قصہ ہے ایک سفر وسیلۂ ظفر کا، وہ بھی پورے دس دن کا او راُس دوردراز کراچی کا، جو بحیرۂ عرب کی گود میں خراماں خراماں خرمستیاں کر رہا ہے اور پورے ملک کے معاشی چل چلاؤ میں تین چوتھائی تک کا ’’جرمانہ‘‘ ڈالتا ہے، باقاعدہ بنیادوں پر۔ لیکن اِس یتیم یسیر ملک کاپیٹ ہے کہ کیا ہے جو بھرنے سے قاصر ہے۔ جو اپنے صوبۂ سندھ کا دارالخلافہ ہے اورآبادی کے لحاظ سے پاکستان کا پہلا اوردنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔73 سال قبل کوئی 3 لاکھ آبادی والا شہر آئندہ دو چار سال میں 3 کروڑ سے تجاوز کر نے کو ہو، تو اِس ’’پراگریس رپورٹ‘‘ کے تناظر میں جونتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ شہر کے باسی صرف دو کام کرنے میں منہمک ہیں۔ نمبر ایک محنت مزدوری اور نمبر دو آبادی کو بڑھاوا دینے میں۔ جب میاں بیوی راضی، تو کیا کرے گا قاضی!
پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ بھی کراچی ہے اور صنعت وحرفت واقتصاد کا مرکز بھی کراچی ہے۔ یہ روشنیوں کا شہر رہا ہے ماضیِ قریب میں اور کوئی 13 سال پاکستان کا دارالخلافہ رہا ہے ماضیِ بعید میں۔ دیکھنے کو کیا ہے کیا نہیں ہے یہاں، اس معاملے سے ہمارا کوئی زیادہ سروکار نہیں۔ ہاں، یار دوستوں سے ملیں گے جن کی ’’دراز و خیراز‘‘ پیشانیاں مہمانوں کو ہر وقت ’’پلیی کریی آیا‘‘ کہنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ جن کے مُنھ کھلتے ہیں، تو ’’سائیں جی‘‘، ’’شاہ جی‘‘ اور ’’سرکار جی‘‘ جیسے والہانہ الفاظ کی ادائیگی سے کھلتے ہیں۔ عجز و انکسار کی تصویر بننے دونوں ہاتھ جوڑ کر سینے پر رکھتے ہیں، پھر سلوٹ کرتے ہیں اور پھر بغل گیر ہوتے ہیں۔ یہاں کے مکینوں کی باتیں اپنے آموں سے زیادہ میٹھی اور امرود وں سے زیادہ لذیزذہوتی ہیں۔ لیکن، اِس کے لیے اِس ملک کے شرقین سے غربین تک کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ سودا مہنگا تو ہے، لیکن ہے بڑا سواد والا۔اپنے اقارب، یعنی بیوی بچہ پارٹی جن کو ’’فارورڈ بلاک‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، کو عازمِ سفر ہونے کا پیغام ایسے ’’وَرسٹائل سٹائل‘‘ میں دیتے ہیں جیسے کراچی نہیں یہی ساتھ والے محلے میں ابھی جانا ہو اور ابھی آنا ہو۔ ہمارا سٹائل اور اِرادے بھانپ کرفارورڈ بلاک پہلے متحیر ہو جاتا ہے، پھراُودھم مچاتا ہے، پھر روڑے اٹکاتا ہے۔ ہمارے ’’مینٹل لیول‘‘ کو کوسنا شروع کرتا ہے۔ لڑھکتے کانپتے ٹانگوں کی پسماندگی کا حوالہ ویا جاتا ہے۔ جسمانی نظام کے کئی اورمعذورکل پرزوں کی نشان دہی کرتا ہے ۔ کسی بھی صورت میں ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے، تب کہیں جا کے بلاک ہتھیار ڈالتا ہے، اور ہم اپنا سفری بیگ، ’’درونِ بیگ‘‘ ایک سرسری سی ’’نظرِ خطا‘‘ ڈالتے ہیں۔ اِس میں کپڑے ہیں تین جوڑے مع سفید اسلام پوری چادر، علاوہ ازیں کچھ ’’سامانِ حجامت و سجاوٹ‘‘ بھی شامل ہے۔ محکمۂ ٹیکس کے اہلکاروں کے کان کانے اور آنکھیں اندھی ہو جائیں، تاکہ اس لوفری کے لیے اپنی خفیہ جمع پونجی گن تو لیں۔ لیکن یہ بڑھاپا اور رقم کی گنتی؟ اِس عمل سے کسی کو لگے نہ لگے، ہمیں خود لگتا ہے اور بجا لگتا ہے کہ زندگی کے آخری درجات میں گویا کہ کچھ ’’خواجہ غریب نواز‘‘ہو ئے لگ رہے ہیں، ہم۔ سفر میں کتنے پیسوں کے خرچ ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے؟ پائی پائی کاحساب کرتے ہیں۔ اِس دَور میں تو اپنی کرنسی کا ضعف دیکھ کر اسے جیب میں رکھنے کی خواہش دَم توڑ گئی ہے۔ کیوں کہ اِسے ساتھ رکھنے سے بندہ خود جرمِِ ضعیفی کا شکار ہو ا چاہتا ہے۔ ہم سفری اخراجات کی بات کر رہے تھے، خواہ مخواہ کرنسی کے پیچھے پڑگئے۔ قیام و طعام کا خرچہ تو برائے نام ہے، یہ ذمہ داریاں تو میزبانوں کے سر ہیں۔ ایک موٹر کار کا کرایہ ہے،تین ہزار روپے یومیہ، بغیر ایندھن کے۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ پیسا آگے تین عدد فقرا میں باہمی طور پر منقسم بھی ہونا ہے۔
جانا توٹھہر گیا ہے قارئین کراچی تک۔ سرِراہ بعض شہروں میں پھیلے پیروں مریدوں اور دستگیروں کے نیٹ ورکس کو بھی اپنے جلوے دکھائیں گے، اور حلوے کھائیں گے۔ روضوں، مزاروں میں حاضری دیں گے افضل شاہ، حاضرگل اور تور دادا کے ناز و نخرے برداشت کریں گے، اورسندھ کے دیہاتوں میں یار دوستوں کی دعوتیں اُڑائیں گے ۔
آپ کس کس جگہ سے گزریں گے
اپنی آنکھیں کہاں کہاں رکھوں؟
اِس ملک میں ہر شخص گھر سے نکلتے وقت ’’جینون شناختی کارڈ‘‘ جیب میں رکھنا اپنے اوپر لازم جانیں، کہ یہ وہ غیرحلفیہ ڈاکومنٹ ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ کون کس باغ کا مولی گاجر ہے اور یہ مولی گاجر باغ میں بنا پوچھے کیوں کھڑا ہے اور کرکیا رہا ہے؟ سو ہم سب سے پہلے اپنے کارڈ کو بڑے نظم وضبط اور توجہ کے ساتھ پلاسٹک کے ایک تھیلے میں لپیٹ کر پھر ملفوف شدہ درونِ بنیان ایک زِپ لگی جیب میں رکھتے ہیں اوراُس کے ’’ویئر اِباؤٹ‘‘ کو دماغ کی ذمہ داری جان کر دماغ پر ہی سوار کرتے ہیں، تاکہ جہاں کہیں بھی ’’میری بلی مجھے میاؤں‘‘ والی صورتِ حال ہو، تو اس کے طفیل ممکنہ جاں بخشی ہو۔ ساتھ لے جانے کے لیے جہاں تک سرمایے کا معاملہ ہے، تو شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ حصولِ علم کے لیے جب بغداد جارہے تھے، تو ہم نے پڑھا کہ آپ کی والدہ محترمہ نے اپنی جمع پونجی کپڑے کی ایک تھیلی میں ڈال کر سی لی، اورشیخ کے کرتے میں بغل کے نیچے والے حصے میں پرو دی، تاکہ چوری ڈکیتی کی صورت میں کسی حد تک محفوظ رہے۔ ہم بھی پانچ ہزار کے کرنسی نوٹوں کو ڈکیتوں، سرکار کے اہلکاروں اور سفر کے ساتھیوں، تینوں کی نظرِ بد سے بچانے کے لیے بٹوے کے خصوصی خانہ میں چھپا کے رکھتے ہیں۔ چوری ڈکیتی کا خطرہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں، سرکار کے کسی اہلکار نے یہ رقم دیکھی، تو بحقِ سرکار اِس کی قرقی کا خدشہ ہے ۔ لفظ ’’قرقی‘‘ کے استعمال پر کسی کو اعتراض ہو کہ متروک ہو چکا ہے، تو وہ ’’ضبطی‘‘ پڑھیں۔ ہمیں اعتراض نہیں۔ علاوہ ازیں، کسی ڈیم یا ہسپتال کے لیے چندے کے نام پر چھین لینے کا احتمال بھی ہے۔ راستے میں جگاٹیکس کے نام پر ہڑپ ہونے کا خوف بھی ہے۔ پھر معاف کرنا،اس مجوزہ سفر میں ہمارے ساتھ شاملِ حال دو بندے جوہیں، دونوں میں اورقباحتیں بھی بیسیار ہوں گی۔ اُن کی شکلوں کو دیکھ کر ہمیں تو سیدھا سیدھا لگتا ہے کہ کسی بھی لمحے ان میں کوئی ایک یا دونوں بیک وقت ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر جیب سے بٹوا نکالیں گے۔ اُس سے پیسا نکال کر خالی بٹوا مجھے واپس کریں گے، یہ کہہ کر کہ ’’یرہ خان جی، تہ پہ پیسو سہ کے؟‘‘ ویسے یہ حاضر گل اسلام پوری بدقسمتی سے حاجی نہیں، ورنہ اُس کے نام کے ساتھ یہ لقب بڑا جچتا ہے، یعنی ’’جناب حاجی حاضر گل اسلامپوری صاحب۔‘‘ یہ تو خواہ مخواہ گاڑی میں جب بھی بیٹھتا ہے، توہماری دائیں طرف والی جیب کو جھنجھوڑتا رہتا ہے۔اس کے ساتھ پڑے کئی کریڈٹ کارڈزاکثر و بیشتر تین ہندسوں سے زیادہ کے استعمال پر ہینگ ہو جاتے ہیں، یعنی نو سو ننانوے روپے سے اوپر کی عدد پر کریش کر جاتے ہیں ۔ کیسے بد قماش افراد ہیں، یقین جانیے، یہ خالی خولی جیب پرپوری دُنیا گھوم بھی سکتے ہیں اور مبادا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ سرمایہ کاری بھی کرلیں، دورانِ سفر۔ ہم تو اُن کو دیکھ کر کچھ دیر کے لیے حالتِ نزع میں چلے جاتے ہیں کہ کہیں کسی کے ساتھ رہن (مارٹ گیج) میں نہ رکھے ہمیں، اللہ تعالیٰ اپنے خیر و فضل کا سایہ ہم پر ہمیشہ رکھے، آمین! لوگوں کی کوئی گزبھر زبان ہوگی، اِن کی زبانیں تو ایروناٹیکل مائلز میں پھیلی ہوں گی۔ خدا کی دین ہے، جس کو جو عطا ہو۔ تو وہ تبلیغیوں کی بات، پروگرام کی ترتیب یہ ہے ان شاء اللہ کہ 27 جنوری 2020ء کو صبح آٹھ بجے تین بندوں کا قافلہ اسلام آباد، فیصل آباد، اوکاڑہ، سکھر، سانگھڑ، لاڑکانہ، موہن جوداڑو اور حیدر آباد سے ہوتے ہوئے کراچی تک بائی موٹرکار پہنچے گا، جہاں کچھ دن پڑاؤ کے بعد تربت، کشمور، کوئٹہ، ژوب، مغل کوٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتے ہوئے علیٰ ہذاالقیاس پانچ فروری کی رات کو اپنے جنتِ نظیر سوات کے قدموں میں لیٹنے کے لیے واپس آ جائیں گے۔ اپنا کتنا بڑا جگر ہے، ماشاء اللہ۔ پہلی رات اسلام آباد میں اپنے پروفیسر روشن کے ساتھ گزاریں گے۔ اُن کے ٹھکانے پر پہنچ کر اُن کو توخیر سے سرپرائز ہی دے ڈالنا ہے۔ مکان کے اوپر والی پوری چھت کو سر پر اٹھا کر بیگوں سمیت قابض ہونا ہے۔ پھربھابھی محترمہ کو انواع و اقسام کے کھانے پکانے کا موقع دینا ہے اور پھر کیا؟ کھانے پینے کی ذمہ داری ہمیں اپنے کندھوں پر لینی ہے۔ کچھ کام تو ہم نے بھی کرنا ہے ناں۔ روشن صاحب کو اللہ تعالیٰ سر تا پیر بخشے، بڑے ’’فی البدیہہ‘‘ بندے واقع ہوئے ہیں خداوند لم یزل کے،بڑی دُور کی کوڑی لاتے ہیں۔ یہ سکردو کے کسی دور دراز گمنام چٹان پر بیٹھ کر بھی بات کریں گے، تو پیرس کی رنگین گلیوں میں مغرب کے وقت پھیلے ہوئے لیڈیزپرفیوم کی خوشبو کے تڑکے کی کریں گے، یاترکی کے عدن شہر کے اُس ڈسکو گارڈن کی پُر رونق وپُرسروررات کی کریں گے، جو اِس نے دیکھی نہیں، لیکن جس کی حسرت غنی خان نے اپنی ایک غزل میں کی ہے، اور وہ ابھی ہمیں یاد نہیں۔
البتہ مشہور صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کی سرزمین پر روانہ ہوئے رحمان فارس کے یہ اشعار ہمیں ضرور یاد آ رہے ہیں۔
یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں
آپ ہی کی بہار ہے سائیں
آپ چاہیں، تو جان بھی لے لیں
آپ کو اختیار ہے سائیں
تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو
ایک میرا بھی یار ہے سائیں
ایک کشتی بنا ہی دیجے مجھے
کوئی دریا کے پار ہے سائیں
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔