سال 2020ء پاکستان سمیت پوری دنیا پر قیامتِ صغرا بن کے گزرا۔ یہ کرونا جیسے جان لیوا وبا کا سال تھا۔ بے شک یہ دکھ، درد، پریشانی، بے روزگاری اور مہنگائی کے طوفان کا سال تھا۔ لیکن اس صورت حال میں یہ ’’خپل کلی وال کارواں کوکارئی سوات‘‘ جیسی تنظیم کی ’’ایجاد‘‘ کا سال تھا، جس نے ناامیدی میں امیدوں کی سفارت کاری کی۔ عوام کو دلاسہ دیا اور وبائی صورت حال میں محفوظ رہنے کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ ہزاروں بے آسرا لوگوں کے دکھوں کا درماں اور غریبوں کا سہارا بنا۔ اس تنظیم نے پچھلے رمضان المبارک کے دوران میں سو سے زائد افراد کو یومیہ افطار پیکیج بھی دیا اور راشن بھی تقسیم کیا۔ تیرہ سو سے زیادہ غریبوں کو دیوارِ مہربانی کے ذریعے کپڑے اور جوتے دیے۔ سعودی عرب سے بھیجے گئے ایک ہزار گرم جیکٹ اور جرسیاں فراہم کیں۔ عید الضحیٰ کے موقع پر لگ بھگ دوسو افراد کو قربانی کا گوشت پہنچایا۔ کوکاری اور جامبیل میں میڈیکل کیمپس لگا کر ڈھائی ہزار لوگوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی۔ طبی ٹیسٹ اور ڈاکٹری نسخوں کے مطابق ادویات دیں۔ سکولوں کے 90 طلبہ کو جرسیاں اور نوٹ بکس دیں۔ کھلاڑیوں میں ڈیڑھ لاکھ روپے تک کھیلوں کا سامان تقسیم کیا، جب کہ کرکٹ کھلاڑیوں کو نیٹ پریکٹس کے لیے درکار بنیادی سہولیات مہیا کیں۔ درجنوں بیماروں کو خون کے عطیات دیے۔ علاقے کے اصلاحی اور مفاہمتی عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور کئی خاندانوں کے درمیان جاری اختلافات اور دشمنیاں ختم یا کم کرنے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ پورے گاوں میں بھرپور صفائی مہم کا آغاز کیا۔ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کو پہلی بار صفائی کے عمل میں شراکت دار بنایا۔ بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے تجربہ کے طور پر قرضِ حسنہ سکیم شروع کیا، اور دس لوگوں کو دس دس ہزار روپے دیے گئے، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر یہ سکیم کامیاب نہ ہوسکا۔ مین اڈے کے تندور میں نیکی کی ٹھوکری رکھی، اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے کئی افراد کو روٹیاں فراہم کیں۔ وبا کے دوران گھروں میں مصروف رہنے کے لیے ’’کچن گارڈننگ‘‘ کا ’’آئیڈیا‘‘ دیا اور 27 گھروں میں سبزیوں کے بیج تقسیم کیے۔ دیہات میں حجرے کا کلچر دوبارہ متعارف کرنے کے لیے کام کیا اور اس بارے نئی نسل کی معلومات کو ’’اَپ ڈیٹ‘‘ کرنے کی کوششیں کیں۔ آئی آر سی جیسے بین الاقوامی ادارے کے تعاون سے تین ولیج کونسلوں کے تقریباً 17 سو معذروں، یتیموں، بیواؤں، بیماروں اور سفید پوشوں کو 22 ہزار 5 سو روپے نقد امداد فراہم کرنے کی سفارش کی۔ بیماروں کے لیے ایمبولنس سروس اور فری میڈیکل سٹور کھولا۔ نوجوانوں کو نشے کی عادت سے چھٹکارا دلانے کے لیے آگاہی مہم شروع کی، اور ’’واکس‘‘ اور ’’سیمینار‘‘ کا اہتمام کیا۔
اس کے علاوہ ’’میری کہانی میری زبانی‘‘ جیسے پروگرام کا انعقاد کیا، جس میں نامی گرامی شخصیات کو اپنی کامیابی کی کہانیاں، طلبہ اور عام لوگوں کو بتانے کے لیے پلیٹ فارم دیا۔ علاقہ کے فلاحی کاموں میں مصروف افراد کی سرگرمیوں کو سامنے لانے کے لیے اسی ٹائٹل پر کتاب چھاپنے کا منصوبہ بنایا، جس کے لیے اب تک 36 کہانیاں جمع کی گئی ہیں۔
گاؤں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے میڈیا کا بھرپور سہارا لیا۔ اپنے علاقہ کے ’’پاسون کیبل نیٹ ورک‘‘ کے علاوہ دیگر سوشل میڈیا آوٹ لیٹس، خیبر نیوز، مشرق ٹی وی، ’’ڈان‘‘ اور ’’دی نیوز‘‘ جیسے انگریزی اور اُردو اخبارات میں علاقے کے مسائل اور مسائل سے متعلق حکمرانوں کو بھرپور انداز میں آگاہ کیا۔
اب نئے سال کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ ہم بہت پُرعزم ہیں اور یہ حقیقت جان گئے ہیں کہ ارادے مضبوط اورحوصلے جوان ہوں اور نیتوں میں فتور نہ ہو،تو اپنی مدد آپ کے تحت عوامی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ حکومتوں کی طرف دیکھنے کی کیا ضرورت ہے!
اِن شاء اللہ مستقبل کے لیے ہمارے بڑے امید افزا اہداف ہیں۔ کئی منصوبے اور پروگرام ہماری نظروں میں ہیں۔ ہماری خواہش اور کوشش ہوگی کہ پورے علاقے میں سادگی کا کلچر متعارف ہو۔ لوگ بھوک اور بے روزگاری کے عفریت سے دور ہوں۔ عشر اور خیر و زکوٰۃ اور خیرات کا صاف ستھرا اور شفاف نظام رائج ہو۔ کاروباری اور خوشحال طبقہ اپنی آمدن کا معمولی سا حصہ فلاحی کاموں میں صرف کرنے کی طرف راغب ہو۔ خواتین بااختیار ہوں۔ مذہبی مفاہمت اور رواداری پیدا ہو۔ بچوں کی مشقت کی سرکوبی ہو۔ نرسری ریزنگ اور ڈیری فارمنگ کے جدید منصوبے متعارف ہوں۔ پانی کی اہمیت اور تیار خوراک کے ضیاع اور قیمتی اراضی کے تحفظ کے لیے آگاہی پروگرام اور سیمینارز منعقد ہوں۔ ایک کمیونٹی سنٹر ہو، جہاں بے آسرا افراد کے لیے کوئی شیلٹر ہو، جہاں لائبریری ہو، اِن ڈور گیمز ہوں، معذوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام ہوں۔ نوجوانوں کو فنی تربیت فراہم کرنے کے لیے ٹریننگ کے مواقع ہوں، اور جہاں مفت علاج کی فراہمی کے لیے ایک ڈسپنسری موجود ہو۔ بہرحال
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
دعا ہے کہ یہ چلتا پھرتا کارواں مزید قوت اور لگن کے ساتھ چلتا رہے، جس طرح پچھلے سال چلتا رہا۔ دو درجن مخلص دوستوں کا یہ ٹولا پلے پھولے اور امیدیں ایجاد کرتا رہے۔ خدا کرے کہ نیا سال ہم سب کے لیے خوشحالیوں اور ڈھیر ساری برکتوں کا سال ثابت ہو، آمین!
اس موقع پر احمد ندیم قاسمی کی مناجات کے چند اشعار پیش کرتے ہیں:
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔