وہ جو صدیوں سے کہتے آئے ہیں کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘، تو بڑے بوڑھوں نے یقینا بہت کچھ سوچ کر اور بہت کچھ دیکھ کر یہ کہا ہوگا۔ ضرب الامثال کے سکے تجربات کی بھٹی میں ڈھلتے ہیں۔ ایک ہی قسم کا حادثہ بہت سے لوگوں کو روندتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ردِ عمل میں اجتماعی ذہن میں ایک خیال اُگتا ہے۔ اور ایک سدا بہار درخت کی صورت ایک مخصوص علاقہ اور قوم کی نمائندگی کا بیڑا اٹھا لیتا ہے۔ بعض ضرب الامثال علاقہ اور قوم کے قیود و حدود تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہیں اور ہر جغرافیہ سے اپنا رشتہ استوار کرلیتی ہیں۔ ہر مٹی کی خوشبو ان کے رگ و ریشہ سے پھوٹتی ہے۔ کوئی ایک قبیلہ ان کی ملکیت کا دعوے دار نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا بھی ہے، تو اسے منھ کی کھانی پڑتی ہے۔
تاریخِ انسانی کی گونا گوں نت نئی ایجادات مندرجہ بالا ضرب المثل کو مبنی بر صداقت ثابت کرنے کے لیے اگر ایک قطار کی صورت میں سامنے لاکھڑی کی جائیں، تو سوچیے کتنی بڑی قطار بنے گی۔ جس قلم سے میں نے یہ لکھنا شروع کیا ہے، جس کاغذ کے سفید، بے داغ، اُجلے بدن پر سیاہ روشنائی کی مدد سے میں یہ باتیں آپ تک پہنچا رہا ہوں، جیسے ویب کے چشمہ کی امداد نے آنکھوں کی دھند لاہٹ کا مسئلہ حل کیا ہے، ذہن کو کوشش و کاہلی سے نجات دلانے کے لیے سامنے رکھے ہوئے چائے کے کپ کی اہمیت اور چائے کو اس موجودہ خوشگوار شکل دینے کے لیے بے شمار جانے اور اَنجانے چہروں نے جس طرح بے شمار طریقوں سے اس کام میں حصہ لیا ہے، اگر ان سب کو بھی اس قطار میں شامل کرنا ہے، اور یقینا ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ اس لیے کہ یہ جو اخبار اس وقت آپ پڑھ رہے ہیں۔ قلم، کاغذ، سیاہی اور چائے کی پیالی نے بھی اور بہت سے عوامل کے ساتھ مل کر اسے آپ تک پہنچایا ہے۔ اگر ان میں سے ایک اینٹ کو بھی اس دیوار میں سے نکال دیا جائے، تو اس اخبار کا نکلنا اور آپ تک پہنچنا محال ہوجائے گا۔ اگر آدمی ضرورت کے بچوں کی تعداد معلوم کرنے کی نیت سے بیٹھ جائے، تو یقینا اسے بہت جلد منھ کی کھانی پڑے گی۔ اس کے گھر کے اندر اسے اس مائی ’’ضرورت‘‘ کی اتنی اولاد مل جائے گی کہ انہیں گننے میں ہی اس کا بہت سا وقت صرف ہوجائے گا۔ باہر نکل کر دیکھے گا، تو قدم قدم پر رُکنا پڑے گا۔ چھوٹے سے کاغذی پین سے لے کر فضا میں گھومتے ہوئے خلائی سیاروں تک ایجادات کی ایک وسیع دنیا ہے۔ انسان جب ایک نوالہ توڑ کر اسے سالن کی رکابی میں ڈبوتا ہے، تو کتنے سارے انسانی ذہن اور ہاتھ اس کی مدد کررہے ہوتے ہیں، پیٹ کا یہ جتھا جس قدر رنگا رنگ کھانے مانگتا ہے، طباع سے تباع، طاقتور سے طاقتور آدمی بھی تنِ تنہا دوسروں کی مدد حاصل کیے بغیر فراہم نہیں کرسکتا۔ ایک روٹی پک کر جب آپ کے منھ تک پہنچتی ہے، تو کتنے بے شمار مرحلے اس نے طے کیے ہوتے ہیں۔ کتنے ہاتھ، کتنی مشینیں، کتنے ذہن دن رات ایک کرکے اسے یوں اشتہا انگیز بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ اس سادہ سی روزمرہ کی حقیقت کے پیچھے کتنی اختراعات ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جن کی راتیں نیند سے لاتعلق رہیں، جن کے دن محنت مشقت کا لباس پہنے پہنے بوڑھے ہوگئے۔ صبح کے جھروکوں سے آنے والی دودھیا روشنی اورشام کے منڈیروں پر چوروں کی طرح آہستہ آہستہ اترنے والا اندھیرا نہ جانے کتنے مؤجدوں کو اپنی دیوانہ وابستگی کی راہ سے ہٹانے میں ناکام رہے ہوں گے۔ بغیر اپنا راحت و آرام قربان کیے آدمی دوسروں کو آرام و راحت کا سامان کیسے فراہم کرسکتا ہے؟ دوسروں کا بھلا کرنے کے لیے اپنا بھلا پس پشت ڈالنا پڑتا ہے، جہاں جہاں انسانی آبادیاں رہی ہیں، وہاں رنگ و نسل کے کسی امتیاز کے بغیر یقینا ایسے بے لوث لوگ رہے ہیں، جنہوں نے اپنے گرد و پیش میں رہنے والوں کی حقیقی اور امکانی ضروریات سے نمٹنے کے لیے اپنے دماغوں کے چراغ روشن کیے، اوران کی روشنی میں ایسے راستے سجھائے جنہوں نے آنے والوں کے لیے زندگی کو آسان بنادیا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دنیا کے معلوم اور نامعلوم گوشوں میں لوگ ٹولیوں کی صورت اور تنِ تنہا زمین کو رہنے کے لیے ایک قابلِ رشک جگہ بنانے میں مگن ہیں۔
ان انجان لوگوں کو دل کے ہاتھوں سے سلام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت ہی مورکھ اور بے حس انسان ہوگا جو ایسا نہ کرے۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔