اگست 2018ء کو سویڈن کی 16 سالہ طالبہ ’’گریٹا تھن برگ‘‘ نے سویڈن میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے سکول نہ جانے کا فیصلہ کیا اور ماحول کے تحفظ اور موسمیاتی تغیرات کی روک تھام کے لیے سویڈن کی پارلیمنٹ کے باہر ایک انوکھا احتجاج شروع کیا۔
اس بچی کا مطالبہ یہ تھا کہ سویڈن حکومت پیرس کے معاہدے کے مطابق کاربن کے اخراج کو کم کر دے۔ سویڈن میں انتخابات کے بعد گریٹا نے ہر جمعہ کے دن ’’سکول ہڑتال برائے ماحولیات‘‘ کے نام سے اپنا احتجاج جاری رکھا اور یوں یہ بچی پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ یہ ہڑتال سویڈن کے علاوہ کئی دیگر ممالک میں بھی شروع ہوئی جو کہ اَب بھی جاری ہے۔
ماحولیات کے تحفظ کے لیے خدمات پر ناروے کے اراکینِ اسمبلی نے ’’گریٹا‘‘ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا اور اگر وہ یہ انعام حاصل کر لیتی ہے، تو وہ دنیا میں سب سے کم عمر نوبل انعام جیتنے والی شخصیت بن جا ئے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ہڑتال کی ضرورت کیوں آن پڑی؟
دراصل ہم اکیسویں صدی کے اُس دور میں داخل ہو چکے ہیں، جس میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات ہمارے وقت کا ایک اہم مسئلہ ہیں۔ یہ اب ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ہم مزید نظریں نہیں چرا سکتے۔ دنیا بھر کے سائنس دان اور ماحولیاتی ماہرین کئی سالوں سے ماحولیاتی نظام کا معائنہ کر رہے ہیں۔ ان ماہرین کا ماننا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں زمین کی آب ہوا ہماری تہذیب کی تاریخ میں تیز رفتاری سے بدل رہی ہے، جس کے باعث اس کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں محققین کی طرف سے کیے جانے والے ہزاروں مطالعات نے زمین کی سطح درجۂ حرارت کے ساتھ ساتھ دریاؤں اور سمندروں کی سطح میں اضافے کی تصدیق بھی کی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق زمین پر بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی سب سے بڑی وجہ ’’کاربن گیسز‘‘ کا اخراج ہے۔ سطحِ زمین پر ان جیسی گیسوں کے اجماع سے سالانہ کرۂ ارض کا درجۂ حرارت ایک ڈگری سیلسیئس بڑھتا ہے۔ اس عمل کو سائنسی اصطلاح میں ’’گلوبل وارمنگ‘‘ یعنی ’’عالمی گرماہٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ گرمی میں اضافے کے سبب کئی علاقوں میں قحط اور خشک سالی کے ساتھ ساتھ فصلوں اور خوراک کی پیداوار میں کمی کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ ایک طرف جب بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے باعث پہاڑوں پر جمی برف کے گلیشیرز پگھلتے ہیں، تو دوسری طرف برف کے پگھلنے سے دریاؤں اور سمندروں کی سطح میں بلندی واقع ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں سیلابی صورتِ حال اور شدید موسلادھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یوں معمولاتِ زندگی اور صحت متاثر ہوکر رہ جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال 21 اگست 2017ء کو کراچی میں دیکھنے کو ملی۔ محض چند گھنٹوں میں 50 ملی میٹر کی بارش نے 17 افراد کی جان لی۔
8 دن بعد اُسی شہر میں مزید 130 ملی میٹر بارش ہوئی جس کے سبب 23 افراد مزید جاں بحق ہوئے اور کروڑوں کا نقصان ہوا جب کہ کاروبارِ زندگی الگ سے معطل ہوگیا۔ ان جیسے اَن گنت واقعات ملک بھر میں رونما ہو رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے مشاہدے کا دائرہ وسیع کرلیں، تو ہمیں 2015ء میں کراچی میں شدید گرمی کی لہروں کی وجہ سے سیکڑوں افراد کی موت، تھر میں مسلسل خشک سالی اور قحط دیکھنے کو ملے گا اور اس سے بھی پیچھے جائیں، تو 2010ء کا سیلاب دیکھنے کو ملے گا،جس سے تقریباً ملک کی تمام آبادی متاثر ہوئی۔
اب اگر تاریخی پس منظر دیکھیں، تو ہمیں اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ ماحولیاتی تبدیلی کا المیہ دو صدیوں کی غیر مستحکم صنعتی ترقی، توانائی کی پیداوار اور ناپائیدار طرزِ زندگی کے جمع کردہ نتائج سے پیدا ہوا۔ وہ صنعتی سرگرمیاں جن پر آج کی جدید تہذیب منحصر ہے، گذشتہ 150 سالوں سے ان سرگرمیوں کی وجہ سے ہوا میں موجود غیر مطلوب گیسوں کی مقدار میں ناقابل یقین اضافہ ہوا جو کہ 280 سے بڑھ کر 400 ملی گرام فی لیٹر ہوا۔ اگر یہی تناسب 450 ملی گرام فی لیٹر سے تجاوز کرگیا، تو اس مسلئے کو سمیٹنے کے لیے مہلت ختم ہو جائے گی۔
اوپر ذکر شدہ اور ان جیسے ہزاروں ثبوتوں کی وجہ سے اب ماحولیاتی مسائل کھل کر نظروں کے سامنے آگئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے سے کیسے نکلا جائے؟ اس گرداب سے نکلنے کے لیے ہمارا علم، مہارت اور ٹیکنالوجی ہمارے کام آئے گی، جس سے ہم دنیا بھر کے انسانوں کو اس خطرے سے آگاہ کرسکیں گے۔ ہمیں ضرورت سے زیادہ اشیا کا استعمال جو کہ توانائی اور خاص کر ایندھن پر چلتی ہیں،کم کرنا ہوگا۔ اس طرح ہم غیر معمولی طور پر توانائی کے ضیاع پر قابو پاسکتے ہیں۔ ماحول میں نمایاں تبدیلی لانے کے لیے کثیر تعداد میں درخت اُگانا فضا کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ جنگلات فضا سے زہریلی گیسوں کو جذب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ کیوں کہ جب تک ہم اجتماعی سطح پر متحرک نہیں ہوں گے، تب تک ہم ماحولیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کوئی لا ئحہ عمل طے نہیں کرسکیں گے۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔