عیدالبقر کے قریب آتے ہی شہروں میں قربانی کے جانوروں کی منڈیاں سج جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ منڈیاں بھی اب جدید رنگ میں رنگتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان منڈیوں میں مختلف اقسام کے جانور پھولوں اور ہاروں سے سجائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر طرف گھنگھروؤں کی چھم چھم جبکہ اکثر جگہوں پر ان کی خوبصورتی کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے منڈی مویشیاں نہیں بلکہ جانوروں کا ’’بازارِ حسن‘‘ لگ گیا ہے۔ پہلے صرف دیہاتوں سے لوگ اپنے جانوروں کو لاکر منڈی میں فروخت کرتے تھے مگر اب سرمایہ کاروں اور مارکیٹنگ کے لوگوں کی آمد سے اِن منڈیوں میں صحت تمند مقابلوں کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق اب جانور فروخت کرنے والے ساتھ خوبیاں بھی گنواتے ہیں۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ کریں کہ بکرا منڈی میں بیوپاری حضرات گاہکوں کو متاثر کرنے کیلئے انکی خوبیاں کیسے بیان کرتے ہیں۔
٭ فیشنی بکرا:۔ یہ لیڈیز فیشن سے متاثر فیشنی بکرا ہے۔ اس کو فیشن کرنے اور نت نئے انداز اپنانے کا چسکا ہے۔ ذرا اس کا سنگھار تو دیکھیں، ماشاء اللہ کتنا سندر لگ رہا ہے۔ مادھوری، ریما اور ایشوریا رائے سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں بلکہ وہ تو اس کے مقابلے میں پلاسٹک کی لگتی ہیں۔ البتہ ’’مِس ورلڈ‘‘ بھی اگر اسے دیکھ لے، تو یقیناً شرما جائے۔ اگر بیگم صاحبہ کو اپنے حسن پر بہت ناز ہے اور آپ کو ہر وقت بدصورت ہونے کا طعنہ ملتا ہے، تو پھر اس فیشن ایبل بکرے کو خرید کر اپنے گھر لے جائیں۔ اس طرح نہ صرف بیگم صاحبہ جیلس ہوں گی بلکہ فرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بھی بن جائیں گی۔
٭ شرارتی بکرا:۔ یہ بکرا کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کی شرارتیں ہی ہیں جو دل میں اْتر جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس بکرے کی خوبیاں کیا بیان کریں جی! یہ خود ہی اپنی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ اسے خرید کر تو دیکھیں، آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ اس کی معصوم شکل پر نہ جانا، اندر سے یہ بہت شرارتی ہے۔ ویسے صاحب جی!برا نہ منانا، شکل تو آپ کی بھی اس بکرے سے ملتی جلتی ہے۔ اگر دونوں کو ایک ساتھ باندھ دیا جائے، تو فرق کرنا مشکل ہو جائے گا کہ ان میں سے بکرا کون سا ہے؟
٭ انگریز بکرا:۔ یہ صرف شکل سے ہی گورا نہیں بلکہ اندر سے بھی گورا مطلب انگریز ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ انگریزی بولتا ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے کہ اپریل کے بعد کونسا مہینہ آتا ہے، تو فر فر انگریزی میں جواب دیتا ہے’’مے‘‘ (May) لیکن چونکہ یہ خاندانی ڈھیٹ ہے، اس لیے اس کی انگریزی سننے کیلئے زور سے اس کے کان مروڑنے پڑتے ہیں۔ آج کل کچھ پریشان سا ہے لیکن آپ کو بالکل بھی پریشان نہیں کرے گا۔
٭ چائنا بکرا:۔ پہلی بار انتہائی سستا بکرا بھی مارکیٹ میں آ چکا ہے اور جلد ہی ان کی بڑی کھیپ ہماری مارکیٹوں کا رُخ کرنے والی ہے۔ اس کا ساتواں حصہ ’’پہلے آئیں پہلے پائیں‘‘ کی بنیاد پر بک کرائیں یا پھر مکمل بکرا پوری فیملی کیلئے صرف پانچ سو روپے میں خرید سکتے ہیں، مگر خیال رہے کہ یہ چائنا کا بکرا ہے۔ اگر آپ کے گھر جا کر بھونکنا شروع ہو گیا یا پھر چھینکنے سے اس کی بتیسی باہر نکل آئی، تو میں ہرگز ذمہ دار نہیں، کیونکہ چائنا کے مال کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔
٭ جیکی چن بکرا:۔ یہ مارشل آرٹ فلموں کے شہنشاہ جیکی چن کی طرح پھرتیلا بکرا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام بھی ’’جیکی چن‘‘ پڑ گیا ہے۔ اس بکرے کی لڑائی کی مہارت کے تو بڑے بڑے پہلوان بکرے بھی مداح ہیں۔ یہ مخالف کو منٹوں میں چِت کر دیتا ہے۔ اس کے دونوں بھائی ’’بروسلی‘‘ اور ’’جیٹلی‘‘ کل ہی فروخت ہو چکے ہیں۔ قربان جاؤں اس کی اداؤں پر ، مجھے لگتا ہے یہ ذبح ہونے کے دوران میں بھی کہیں پھرتی سے اْٹھ نہ کھڑا ہو۔
٭ کتا بکرا:۔ یہ بھونکتا ہے اور نہ ہی کتے کی نسل سے ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک عجیب سی داستان ہے۔اصل میں پہلے اس بکرے کا مالک ایک نشئی تھا۔ ایک دن اْس نے اپنے دوستوں کی دعوت کا پروگرام بنایا اور اپنے ہی گھر سے رات کو بکرا چوری کرکے دعوت کر ڈالی۔ صبح جب گھر گیا، تو بکرا گھر میں ہی موجود تھا۔ بیوی سے پوچھا یہ بکرا کہاں سے آیا؟ بیوی کہنے لگی !بکرے کو گولی مارو کسی نے رات کو ہمارا کتا چوری کر لیاہے۔ بس اْس دن سے اس کا نام ’’کتا بکرا‘‘ پڑ گیا ہے۔
٭ قیمتی بکرا:۔ اس بکرے کی قیمت پچاس ہزار روپے ہے۔ آپ قیمت سن کر ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ آیا اس میں ایسی کیا خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ خوبیوں کو گولی ماریں جناب! اصل میں بات یہ ہے کہ کل تک اس کی قیمت صرف دس ہزار روپے تھی، مگر شام سے یہ میرے ہاتھ میں پکڑے چالیس ہزار روپے نگل گیا ہے۔ یہ کمزور ہے، مانتا ہوں، یقینا آپ مجھے پاگل سمجھیں گے کہ کمزور بکرے کو قیمتی کیوں ظاہر کر رہا ہوں لیکن بھائی صاحب! پھر بھی قیمتی ہے۔ کیوں کہ میری قیمت بھی تو اس نے دینی ہے۔
٭ ڈھیٹ بکرا:۔ یہ ہے نہایت ہی خوبصورت اور پیار کے قابل بکرا، جسے دیکھتے ہی اس پر پیار آ جاتا ہے مگر انتہائی درجے کا ڈھیٹ ہے۔ اب سمجھ نہیں آتی کہ اسے اس کی سادگی سمجھوں یا ڈھیٹ پن، کیوں کہ اگر اسے کوئی کہتا ہے کہ آ جاؤ میاں دھوپ میں کیوں کھڑے ہو؟ تو یہ اور آگے بڑھ کر سورج کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر اسے کہا جائے کہ بارش تیز ہے چھت کے نیچے آ جاؤ، تو یہ چھت کے نیچے آنے کی بجائے آسمان کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر چھینکیں اور بخار میں ساری رات گزار دیتا ہے۔
٭ سیاسی بکرے:۔ یہ ایسے سیاسی بکرے ہیں جو ہر بار قوم کو قربانی کا بکرا بنا کر خود بچ نکلتے ہیں لیکن اس بار ہم انہیں بھی بکرا منڈی تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ کیونکہ پوری قوم کی یہ آواز ہے کہ اب کی بار ان سیاسی بکروں کو ہی قربانی کا بکرا بننا چاہئے اور پھر ان تنومند بکروں کا گوشت پوری قوم میں منصفانہ تقسیم ہو۔ قصائی تیار ہیں، چھریاں تیز کی جا رہی ہیں لیکن خدا جانے ان بکروں کی قربانی قبول بھی ہوگی یا نہیں؟
٭ عوامی بکرے:۔ یہ ایسے معصوم عوامی بکرے ہیں جو ہمیشہ قربان ہوتے رہتے ہیں۔ روزانہ مذبح خانوں میں یہ بکرے چھری کے نیچے ہوتے ہیں ، جبکہ بسا اوقات حکمرانوں کے بھی کام آتے ہیں اور ان کا جب جی چاہتا ہے کسی ایک یا تمام بکروں کو قربان کرکے اپنا صدقہ اتار لیتے ہیں۔اب تو وہ اپنی بولیوں میں بھی ان بکروں کو قربانی کیلئے تیار رہنے کا حکم صادر فرماتے رہتے ہیں اور یہ ہر وقت قربانی کا بکرا بننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔