’’فلوریڈا ٹوڈے‘‘ بریوارڈ کاؤنٹی کا سب سے بڑا اخبار ہے جس کا آغاز ’’گے نٹ کارپوریشن‘‘ نے 1966ء میں کیا تھا۔ یہ روزانہ کے حساب سے تقریباً پچاس ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔ اتوار کو اس کی اشاعت تقریباً 80 ہزار بنتی ہے۔ موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ چلتے ہوئے اخبار کے پرنٹ ایڈیشن کے علاوہ ڈیجیٹل سیکشن انتہائی فعال ہے، جب کہ دفتر میں ٹی وی اور ریڈیو سٹیشن بھی ہے۔ اخبار کے موجودہ ایگزیکٹو ایڈیٹر ’’باب گبورڈی‘‘ ہیں جو تجربہ کار صحافی کے علاوہ صحافت کے استاد ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ وہ پاکستان کئی دفعہ آئے ہیں اور یہاں پڑھا بھی چکے ہیں۔ وہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور فلوریڈا میں پاکستان کے بارے میں مثبت انداز میں بات کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے لوگوں کو سمجھاتے بھی ہیں۔ باب کی بیوی ’’ڈانا‘‘ بھی شوہر کی طرح شفیق اور ملن سار خاتون ہیں۔ دونوں نے زندگی کی 60 دہائیاں خوشی اور پیارسے گزاری ہیں۔

فلوریڈا سوسائٹی میں راقم کی ایک یادگار تصویر۔

باب اور اس کی بیوی مہمان نواز ہیں جو اکثر و بیشتر دوستوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی دعوت کرتے ہیں۔ باب بہت اچھے باورچی بھی ہیں جو لذیذکھانے پکانے اور لوگوں کو کھلانے کے شوقین ہیں۔جب ہم یہاں پہنچے، تو باب نے کہا کہ رات کے کھانے پر آپ لوگ مدعو ہیں۔ اس لیے جب ہم ہوٹل گئے اور کمروں میں سامان رکھا، تو باب ہمیں اپنے گھر لے گیا۔ اس کے گھر میں میاں بیوی کے علاوہ اس کی معذور بیٹی ’’جسیکا‘‘ بھی رہتی ہے، جب کہ دن کے وقت اس کا خیال رکھنے والی ایک لڑکی بھی آتی ہے۔ باب کے گھر میں ایک کتا بھی ہے۔ جب ہم اس کے گھر میں داخل ہوئے، تو کتا ہماری طرف آیا جس پر ہم دونوں یعنی میں اور فاطمہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ جب باب نے دیکھا کہ ہم ان کے کتے سے نہیں ڈرے، تو وہ تھوڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کہ اس سے پہلے جتنے بھی پاکستانی ہمارے گھر آئے ہیں، تو وہ سب کتوں سے ڈرتے تھے، مگر تم دونوں مختلف ہو۔
باب کا گھر خوبصورت ہے جس کے عقب میں چھوٹا سا سوئمنگ پول اور باہر خوبصورت جھیل ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے کچھ دیر باب اور ڈانا کے ساتھ گپ شپ لگائی۔ اس کے بعد باب ہمیں واپس ہوٹل لے آیا اور ہمیں صبح 9 بجے تیار رہنے کو کہا۔ کیوں کہ وہ ہمیں ملبورن اور ملحقہ علاقوں کی تعارفی سیر کروانا چاہتا تھا۔ ہم صبح سویرے تیار ہوئے اور باب کا انتظار کرنے لگے۔ ٹھیک 9 بجے باب اور ڈانا ہمارے ہوٹل آئے۔ پہلے وہ ہمیں ساحلِ سمندر پر لے گئے، جہاں زیادہ لوگ نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اکثر یہاں آتے ہیں۔ ہم نے ساحلِ سمندر پر کچھ تصاویر لیں اور گاڑی میں بیٹھ گئے، جہاں سے باب ہمیں ’’کیپ کینے ورال سٹی‘‘ لے گیا۔ کیپ کینے ورال امریکہ کے خلائی راکٹ اور تجربات کے لیے پوری دنیا میں مشہور جگہ ہے۔ یہاں ناسا کا ’’کینیڈی سپیس سنٹر‘‘ ہے، جہاں دن رات خلا میں جانے والے راکٹوں اور اسے کے متعلق دوسری چیزوں پر مسلسل تجربات جاری رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شہراپنی خوبصورت سمندری ساحلوں اور دنیا کے سب سے بڑے سمندری بیڑوں کی لنگر اندازی کے لیے بھی مشہور ہے۔ ہم کیپ کینے ورال پورٹ گئے، جہاں اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سمندری جہاز لنگر اندا ز تھا۔ یہ دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں شمار ہوتی ہے جہاں تقریبا 4.5 ملین لوگ سمندری کروز میں سفر کرتے ہیں۔ ہم نے دیو قامت سمندری بیڑا جس کا نام ’’اوسیس آف دَ سیز‘‘ (Oasis of the Seas) دیکھا، تو دنگ رہ گئے۔ ’’رائل کیربین انٹرنیشنل‘‘ کے بنائے ہوئے اس جہاز میں تقریباً چھے ہزار مسافر وں کی گنجائش ہے۔ آپ یو ں سمجھ لیجیے کہ یہ سمندر میں ایک شہر کی مانند ہے، جس میں لا تعداد لگژری کمروں کے علاوہ چھوٹا گالف کورس، کئی نائٹ کلبز اور بارز، ایک کارا وُوکے کلب، کامیڈی کلب، پانچ سوئمنگ پول، والی بال اور باسکٹ بال کورٹس، بچوں کے لیے الگ نرسریز، اتھلیٹک اور سپورٹس ایکٹیوٹیز کے لیے الگ جگہیں، کمپیوٹر گیمز کے لیے الگ زون اور سائنس لیب کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری دوسری حیران کن سہولیات ہیں۔ یہاں ایسا پارک بھی ہے جس میں بارہ ہزار پودے اور پچاس کے قریب درخت لگے ہیں۔ میں کچھ لمحوں کے لیے اس دیوقامت جہاز کو دیکھتا رہا اور اس کی حیران کن سہولیات پر سوچتا رہا۔ اس کے بعد باب ہمیں ایک ریسٹورنٹ لے گیا، جو ’’سی فوڈ‘‘ کے لیے مشہور تھا۔ اس کے بقول ’’آپ چوں کہ مہمان ہیں، اس لیے یہاں کی مشہور ’’سی فوڈ‘‘ کی دعوت رکھی گئی۔‘‘ مینو میں مچھلی کے علاوہ کئی اور کھانے تھے جن کے نام یا د نہیں۔ سمندر کے کنارے کھلے آسمان تلے اس ریسٹورنٹ میں کافی بھیڑ تھی، جہاں اونچی آواز سے موسیقی بھی چل رہی تھی۔ ہم نے کھانا کھایا اور قریب ہی ’’ایکس پلوریشن ٹاؤر‘‘ گئے۔ ٹاؤر کے اوپر سے نظار ہ ہی کچھ اور تھا، جہاں سے ہم بحرِ اوقیانوس کے ساحل پر سیکڑوں کھڑے سمندری جہاز دور دور تک دیکھ سکتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں سے ’’کینیڈی سپیس سنٹر‘‘ بھی نظر آ رہا تھا۔ اس ٹاؤر کی ایک منزل میں ’’ایلی گیٹرز‘‘ اور مگر مچھوں کے ایسے ماڈل رکھے گئے ہیں، جن پر حقیقی ہونے کا گما ن ہوتا ہے۔ جب کہ ایک ہال میں یہاں کی تاریخی تصویریں لگائی گئی ہیں۔ چند لمحے اوپر گزارنے کے بعد ہم نیچے آئے۔ باب نے کہا کہ وہ ہمیں ’’کو کوا شہر‘‘ کی سیر کرانا چاہتا ہے۔

باب اور ڈانا کی طرف سے دی جانے والی دعوت کے موقع پر لی جانے والی تصویر۔

تقریباً دس منٹ کی مسافت کے بعد ہم وہاں پہنچے۔ یہ ایک خوبصورت اور صاف ستھرا شہر ہے، جہاں کی آبادی، بازار، پارک وغیرہ اتنے بہتر سلیقے سے بنے ہیں کہ اس پر پہلی نظر میں ’’طلسماتی شہر‘‘ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ یہاں کا بازار تو کسی مصور کی دلکش پینٹنگ لگتا ہے۔ بازار میں بیٹھنے کے لیے بنچ رکھے گئے ہیں، جن پر خوبصورت پینٹنگز بنی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ بازار میں جگہ جگہ درخت لگائے گئے ہیں، جو نہ صرف لوگوں کو ٹھنڈی چھاؤں مہیا کرتے ہیں بلکہ موسم کو خوشگوار بھی رکھتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا شہر اصل میں دیہاتی ماحول فراہم کرتا ہے، جہاں کے باذوق لوگوں نے مختلف پوائنٹس پر یہاں کی ثقافتی نشانیاں بھی لگائی ہوئی ہیں۔ یہاں کے باشندوں نے اپنی تاریخ اور ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے اور اسے اپنی نئی نسل کو منتقل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سوسائٹی بنائی ہے جسے ’’دی فلوریڈاہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ دفتر اور لائبریری قائم کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چھوٹی سی جگہ سیاحوں سے بھری پڑی رہتی ہے۔ جب میں سوسائٹی کے دفتر گیا، تو مجھے سوات کی یاد آئی۔ کیوں کہ سوات دنیا میں وہ واحد جگہ ہے جو نہ صرف قدرتی حسن سے مالا مال ہے بلکہ یہاں کی تاریخ و تہذیب بے مثال اور سب سے مختلف ہے مگر ہم سواتیوں کو اس کی فکر ہے اور نہ حکومت کو، جس کی وجہ سے ہم سے ہمارا قیمتی اور تاریخی اثاثہ دن بہ دن ضائع ہوتا جا رہا ہے۔ وہ چاہے تاریخی عمارتیں ہوں یا درخت، بس حکومتی ادارے ان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اور اہلِ سوات خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
ہم بازار میں گھومے پھرے، تصویر کشی کی اور پھر واپس ہوٹل روانہ ہوئے۔ (جاری ہے)

………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔