۔ ہم جی ہی اس لئے رہے ہیں کہ ایک دن مر سکیں۔ آپ کو پتا چل جائے کہ آپ کی زندگی ہفتوں پر محیط بچی ہے، تو آپ اس کڑوی گولی کو نگل نہیں سکیں گے۔ ایسے لوگ شروع میں انکار کرتے ہیں، پھر خوف زدہ ہو جاتے ہیں، پھر غصے کا شکار ہونے لگتے ہیں، پھر دوبارہ انکاری اور آخر کار تھک ہار کر موت کو قبول کر لیتے ہیں۔ ایسے موت کے انتظار میں زندگی کی آخری ا سٹیشن پر بیٹھے مریضوں کے پچھتاوے جب برونی نے یکجا کئے، تو اسے پانچ پچھتاوے عام اور بہت زیادہ ملے۔ اس بھلی مانس نے اپنی کتاب میں یہ پچھتاوے لکھ دیئے۔
زندگی تو سب کو پیاری ہوتی ہے، مگر موت زیادہ تر انسانوں کے لئے کمفرٹیبل زون نہیں ہوتا، حتی کہ ہم اس کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا تک پسند نہیں کرتے۔دنیا کی سب سے دکھی حقیقت اور سچ یہ ہے کہ ہم تمام لوگ ایک نہ ایک دن مر جائیں گے۔ ہم جی ہی اس لئے رہے ہیں کہ ایک دن مر سکیں۔ آپ کو پتا چل جائے کہ آپ کی زندگی ہفتوں پر محیط بچی ہے، تو آپ اس کڑوی گولی کو نگل نہیں سکیں گے۔ ایسے لوگ شروع میں انکار کرتے ہیں، پھر خوف زدہ ہو جاتے ہیں، پھر غصے کا شکار ہونے لگتے ہیں، پھر دوبارہ انکاری اور آخر کار تھک ہار کر موت کو قبول کر لیتے ہیں۔ ایسے موت کے انتظار میں زندگی کی آخری ا سٹیشن پر بیٹھے مریضوں کے پچھتاوے جب برونی نے یکجا کئے، تو اسے پانچ پچھتاوے عام اور بہت زیادہ ملے۔ اس بھلی مانس نے اپنی کتاب میں یہ پچھتاوے لکھ دیئے۔

٭ پہلا پچھتاوا جو سب سے زیادہ سننے کو ملا وہ یہ تھا کہ ’’کاش، میں اپنی خواہشات اور خوابوں کے پیچھے بھاگتا نہ کہ ان خوابوں کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا جن کی توقع دوسروں نے مجھ سے لگائی۔‘‘ جب انسان موت کو سامنے دیکھتا ہے، تو سب سے پہلے وہ اپنی گزری زندگی پر نظر دوڑاتا ہے۔ یہ نظر دوڑانااسے آسان ترین کام محسوس ہوتا ہے۔ ایسے خوابوں کو زیادہ سوچتا ہے کہ جو پورے نہ ہوسکے۔ ہم زندگی بھر فضول خواہشوں اور خوابوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ ان کو پالینے سے ہم دکھی ہوجاتے ہیں،نہ پاسکنے کی صورت میں ڈبل دکھی ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ ہم کبھی خواہشوں اور خوابوں کا تجزیہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ہم خواب تو دیکھتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ اس خواب کا پورا ہو جانا ہمیں خوشی بھی دے گا یا ہم مزید دکھی ہوجائیں گے۔ ایسے پچھتاؤں سے بچنے کیلئے صرف یہ سوچیں کہ آپ کو کس بات سے خوشی ملتی ہے؟ صرف اس پر فوکس رکھیں۔ باقی بوجھ لاد کر پھرنے کی بجائے اُتار کر پھینک دیں۔ اگر ایسا کرتے ہوئے آپ خوف زدہ ہیں کہ لوگ آپ کی ترجیحات کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ تو یاد رکھیں کہ ان کی کہی ہوئی باتیں آپ کی زندگی کے آخری دنوں میں کوئی معنی نہیں رکھتی ہوں گی۔ وہ بول کر خاموش ہو جائیں گے، آپ اپنی راہ پر چلتے رہیں۔ اگر آپ نے ان کی باتوں میں آکر اپنی راہ کو چھوڑ دیا، تو ان کی باتوں کا شور مرتے دم تک آپ کا پیچھا کرتا رہے گا۔ سو ان کی باتوں کو سنیں اور اگنور کر دیں۔

پہلا پچھتاوا، ’’کاش، میں اپنی خواہشات اور خوابوں کے پیچھے بھاگتا نہ کہ ان خوابوں کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا جن کی توقع دوسروں نے مجھ سے لگائی۔‘‘
پہلا پچھتاوا، ’’کاش، میں اپنی خواہشات اور خوابوں کے پیچھے بھاگتا نہ کہ ان خوابوں کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا جن کی توقع دوسروں نے مجھ سے لگائی۔‘‘

٭ دوسرا پچھتا وا ہماری جانفشانی اور محنت کے بارے میں ہے۔ اکثر مرد حضرات کو یہ پچھتاوا تھا کہ کاش، ہم کھوتوں کی طرح دن رات محنت کے ہل میں نہ جتے رہتے۔یہ وہ تمام لوگ تھے جو میرا مستقبل، میرا کاروبار، میری ترقی کرتے کرتے موت کی وادی تک جاپہنچے۔ اس دوڑ میں یہ اپنے بیوی بچوں کو بھول گئے۔ ماں باپ کو بھلا بیٹھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر زندگی دوبارہ ملے، تو اس بار کیسے گزاروگے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم اپنے لائف سٹائل کو سادہ رکھیں گے اور پیسے کے حصول کی دوڑ میں کبھی شامل نہیں ہوں گے۔ وہ پیسہ جس کا ہم پیچھا کرتے رہے جس کی ہمیں ضرورت ہی نہ تھی۔ سادہ زندگی نہ صرف ہمیں خوشی اور اطمینان دے گی بلکہ ہمیں وقت بھی ملے گا اپنے پیاروں کے ساتھ گزارنے کیلئے۔ افسوس وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھومتا، سو یہ کہہ کرایسے سب کامیاب مریض برونی کے سامنے بلک بلک رو دیئے کہ کاش، ہم ایک بارماضی میں جا سکیں اور ان کو پاسکیں، جنہیں ہم نے بلا وجہ کھو دیا۔

دوسرا پچھتاوا، ‘‘کاش، ہم کھوتوں کی طرح دن رات محنت کے ہل میں نہ جتے رہتے۔"
دوسرا پچھتاوا، ‘‘کاش، ہم کھوتوں کی طرح دن رات محنت کے ہل میں نہ جتے رہتے۔”

٭ تیسرا پچھتاوا زندگی میں قوت اظہار کے بارے میں تھا۔ لوگ اپنے دل کی باتوں کو زندگی بھر دبائے رکھتے ہیں۔ چاہنے کے باوجود اظہار نہیں کر پاتے۔ لوگ اپنا غصہ دبا جاتے ہیں کہ سچ بول دیا، تو تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ دل کی باتوں کو دبانے سے بے چینی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ بے چینی اپنی کوکھ سے ڈپریشن کو جنم دیتی ہے۔ ہم اپنے اندر کی تلخی سے بچ سکتے ہیں، اگر ہم ہر حال میں اپنے اندر جنم لینے والے طوفان سے تنہامقابلہ کرنے کی بجائے انہیں ساحلوں سے ٹکرانے دیں، ہو سکتا ہے کہ یہ طوفان ساحل سے ٹکرا کر کچھ بربادی پھلائیں۔مگر یہ دبی بربادی مستقبل کے سکوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

تیسرا پچھتاوا، "چاہنے کے باوجود اظہار نہیں کر پاتے۔"
تیسرا پچھتاوا، "چاہنے کے باوجود اظہار نہیں کر پاتے۔”

٭ چو تھا پچھتاوا دوستوں کو کھو دینے، ان سے دور ہوجانے کا تھا۔ کسی نے پیسے کی دوڑ میں دوستوں کو پیچھے چھوڑ دیا، کسی نے بیوی بچوں کے چکر میں دوستوں کو اگنور کردیا۔ دوست وہ واحد ہستی ہوتے ہیں، جو ہمارے ماضی، حال اور مستقبل سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کا ساتھ ہمیں ہمت دیتا ہے کہ ان سے وہ بھی شیئر کریں جو ہم اپنے خونی رشتہ داروں سے بھی نہیں کر پاتے۔

چو تھا پچھتاوا, "پیسے کی دوڑ میں دوست، رشتے، ناتے سب کچھ چھوڑ دیا۔"
چو تھا پچھتاوا, "پیسے کی دوڑ میں دوست، رشتے، ناتے سب کچھ چھوڑ دیا۔”

٭ آخری پچھتاوا خوشی سامنے کھڑی دیکھ کر بھی اس سے نظریں چرا کر دکھوں کو بلا وجہ جھیلنے کر بارے میں تھا۔ خوشی کو ہم چنتے ہیں نہ کہ خوشی ہمارا احتساب کرتی ہے۔ دکھی ہونا اور خوش رہنا دونوں ہی سیکھنا پڑتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اگر زندگی ریورس گیئر لگائے، تو اب کی با ر یہ ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر آزمائیں گے۔ حالات بھلے جو بھی ہوں گے، پیسہ ہو گا یا غربت ہوگی؟ یہ اپنا فوکس خوشی پر رکھیں گے۔ ہم تمام زندگی پیسہ، اسٹیٹس، طاقت اور کامیابی کو حاصل کرنے کے جنون میں سمجھتے ہیں کہ یہ سب چیزیں مل کر خوشی لائیں گی۔ خوشی کی چابی ان چیزوں کے بجائے اس بات میں ہے کہ خوشی کے حصول کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خود کو ریلکس رکھنا سیکھیں اور زندگی میں اچھی باتوں اور چیزوں کی تعریف کرنا سیکھیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم انسان ہیں، ہم خطا کے پتلے ہیں۔ہم پچھتاؤں کو ختم نہیں کرسکتے لیکن ہم ان کم ضرور کرسکتے ہیں۔ مرتے دم جتنے پچھتاوے کم ہوں، اُتنا ہی اچھا ہے۔

آخری پچھتاوا، "خوشی سامنے کھڑی دیکھ کر بھی اس سے نظریں چرا کر دکھوں کو بلا وجہ جھیلنا تھا۔"
آخری پچھتاوا، "خوشی سامنے کھڑی دیکھ کر بھی اس سے نظریں چرا کر دکھوں کو بلا وجہ جھیلنا تھا۔”

اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں،تومطلب آپ زندہ اور صحت مند ہیں۔ آپ کے پاس ابھی بھی چوائس کا وقت ہے۔ یاد رکھیں، زندگی ایک بار ملتی ہے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ لوگوں کی باتوں پر کان دھر کر پچھتاؤں کی دلدل میں دھنستے جائیں یا اپنی مرضی سے جی کرپُرسکون موت مرسکیں۔ صحت کی، زندگی کی، دوستوں کی، بیوی بچوں اور والدین کی قدر کریں۔ اس سے پہلے کہ آپ ان کو کھودیں یا یہ آپ کو چھوڑ دیں۔