ہم بازار گئے تھے۔ ہمارا ایک ملتانی دوست بھی ہمراہ تھا۔ وہ ایک دکان میں ہمیں چھوڑ کے کہیں غائب ہوگیا۔ طویل انتظار کے بعد جب وہ واپس ہوا، تو ہاتھوں میں لیے پلاسٹک کے تھیلوں سے اندازہ ہوا کہ خریداری مکمل کرچکا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کسی دکان پر سیل لگی تھی اور اس سے خوب فائدہ اٹھا کر لوٹا تھا۔ ہمارا یہ دوست ایک یورپی ملک سے پڑھ کے آیا ہے۔ لہٰذا سیل میں خریداری کا عادی ہے۔ سیل اور شاپنگ سے بات بات نکلی تو کہنے لگے: ’’مَیں تو اب پاکستان میں بھی سیل کے علاوہ خریداری نہیں کرتا۔ کیوں کہ ان ’’برانڈڈ‘‘ کمپنیوں نے ہمیں لوٹ لیا ہے۔ سو سیل کے بہانے کچھ تو واپس لیا جائے۔‘‘
یہ کہانی سن کے ایک اورہم سفر دوست، جو خود یورپ سے پڑھ کے آیا ہے، کہنے لگا: ’’چھوڑو یار،کیا پاکستان اور کیا پاکستانی سیل؟ سیل تو یورپ میں لگتی ہے، خاص کر کرسمس کے موقع پر کہ سب کچھ کوڑیوں کے مول بکتا ہے اور وہ بھی کرسمس سے ایک ماہ پہلے اور ایک ماہ بعد تک۔ لوگ حیران ہوجاتے ہیں کہ کیسے یہ مسیحی لوگ اپنے دین کے ساتھ کتنے مخلص ہیں کہ مذہبی تہوار کے دنوں میں سب کچھ ارزان کر دیتے ہیں، تاکہ کوئی بھی مذہبی تہوار کی خوشیاں منانے سے نہ رہ سکے۔‘‘
واپسی پر یہ معاملہ زیرِ گفتگو رہا۔ مَیں سمجھنے کے لیے اک آدھ سوال ضرور داغ دیتا، لیکن زیادہ تر خاموش ہی رہا۔ سفر تمام ہوا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے، لیکن آج ایک عرصہ بعد مجھے یہ سب کچھ دوبارہ یاد آیا۔ کیوں کہ جب روز ٹی وی دیکھتا ہوں یا اخبار پڑھتا ہوں، توہر طرف مہنگائی کی باتیں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں، بلکہ اب تو مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کو ہٹانے کے لیے حکومت نے بھی یہی بہانا بنایا کہ ان سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہو پا رہی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ حفیظ شیخ اگر سینیٹر منتخب ہوجاتا، تو ابھی مشیر نہیں بلکہ پکا وزیرِ خزانہ ہوتا اور حکومت مہنگائی بھول چکی ہوتی۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ سیاست کے رنگ نرالے ہوتے ہیں۔ سو تبدیلی سرکار بھی عوامی طبیعت کو دیکھتے ہوئے پرانی شراب نئی نئی بوتلوں میں انڈیل کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔
قارئین، ابھی کل پرسوں ماہِ مقدس کا آغاز ہونے جا رہا ہے، لیکن پاکستان میں پہلے سے تاجروں نے چھریاں تیز کر دی ہیں۔ ہر چیز کے دام بڑھ گئے ہیں۔ایسے میں اپنے دوستوں کی تمہید میں باندھنے والی گفتگویاد آجاتی ہے کہ یورپ میں مذہبی تہوار پر ہر چیز سستی ہوجاتی ہے۔ یوں ہماری حیرانی بجا ہے کہ ہم جوخود کو مسلمان سمجھتے ہیں، جن کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ مسلمان وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔ اب میں حیران ہوں کہ جو مسلمان دس روپے کی چیز بیس کی بیچتا ہے، تو کیا یہ اپنے ہاتھ سے دوسرے کو نقصان پہنچانا ہے یا نہیں؟اس بارے کوئی عالم ہی رہنمائی فرماسکتا ہے۔
میرا مدعا صرف یہی ہے کہ ماہِ مقدس جو نیکیاں کمانے کا بہترین ذریعہ ہے، اس کو کیوں پیسے کمانے کا سیزن بنایا جاتا ہے؟ یہ بات درست ہے کہ ملکی معیشت تسلی بخش نہیں اور مہنگائی زوروں پر ہے، لیکن جو خود ساختہ مہنگائی ماہِ رمضان میں شروع کی جاتی ہے، کیا اس کے لیے ہمارے تاجر خود بھی ذمہ دار نہیں؟ اس پر سوچنا ہوگا۔ کیوں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ماہِ مقدس میں ہر چیز سستی کی جاتی۔ بے شک منافع کمایا جائے، مگر مناسب! تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام تک بنیادی اشیا سستے داموں فراہم ہوسکیں۔
قارئین، چلیں ایک کام کرتے ہیں کہ اس ماہِ رمضان کو ایک ٹیسٹ کے طورپر لیتے ہیں۔ آپ اپنے محلے کے دکان داروں کی لسٹ تیار کیجیے۔وہ یقینا نمازِ پنج گانہ اور تراویح میں حاضر رہیں گے۔ اس رمضان میں ان کے دکانوں پر جا کے مختلف اشیا کی قیمتیں معلوم کیجیے۔ آپ کو باآسانی معلوم ہوجائے گا کہ محترم، مسجد میں عبادت کے لیے جا رہا ہے یا عادت پوری کرنے کے لیے؟ اگر اس کی دکان پرقیمتیں مناسب ہیں، تو وہ عبادت کررہا ہے لیکن اگر معمول سے زیادہ قیمتیں ہیں، تو یقینا وہ عادت پوری کررہا ہے۔ اگر یورپ کے غیر مسلم اپنے مذہبی تہوار پر سیل لگا سکتے ہیں، تو پاکستان کے تاجر رمضان میں ان کی تقلید کرکے اس بار پیسا کمانے سے منھ کیوں موڑ نہیں سکتے؟
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔