ایک بار پھر سینما ہال کھچا کھچ بھرا ہے اور شائقین بڑے انہماک سے فلم دیکھنے میں مصروف ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس بار مگر’’انٹرول‘‘ سے پہلے پہلے ہی دیکھنے والوں کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ فلم اختتام تک چلے گی بھی یا نہیں؟ اس کے لیے تھوڑا سا انتظار کرنا ہوگا۔ بہرحال فلم کوئی بھی ہو، توجہ کا مرکز ہیرو ہی ہوتا ہے۔ شائقین ہیرو ہی پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ جب کسی مظلوم کی دادرسی کرتاہے، تو ناظرین سے واہ واہ کی داد وصول کرتاہے، اور اگر کہیں کسی فلم میں وہ حقیقی ہیرو نہ لگے، تو شائقین ناراض ہوجاتے ہیں۔ فلم دیکھنے والے ناظرین مگر بھول جاتے ہیں کہ ہیرو صرف ایک اداکار ہے۔ وہ حقیقی طور پر کتنا ہی باکمال ہو، ہدایتکار اور سکرپٹ رائٹر کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ لہٰذا ہیرو کو ملنے والے سکرپٹ پر ہدایتکار کی درج شدہ ہدایات کی روشنی میں بے چوں وچرا عمل کرنا ہوتا ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ سنیما میں فلم کا پردہ ہو، یا کمپیوٹر سکرین، ہر جگہ ہرفلم میں کیمرہ زیادہ تر ہیرو پر ہی فوکسڈ رہتاہے۔ ہیرو ایک طرح سے ہدایتکار کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جاتا ہے۔ دیکھنے والوں کو مگر ہدایتکار اور سکرپٹ رائٹر چوں کہ نظر نہیں آتے، اس لیے فلم کی کامیابی اور ناکامی دونوں کے لیے بظاہر ہیرو بیچارے کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے۔ ہدایتکار عوامی نظروں سے دور بیٹھا سکرپٹ رائٹر سے اپنی مرضی کا سکرپٹ لکھواتا ہے۔ پھر اُس سکرپٹ کی بنیاد پر کسی مناسب ہیرو کو تلاش کیا جاتا ہے۔ آخرِکار فلم کی شوٹنگ شروع ہوجاتی ہے، جسے آپ حسبِ ذائقہ ’’انتخابات‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہیرو پردے پر نمودار ہو کر آغاز میں داد سمیٹنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ سین پر سین گزرتے ہیں اور ہیرو ہدایتکار کی ہدایات کی روشنی میں اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔ اب جیسے ہی کوئی اداکار حقیقی ہیرو بننے لگتاہے، تو ’’عسکری کمرشل‘‘ چلا دیے جاتے ہیں۔ ’’انٹرول‘‘کے دوران میں ہیرو کو اس کی اوقات یاد دلائی جاتی ہے اور سکرپٹ پر عمل کرے کا کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف ناظرین بھی ہیرو کی تبدیلی پر تالیاں بجاتے ہیں کہ ممکن ہے، اب کچھ اچھے مناظر اور بہتر ادکاری دیکھنے کو ملے اور فلم میں دکھائے جانے والے مسائل ختم ہوجائیں۔
اس دوران میں ہیرو ایک نئے جذبے ساتھ ہر مسئلے کاجادوئی حل پیش کرکے ناظرین سے داد وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر پانچ سال دورانیے کی فلم مکمل ہو جاتی ہے۔ یوں شائقین پھر ہیرو کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں کہ نکما اور نالائق ہیرو کسی کام کا نہیں تھا۔ پوری فلم کا بیڑا غرق کر دیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔
پھر ایک دن پچھلی ڈوبنے والی فلم کے ہدایتکار کو ایک دراز قامت، وجیہہ، خوبصورت اورپڑھا لکھا ہیرو مل جاتا ہے۔ اسے دیکھتے ہی ہدایتکار چچا اُسی دن ایک اور فلم چلانے کی تیاری کرتا ہے۔ سکرپٹ لکھاجاتاہے اور شوٹنگ کے لیے ایک پورا صوبہ سیٹ کے طور پر اُسے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہیرو کو اچھی اداکاری پیش کرنے کے لیے خوب تیار کیا جاتا ہے۔ دارالحکومت کی سڑکوں کو بھی کئی مہینوں تک ہیرو کے قبضے میں دیا جاتاہے، تاکہ خوب تیاری ہوسکے اور جوں ہی اصل فلم ریلیز ہو، تو ہیرو ہر طرف سے داد سمیٹنے میں کامیاب ہو۔ المیہ مگر یہ ہوتا ہے کہ ہیرو کو جو سکرپٹ تھمایا جاتا ہے۔ اس کے مطابق ہیرو اور تو کچھ نہیں کرسکتا، البتہ جذباتی ’’گالی برداروں‘‘ کا گروہ ضرور اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، جس کا کام ہرمخالف کو بے عزت کرنا اور برابھلا کہنا ہوتا ہے، تاکہ کوئی ہیرو کی کارکردگی، ہدایتکار کی ہدایات اور سکرپٹ کے معیار پر سوال نہ اٹھا سکے۔ یوں خوبصورت چہرے والا ہیرو بھی دیکھنے والوں کی نظرمیں ’’ولن‘‘ بن جاتاہے اور عوام اس ولن کے ظلم کی وجہ سے یا تو فلم دیکھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں، یا ’’فاسٹ فارورڈ‘‘ کرکے اسے جلدی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر بھی کوئی یاد نہیں کرتا کہ ہیرو بیچارہ توفقط ایک اداکار ہے، جو دیے گئے سکرپٹ اور ہدایات کے مطابق بہترین انداز میں اداکاری کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر کیا کیا جائے، جب نہ تو سکرپٹ میں کوئی دم ہے اور نہ ہدایات کاری میں۔
واضح رہے کہ اس قسم کی فلموں کا جو ہدایتکار ہے، وہ حقیقی طور پر زمینی حقائق اور عوامی توقعات سے بے بہرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر بار اُس کی بنائی ہوئی فلم ’’فلاپ‘‘ ہوجاتی ہے۔ آج کل بھی جو فلم سنیما کی زینت بنی ہوئی ہے۔ اس میں بھی ہیرو اداکاری کے جوہر دکھانے میں مصروف تو ہے، مگر سکرپٹ بے دم اور ہدایتکار ایک بارپھر ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ناظرین کب تک یہ’’فلاپ‘‘ فلم برداشت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ اس لیے عرض یہی ہے کہ فلم کی کامیابی اورناکامی کے اصل ذمہ دار سکرپٹ رائٹر اورہدایتکار ہیں، جو پردے کے پیچھے ہیں۔ ہدایتکار کو چاہیے کہ عوامی امنگوں کے مطابق فلم بنائے، جس میں سماجی مسائل کاذکر اور حل ہو، تاکہ ہیرو کی اداکاری بھی تھوڑا سا رنگ لائے۔ ورنہ گھسے پٹے خیال پر پرانے سکرپٹ کے تحت کسی نئے ہیرو کو موقعہ دینا وہ بات ہوئی کہ شراب تو وہی پرانی ہے، مگر صرف بوتل تبدیل کر دی گئی ہے۔ سکرپٹ جان دار نہ ہو، اور ہدایت کار عصرِ حاضر کے تقاضوں سے واقف نہ ہو، تو اداکار کہاں تک دوڑ لگائے گا؟ فلم تو فلاپ ہوگی ہی۔

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔