برسوں پہلے صوفی غلام مصطفی تبسم نے کہا تھا
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
وہ آج زندہ ہوتے، تو دوسرا مصرع بہار کی بے رونقی پر یوں کہتے
’’زمیں کی وہی رونق آسماں کی وہی تنہائی‘‘
بہار اپنی آب و تاب کے ساتھ پھر جوان ہے مگر بہار کی جوانی پر جو حسن پہلے کبھی آیا کرتا تھا، وہ اب نہیں آتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اب زمین والے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ فروری اور مارچ ہمارے ہاں بہار کی آمد کا دور ہوتا ہے، جس کی خوشی میں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اس بار بھی بسنت منائی جا رہی ہے، مگر یہ بھی بھلا کوئی بسنت ہوئی؟ ایک زمانہ تھا جب دن کو بھی آسمان پر ستارے ہوا کرتے تھے۔ جی ہاں، میں رنگ برنگی پتنگوں کی بات کر رہا ہوں اور آج کل ان کا رونا رو رہا ہوں۔ ان پچھلے دس برسوں میں دنیا اس قدر بدل چکی ہے کہ پتنگ اب زمانۂ قدیم کی کوئی چیز لگتی ہے۔ ہو سکتا ہے اگلے دس برس بعد آپ کسی میوزیم میں جائیں، تو وہاں دیکھنے کو مختلف اقسام کی پتنگیں موجود ہوں اور وہ ناآشنا نسل جس نے اکیسویں صدی کے وسط میں آنکھ کھولی ہے، آپ انہیں بتا رہے ہیں کہ ’’دیکھو بیٹا، یہ ہمارے دور کی تفریح کا سب سے بڑا سامان تھا۔ اب یہ میوزیم میں لگا پڑا ہے۔‘‘
نئی نسل پتنگ اڑانا کیسے سیکھے اور پرانی نسل اڑانا بھول چکی۔ اس المیے پر ذکر سے پہلے کچھ اور بھی وجوہات ہیں۔ میں اب اکثر چھٹی کے دن گھر کی چھت پر جاتا ہوں، تو مجھے آسمان نظر نہیں آتا۔ کبوتروں کے پنجرے بھی دیوار سے جانکنے پر دکھائی نہیں دیتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے گھر کے اردگرد جو یک منزلہ گھر تھے، اب یک منزلہ نہیں رہے ۔اب ایک ایک گھر کئی کئی منزلوں پر مشتمل ہے۔ میں پتنگ اڑانے کی ناکام کوشش کروں بھی، تو ہوا کہاں سے لاؤں؟ اردگرد کی فلک بوس عمارتوں نے ہمارے چھوٹے سے گھر کو قید کر رکھا ہے۔ آج کی نسل کی تفریحات ان لوگوں سے جنہوں نے بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جنم لیا، بہت مختلف ہیں۔ اس دور کے بچوں کا اسکول سے گھر آکر باقی کا دن چھت پر گزرتا تھا۔ میری نسل کے لوگوں کا بچپن تین چیزوں کے گرد گھومتا تھا۔ پتنگ، کرکٹ اور ریڈیو۔ اکثر گھروں میں پتنگ بازی کو اچھا مشغلہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اسے بھی ایک طرح کی آوارہ گردی تصور کیا جاتا تھا۔ اسکول سے واپس آکر چند گھنٹے چھت پر گزارنا روز کا معمول تھا۔ یہ اور بات ہے کہ پتنگ اڑانی نہیں آتی تھی۔ ظاہر ہے یہ ہنر اب کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر تو نہیں آتا۔ محلے کی چھتوں پر جو بچے موجود ہوتے ہیں، ان کی پتنگ بازی کے مناظر دیکھتا اور محظوظ ہوتا رہتا۔ ’’پیچا‘‘ لگتا، تو ابھی پتنگ کٹنے سے پہلے ہی ایک بچہ گھروں کی چھتیں ٹاپتا ہوا عین اس گھر کی چھت پر پہنچ جاتا جہاں اوپر پیچ لڑ رہے ہوتے۔ آسمان پر ناچتی پتنگوں کو دیکھ کر دل میں امنگ سی جاگتی تھی کہ کبھی میں بھی کسی پتنگ کو آسماں تک پہنچا سکوں۔ اُڑتی ہوئی کئی پتنگوں میں ایک پتنگ میری بھی ہو۔ ساتویں جماعت میں تھا، تو پتنگ اڑانے کی ٹھان لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گھر سے بچوں کو روز دو سے پانچ روپے تک ملا کرتے تھے۔ روز تین چار پتنگیں لاتا۔ ایک ماہ یوں ہی گزر گیا۔ پھر اچانک پتنگ اُڑانے کی یہ حسرت کامیابی میں بدل گئی۔ ایک دن پتنگ میری انگلیوں کی مدد سے آسمان کی وسعتوں کو ماپنے اُڑ ہی گئی۔ اس خوشی کا متبادل میں آج تک نہیں ڈھونڈ پایا۔ پھر کیا تھا، روز پتنگیں لاتا اور شام مغرب تک اڑاتا رہتا۔ نتیجہ یوں نکلا کہ ماں نے پیسے دینا بند کر دیے۔نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے بانسری بنا ڈالی تھی۔

میری نسل کے لوگوں کا بچپن تین چیزوں کے گرد گھومتا تھا۔ پتنگ، کرکٹ اور ریڈیو۔ (Photo: artncraftideas.com)

پلاسٹک کے جن لفافوں میں سامان آتا ہے، خواتین اکثر وہ تھیلے سنبھال سنبھال کر رکھ دیتی ہیں۔ ایک کام تو ان سے یہ لیا جاتا ہے کہ گھر کا سارا کوڑا کرکٹ ڈالنے کے لیے خواتین یہ پلاسٹک تھیلے کام میں لاتے ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ وہ لفافے کچن کی ایک دراز میں ماں نے رکھے ہوتے تھے۔ انجینئرنگ تو حالات نے بعد میں کرائی، البتہ جراثیم پہلے سے موجود تھے۔ گھر کی پتنگ بنانے کے لیے چار چیزیں درکار تھیں۔ ایک عدد درمیانہ پلاسٹک کا لفافہ، جھاڑو کے دو تنکے، دھاگا اور ٹریٹ بلیڈ۔ پتنگ کی ریڑھ کی ہڈی بنانے کے لیے جھاڑو سے مضبوط اور قدرے موٹا تنکا ڈھونڈنا پڑتا۔ پتنگ کے بازو ہلکے تنکے سے بن جاتے۔ پھر دھاگے سے تنکوں کے کنارے شاپر سے باندھے جاتے۔ پلاسٹک تھیلے کی پتنگ اتنی اچھی بننے لگی کہ محلے کے لڑکے اکثر اصرار کرتے۔ ہم سے شاپر لے لو اور ہمیں بھی ایسی پتنگ بنا کر دے دو۔ اس پتنگ میں سب سے خوبصورت چیز اس کی لچھے دار دم ہوا کرتی تھی۔ خوشی اور بھی دیدنی ہوتی جب ہلکی ہلکی بارش پڑتی، تو ساتھ والی چھتوں پر موجود بچے اپنی اپنی پتنگیں نیچے اتار لیتے اور میری’’مومی گڈی‘‘ فضا میں نہا کر رقص کرتی رہتی۔ میں چوں کہ گھر والوں سے چھپ کر پتنگ بناتا تھا اور ماں کو بالکل خبر نہ تھی کہ پیسے نہ دینے کے باوجود پتنگ اڑتی ہی نہیں بلکہ بنتی بھی ہے۔ پھر جب ماں گھر میں جھاڑو لگاتیں، تو دن بدن جھاڑو کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر پریشان ہوجاتیں۔’’ابھی تو میں نیا جھاڑو لے کر آئی تھی، اس کے تنکے کہاں گم ہونے لگے؟‘‘ شک یقین میں تب بدلا جب کچن کی دراز سے کم ہوتے پلاسٹک کے تھیلے ماں کو نظر آگئے۔
یہ عرض کرنے کا مقصد دس برس پہلے کا بچپن اور پتنگ سے دوری کی وجہ بیان کرنا تھا۔ اب چوں کہ آئی ٹی کا زمانہ ہے، تو بچہ لوگ کرکٹ، فٹ بال سے لے کر لڈو تک موبائل ایپ پر کھیلتے ہیں۔ لڈو سٹار کا نام تو آپ نے بھی سن رکھا ہوگا۔ وہ لڈو ہی کیا جس میں گوٹی مارنے پر شور بھی نہ ہو۔شائد کوئی’’فلائنگ کائٹ‘‘کے نام سے گیم بنا دے، تو لوگ موبائل پر پتنگ اڑا کریں گے۔ راولپنڈی کا بازار پرانا قلعہ پتنگوں کے لیے مشہور تھا۔ کہاں کہاں کے پتنگ باز یہاں سے ڈور اور پتنگیں خریدنے آتے تھے۔جن لوگوں نے بھلے وقتوں میں اس بازار کا رُخ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ جامع مسجد روڈ سے جب اس بازار میں داخل ہوا جاتا، تو دکانوں پر ایک خاص ڈھنگ اور قطار میں لگی پتنگیں بازار کا حسن دوبالا کر دیتیں۔ پھر وہ زمانہ آیا جب پتنگ پر پابندی لگی۔ پتنگ بیچنے والوں نے اپنا ذریعۂ معاش تبدیل کر لیا۔ آج سے پانچ برس پہلے اس بازار میں داخل ہوا، تو انہی دکانوں پر جہاں پتنگیں سجی ہوتی تھیں، وہاں گرائنڈر اور جوس بنانے والی مشینیں موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسان بھی اندر سے ایک مشین بن چکا ہے جو خواب نہیں دیکھ سکتا نہ سوچ سکتا ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گرد سوچ کے اس دور میں پتنگ کلچر کتنا ضروری ہے، یہ شائد ہمیں معلوم نہیں۔ پیچ لگا کر پتنگ کاٹنے کا کتھارسس ایک دوسرے کے گلے کاٹنے سے بہت بہتر ہے۔ یہ کلچر مغرب والوں کو سمجھ آگیا، تو ورلڈ کائٹ ڈے کا اہتمام ہوجائے گا۔سعد ضیا کسی زمانے میں ریڈیو پر ایک انگریزی شو "Hymens of the silence.” کیا کرتے تھے۔ ایک دن پروگرام میں کہنے لگے میں جب گارڈن کالج میں پڑھتا تھا، تو آدھی چھٹی کے دوران میں کالج میں بنٹے کھیلا کرتا تھا۔ ایک دن میرے استاد نے آکر مجھ سے کہا کہ سعد تم بنٹے نہ کھیلا کرو پتنگ اڑایا کرو۔اس سے کم از کم تمہاری آنکھیں تو آسمان کی جانب اٹھیں گی۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔