دو بڑے زمین داروں کا تذکرہ کیے بغیر ضلع جھنگ میں میرے ملاقاتیوں کا سلسلہ تشنۂ تکمیل رہے گا۔
ایک روز ایک بڑے زمین دار صاحب ملاقات کے لیے آئے۔ خود تو بڑی حد تک ناخواندہ تھے، لیکن تعلیم کے فضائل اور فوائد پر ایک طویل تقریر کرنے کے بعد بولے: ’’جناب! آپ اس پس ماندہ ضلع کے لیے نیکی کا ایک اور کام بھی کرتے جائیں۔ فلاں گاؤں میں اگر ایک پرائمری سکول کھول دیا جائے، تو اس علاقے پر ایک احسانِ عظیم ہوگا۔ اگر آپ قبول فرمائیں، تو بندہ سکول کے لیے مفت زمین، کمروں کی تعمیر کے لیے بیس ہزار روپے نقد اور ایک استاد کی ایک برس کی تنخواہ اپنی جیب سے ادا کرنے کے لیے حاضر ہے۔‘‘ مَیں نے ان کی روشن خیالی اور فیاضی کی تعریف کرکے کہا: ’’نیکی اور پوچھ پوچھ؟ آپ جب فرمائیں گے، سکول کھولنے کا بندوبست ہوجائے گا، بلکہ میں تو خود کوشش بھی کروں گا کہ اس سکول کا افتتاح کرنے کے لیے عزت مآب وزیرِ تعلیم کو بذاتِ خود یہاں مدعو کیا جائے۔‘‘
زمین دار صاحب خوش خوش میری جان و مال کو دعائیں دیتے ہوئے تشریف لے گئے۔ کوئی ایک ہفتہ بعد اسی علاقے کے ایک اور بڑے زمین دار ملنے آئے۔ چھوٹتے ہی انہوں نے روہانسا ہوکر گلہ شکوہ شروع کیا اور کہا کہ ’’جناب! میں نے کیا قصور کیا ہے کہ مجھے اس قدر کڑی سزا دی جا رہی ہے؟ بندہ بالکل بے گناہ ہے۔‘‘ حیران ہوکر مَیں نے اس شکوے کی وضاحت طلب کی کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے اور کون یہ ظلم کررہا ہے؟ انہوں نے گلوگیر آواز میں یہ تفصیل سنائی کہ ’’پچھلے ہفتے سکول کے بارے میں جو شخص ملنے آیا تھا، وہ یہ سکول اپنے گاؤں میں نہیں بلکہ میرے گاؤں میں کھلوارہا ہے۔ ہمارے درمیان پشتوں سے خاندانی دشمنی چلی آ رہی ہے۔ پہلے ہم ایک دوسرے کے مویشی چرا لاتے تھے، کبھی ایک دوسرے کے مزارعوں کو قتل کرادیتے تھے، کبھی ایک دوسرے کی فصلیں اُجاڑ دیتے تھے۔ اب وہ کمینہ میرے گاؤں کی نسلیں تباہ کرنے پر اُتر آیا ہے۔ اسی لیے آپ سے سکول کھولنے کا وعدہ لے کر گیا ہے۔‘‘
فروغِ تعلیم کے فضائل پر یہ نرالی منطق سن کر مَیں سکتے میں آگیا۔ چند منٹ سوچنے کے بعد میں نے گذارش کی کہ ’’آپ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں نہیں دیتے؟ جو پیشکش انہوں نے کی ہے، اگر وہی بار آپ بھی اُٹھائیں، تو مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ ان کے گاؤں میں بھی بہ یک وقت ویسا سکول قائم کیا جائے گا۔‘‘ یہ سن کر ان کی کسی قدر تشفی تو ہوئی لیکن اس کے بعد دونوں میں سے کوئی بھی اپنی اپنی فیاضی کی پیشکش لے کر دوبارہ میرے پاس نہ آیا۔
کچھ عرصہ بعد مَیں نے یہ واقعہ جھنگ کے بیرسٹر یوسف صاحب کو سنایا، تو وہ مسکرا کر بولے، حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ تعلیم جیسی خطرناک وبا کو اپنے اپنے گاؤں سے دور رکھنے کے لیے دونوں نے اسے اپنا مشترکہ فرض سمجھ کر مک مکا کرلیا ہوگا۔ بڑی زمین داریوں اور جاگیرداریوں میں ابھی تک تعلیم ہی کو سب سے بڑا اور تباہ کن دشمن سمجھا جاتا ہے۔
(’’شہاب نامہ‘‘ سے مقتبس، راقم)

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔