اکبر کے ’’دینِ الٰہی‘‘ میں آفتاب کی عبادت دن میں چار وقت لازمی طور پر کی جاتی تھی، جس میں ایک ہزار سورج کے ہندی ناموں کو وظیفہ بنا کر صرف عبادت ہی نہیں بلکہ ربوبیت میں بھی اس کو شریک ٹھہرایا جاتا تھا، یعنی سارے عالم کو کھلانے والا اور بادشاہوں کا مربی و سرپرست ’’سورج‘‘ ہے۔ بادشاہ کا لباس سات ستاروں کے رنگ کے موافق ہوتا جو ہر دن کسی ستارے سے منسوب ہوتا تھا۔ بادشاہ کے سجدے کو واجب قرار دیا گیا تھا، جس کا نام زمین بوس رکھا گیا تھا۔ اسی شرک کو ’’توحیدِ الٰہی‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ مریدوں کو مکلف کریں کہ کلمہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے ساتھ علا نیہ طور پر ’’اکبر خلیفۃ اللہ‘‘ کہیں۔ جس جماعت کو مرید کرتے، اس کا نام الٰہی رکھتے تھے۔ جب مرید ایک دوسرے سے ملتے، تو ایک اللہ اکبر کہتا اور دوسرا جل جلالہ کہتا۔ سود اور جوا حلال کردیا گیا، جواگھر خاص دربار میں بنایا گیا اور جواریوں کو شاہی خزانے سے سودی قرض دیا جانے لگا۔ سود، جوا اور شراب کی حلت کے بعد دین الٰہی میں سب سے زیادہ زور جس چیز پر دیا جاتا، وہ ریش تراشی کا مسئلہ تھا۔ چناں چہ داڑھی منڈوانے کی تائید میں جھوٹی دلائل کا دریا بہا دیا گیا اور دربارِ اکبری کے بڑے بڑے علمائے سو روزانہ اپنی داڑھیاں بادشاہ کے قدموں میں رکھ دیا کرتے۔ سؤر کی ناپاکی کو پاک تصور کیا گیا اور بارہ سال سے کم عمر لڑکوں کا ختنہ نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔بارہ سال کے بعد چاہے کرے یا نہ کرے، اس کا لڑکے کو اختیار دیا گیا۔ مردوں کے لیے سونا اور ریشم نہ صرف حلال بلکہ قریب قریب وجوب کی حد تک پہنچا دیا گیاوعلیٰ ہذاالقیاس۔
عزیزانِ من! ہند میں دینِ اسلام کے پھیلنے کے بعد جب پے درپے مسلم سلاطین آئے اور انہوں نے صرف ہندوستان کو ہی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کے دلوں کو بھی فتح کیا اور اسلام ایک طرح سے ہندوستان کا سرکاری مذہب قرار پایا، تو پھر کیا وجہ تھی کہ تاجدارِ ہندوستان جلال الدین محمد اکبر نے تمام مذاہب کے مجموعے کو ’’دین الٰہی‘‘ کا نام دے کر اسے ملک کا آئین بنا دیا؟ اس کی وجہ کچھ یوں بنی کہ جب مختلف ممالک کے دانشمند اور دیگر مذاہب و ادیان کے لوگ دربارِ شاہی میں جمع ہو کر بادشاہ کی ہم کلامی کا شرف حاصل کرنے لگے اور بحث و مباحثہ کرنے والے مولوی ایک کثیر تعداد میں جمع ہونے لگے، تو شروع شروع میں پہلا جھگڑا نشست گاہ پر چلا۔ ہر ایک بادشاہ کے قریب ہونا چاہتا تھا، تو جب بے ہودگیاں اس گروہ سے ظاہر ہوئیں اور ایک دوسرے پر زبان کی تلواریں نکال کر تکفیر کرنے لگے اور ایک دوسرے کو گمراہ ثابت کرنے میں ان کی گردنوں کی رگیں پھول آئیں اور شور ہونے لگا، تو بادشاہ کے طبعِ نازک پر ان کی یہ حرکت ناگوار گزری۔ کیوں کہ بادشاہ اپنے زمانے کے مولویوں کو رازی اور غزالی سے بھی بہتر تصور کرتا تھا۔ صبح و شام شاہی دربار، مولویوں کے دینی ہنگاموں سے گونجتا رہتا تھا۔ اگر ایک ان میں سے کسی فعل کو حرام کہتا، تو دوسرا کسی حیلہ سے اسے حلال ثابت کرنے کی کوشش میں جت جاتا۔ ان کا یہ اختلاف بادشاہ کے انکار کا سبب بن گیا، اور بادشاہ ان کے چھچھورپن کو دیکھ کر سامنے والوں پر غائب والوں کو قیاس کرکے سلف کا بھی منکر ہوگیا۔ بعض درباری مولویوں نے بادشاہ کو قرآن کی آیت ’’اطیعواللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم‘‘ دلیل کے طور پر پیش کرکے یہ باور کرایا کہ خدا کے نزدیک سلطانِ اول کا درجہ مجتہد کے درجے سے زیادہ ہے۔ اگر بادشاہ اپنے ذہنِ ثاقب اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی معاشی سہولتوں اور دنیاوی انتظام کی آسانیوں کو مدنظر رکھ کر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اسی کو مسلک قرار دے، تو بادشاہ کا یہ فیصلہ متفقہ سمجھا جائے گا اور رعایا پر اس کی پابندی لازم ہوگی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اب سلسلۂ تحقیقات میں اسلام کا نام تختہ سے مٹا دیا گیا۔ آخرِکار طریقہ یہ رہ گیا کہ مسلمانوں کے سوا جس شخص کی جو بات پسند آجاتی، اس کا انتخاب کرلیا جاتا۔ چناں چہ ملک فرنگ کے مرتاض دانشمندوں کے گروہ نے دربارِ شاہی میں انجیل کو پیش کیا اور ثالث ثلاثہ کے متعلق دلائل پیش کیں۔ ولایتِ گجرات کے شہر نوساری سے آتش پرست آئے، جنہوں نے زرتُشت کے دین کی حقیقت پیش کی، یہ لوگ آگ کی تعظیم کو بڑی عبادت تصور کرتے تھے۔ ان کی دل داری کے لیے ابو الفضل کی نگرانی میں حکم دیا گیا کہ ہمیشہ رات دن شاہی محل میں آگ روشن رکھنے کا انتظام کیا جائے۔ اس طرح پارسیوں، نصرانیوں اور مجوسیوں کے بھی دین کے کچھ اجزا اس جدید دین میں شریک کیے گئے، لیکن سب سے زیادہ اس دین میں ہندوؤں کے طور طریقوں، عقائد، اعمال اور رسوم کو جگہ ملی۔ کیوں کہ ایک زمانے تک دیوی برہمن جو مہا بھارت کی کہانی کہنے والا تھا، اس کو چارپائی پر بٹھا کر اوپر کھینچ کر اس قصر کے پاس جس کو بادشاہ نے اپنا خواب گاہ بنایا ہوا تھا، اس کو معلق رکھا جاتا اور اس سے ہندوستانی اسرار نیز بتوں، ستاروں کی تعظیم کے آداب، ہندوؤں کے جو بڑے لوگ گزرے ہیں مثلاً برہما، مہادیو، کشن مہامائی وغیرہ کے احترام کے شلوک سنتا اور اس کی جانب مائل ہو کر اسے قبول کرتا تھا، جس کے نتیجے میں اکبر نے اصلاح کی بجائے فساد کی طرف قدم بڑھایا اور ایک نئے مذہب کی ترتیب شروع کر دی جس کا نام اس نے دین الٰہی رکھا۔
عزیزانِ من، ماضی ایک ایسی حقیقت ہوتا ہے جسے یاد رکھ کر مہذب قومیں اپنا حال اور مستقبل روشن بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ انسان کو جب سے خلیفۃ الارض بنایا گیا ہے، یہ ہمیشہ سے ایک ہی جیسے کردار مختلف شکلوں اور ناموں کے ساتھ نبھاتا چلا آرہا ہے۔ وہ یہ کہ جب بھی اس کے ہاتھ میں طاقت آجاتی ہے، تو گرد و پیش کے لوگ اسے اس طاقت کو غلط استعمال کرنے پر ابھارتے ہیں۔ آپ عہدِ اکبری میں پڑھ چکے ہوں گے کہ اکبر کو کہا گیا کہ آپ تو سلطان اول ہیں، آپ صاحبِ امر ہیں، آپ جس پہلو کو ترجیح دیں، اسی کو مسلک قرار دیا جائے گا۔ کیا آج کے درباری مولوی اور وزرا یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ کپتان نیازی ’’مدینہ‘‘ جیسی فلاحی ریاست بنارہا ہے؟ اور بعض تو برملا اعتراف کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بعد عمران خان بڑا آدمی ہے، یعنی انہوں نے ’’اکبر خلیفۃ اللہ‘‘ کہا تھا، جس کے بہت سے معنی اور بھی ہوسکتے ہیں، لیکن یہاں تو صریح الفاظ میں اللہ کے بعد عمران نیازی کو اعلیٰ درجہ دیا گیا ہے۔ دربارِ اکبری میں علمائے اسلام سے پوچھا نہیں جاتا تھا، لیکن درباری مولوی اور اہلِ حق علما موجود رہتے تھے اور یہاں تو پوری پوری مذہبی پارٹیوں کو دربارِ نیازی سے نکال دیا گیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ظلم یہ کیا جا رہاہے کہ مولانا سمیع الحق جیسے اکابر علما شہید ہورہے ہیں اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی جیسی عالمگیر شخصیات پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں (خدا کے فضل سے وہ محفوظ رہے۔) دربار اکبری میں جوا ان لوگوں کے لیے حلال تھا جو شاہی خزانے سے سود پر قرض لیتے تھے اور نیازی صاحب کی سلطنت میں کرپشن ان لوگوں کے لیے حلال ہے، جو ان کو خدا کے بعد اعلیٰ درجہ دیں۔ ایک خاندان جو کئی عشروں سے ملک کے بڑے کارخانوں کا مالک ہے، وہ کرپٹ ہے، لیکن علیمہ باجی جو ایک سلائی مشین کی بدولت اربوں روپے کی مالک بن گئی ہیں، کیا وہ احتساب کے عمل میں بھی پاس ہوگئی ہیں؟ نیازی کا حمایتی نااہل ہونے کے باوجود اہم حکومتی اجلاسوں میں شریک ہو سکتا ہے، لیکن اس کا مخالف نااہل ہوتے ہی اسیر کردیا جاتاہے۔ دربارِ اکبری میں دوسرے مذاہب کے لوگ آکر اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرتے ہیں اور دربارِ نیازی کی ایک وزیر پارلیمنٹ میں کھڑی ہو کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے۔
عزیزانِ من، سانحۂ نیوزی لینڈ کے بعد جب دنیا اسلام کی طرف محبت سے دیکھنے لگتی ہے، تو پھر کیوں سندھ کی ہندو لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے؟ اگر وہ لڑکیاں اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ کر مسلمان ہوئی ہیں، تو اتنی جلدی ان کا نکاح کیوں کر دیا جاتا ہے؟ اگرچہ اپنی مرضی سے مسلمان بننا لائقِ تحسین ہے، لیکن ایک لڑکی کا مسلمان بننے کے فوراً بعد نکاح کرنا کوئی سازش تو نہیں؟ کیا بغیر نکاح کے کوئی لڑکی دو دن بھی مسلمان نہیں رہ سکتی؟ جن لڑکوں نے انہیں گھر سے بھاگنے کے لیے کہا، انہیں ضرور اس کی سزا ملنی چاہیے۔ کسی کی بھی بیٹی کو گھر سے بھاگنے کی تجویذ دینا کیا یہ ہماری تہذیب ہے؟ کیا یہ دین ہے؟
براہِ کرم، آپ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یاریاں نہ کھلیں۔ اسلام اس کی اجازت کبھی نہیں دیتا ۔ جتنی بھی ہندو لڑکیاں مسلمان ہونا چاہتی ہیں، وہ اپنے گھر میں رہیں اور اللہ سے دعائیں مانگیں۔ پھر بھی اگر والدین نہ مانیں، اور آپ کی جان کوخطرہ ہو، تب آپ عدالت سے تحفظ کے لیے رجوع کرسکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس نوعیت کے کیسوں میں کافی تحقیق سے کام لیا جائے۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔