دوسری مخلوقات کی خبر نہیں، لیکن احسن تقویم پہ خلق ہونے والے کی جبلت حسن پسندی ہے۔ اسے کسوٹی/ معیار سمجھ لیجیے۔ کسی کی احسنیتِ تقویم جانچنی ہو، تو یہ دیکھ لیجیے کہ وہ کس قدر حسن پسند ہے۔ جن کی پرہیز گاری میں خلل پڑے…… اپنی وہ جانیں، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہمارا اللہ جمیل ہے اور جمال پسند ہے۔ اب اس کے بعد ہمیں کسی فیلسوف یا عارف سے سند ہی درکار نہیں۔
قارئین، آج میرا موضوعِ تحریر ہے ہمارے ’’ٹریکرز میٹ اَپ‘‘ میں شامل ہونے والے تابندہ ستارے، فطرت پسند، عالی ہستی…… جن کی زندگی کی زیادہ تر جہات حتی کہ ان کے اقربا سے بھی موصوف و ممدوح کے عجز و انکسار، نمود و نمایش سے کوسوں دوری کے باعث ابھی تک پوشیدہ ہیں۔ آج ان کے لنگوٹیے یار، ہم جماعت اور قدیم شریکِ جُرمِ آوارہ گردی و کوہ نوردی محترم فرحان داؤدی صاحب (ایس پی، سی ٹی ڈی) اور موصوف کے قریبی دوست، معروف کوہ نورد، بائیکر، بذلہ سنج دل پذیر شخصیت جن کو زمانہ ’’شہزاد بٹ‘‘ کے نام نامی سے جانتا ہے…… کی عنایت و بندہ پروری سے کچھ جہتوں کے پرت وا کرنے کی ادنا سی سعی کرتے ہیں ۔
شکریہ تیرا ترے آنے سے رونق تو بڑھی
ورنہ یہ محفلِ جذبات ادھوری رہتی
جب یہ ہستی جن کی ذات پر آج خامہ فرسائی کی جسارت کر رہا ہوں، صرف احسن تھی، نے 1974ء میں غلام محمدآباد فیصل آباد میں آنکھ کھولی۔ جونیئر لیبارٹری سکول سے پرایمری، سینئر لیبارٹری سکول سے میٹرک کیا۔ اکثر طلبہ کی طرح لااُبالی و سیماب فطرت، شرارت کا پٹارہ، پڑھائی سے زیادہ کھانے کے شایق، نان ٹکی، نان چنے، سموسے پکوڑے اور میٹھے میں لڈو دوستوں کے ساتھ مل کر خوب اڑائے۔ لڑکپن میں ہی تیراکی، کار اور بائیک ڈرائیونگ میں طاق ہوگئے۔ یوں ہی مزے کی تانیں اُڑاتے، ہنستے کھیلتے، لڑکپن جوانی میں ڈھلا، گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ سے ایف ایس سی اور زرعی یونیورسٹی سے بی ایس سی ویٹرنری میں داخلہ لیا۔ ڈگری مکمل ہوئی، تو احسن ایک طرح سے ’’ڈاکٹر احسن‘‘ کے درجہ پر فایز ہوگئے…… مگر فکرِ معاش کی پُرخار راہ پر سفر ابھی باقی تھا۔ پس ملازمت شروع کی اور سیلز (Sales) اور مارکیٹنگ کا تجربہ حاصل کرنے کی خاطر آدھا پنجاب اپنی ہونڈا 125 پر چھان مارا۔ 2004ء میں A & K فارما بنائی اور انتہائی کامیابی اور مہارت سے اس کو چلایا۔ زمانۂ حال میں ’’اپٹلی فارما‘‘ جو ملکی و غیر ملکی فطرت پسندوں کی آماج گاہ ہے، انتہائی احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ رحیم و کریم اللہ ان کے رزق میں مزید اضافہ فرمائے، آمین!
بقولِ شخصے موصوف تھے تو پیدایشی کوہِ نورد، کوہِ پیما اور فطرت کے شیدائی…… مگر ان کے والد محترم حاجی مولوی محمد اختر صاحب بھی چوں کہ فطرت کے عاشقِ صادق اور صاحبِ جمال تھے…… وہ ان کو ہر سال کار میں مری لے جاتے، جس سے موصوف کے آتشِ شوق و جمالیات پسندی کو جلا ملی۔
1989ء میں اک دوست کے برادر کبیر نے بیرون ملک سے اے (A) کی شکل کا اک ٹینٹ تحفتاً بھیجا، تو ہم عمر دوستوں کے ہم راہ یہ ٹینٹ مری کے سیسل ہوٹل کے سبزہ زار میں لگانے جا پہنچے، اور پہلی مرتبہ کیمپنگ کاانوکھا تجربہ حاصل کیا۔ پھر دومیل مظفر آباد میں اس ٹینٹ کے ہمراہ یہ سیماب فطرت جا پہنچا۔ پھر مڑ کر نہیں دیکھا…… اور شوقِ جنوں کے زیرِ اثر 1990ء میں سیف الملوک کنارے پریوں کی کھوج میں خیمہ زن ہوگیا۔ اس دیوانے نے مجنوں کی مانند بٹہ کنڈی سے لالہ زار اِک خشک نالے سے چڑھتے ہوئے سر پر پتھر بھی کھائے۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
1993ء میں جب زرعی یونیورسٹی کے طالب علم تھے، زندگی کی پہلی کوہِ نوردی شہزاد شاہ مرحوم کے ہم راہ مناپن سے راکا پوشی بیس کیمپ سے کی…… جو انتہائی خوب صورت ٹریک گردانا جاتا ہے۔ محسن صاحب ان کے اولین پورٹر تھے، اگلا سہ روزہ ٹریک گھانچے کے نواحی علاقے دُم سُم سے مشہ بروم بیس کیمپ آزاد کشمیر کے دوست عمران صاحب کی معیت میں کر ڈالا۔یوں ہی جب بھی گھٹن کا احساس غالب آتا، یہ دیوانہ وار جانبِ شمال محوِ سفر ہو جاتے۔
وادی وادی، قریہ قریہ خاک چھانتے تفریحِ طبع کرتے پھرتے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب شیخ ذیشان (کوہ نوردی میں ان کا خفیہ ہتھیار، بہت عظیم کوہ نورد، عاجزی و انکسار کا مرقع) اور عبدالباسط مرحوم جیسے مخلص کوہ نوردوں سے راہ و رسم بڑھی، تو شوقِ کوہ نوردی کو گویا مہمیز لگ گئی۔ سنو لیک کے تمام پاسز کرلیے۔ سم لا اور سوکھا لا سمٹ کیا ہے…… مگر ناگزیر وجوہات کے باعث عبور نا کرسکے۔ کیوں کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ فطرت کے اشاروں کے خلاف کبھی نہیں جانا چاہیے۔ سوکھا لا (نام پر مت جائیے گا، میری ناقص معلومات کے مطابق مشکل ترین دروں میں شمار ہوتا ہے) خوردوپن، ویجراب، لک پے لا، سکم لا، سم لا، مشہ بروم ہوشے سایڈ سے، غونڈو غورو لا ہوشے سایڈ سے، ٹل مین، ہراموش پاس کوتوال سایڈ سے پہلی دفعہ کراس ہوا جس کا ریکارڈ ابھی تک کوئی توڑ نہیں سکا۔ شمشال پامیر پاس ان گنت دفعہ، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش انجانی راہیں، اُٹھتی بلندیاں ان کے قدموں کی چاپ سے آشنا ہیں ۔
امسال مشہ بروم ہوشے سایڈ سے پہلی دفعہ اپنی ٹیم کے ساتھ کراس کیا۔ اس سے قبل کوئی غیر ملکی یا مقامی کوہ نورد بھی کراس نہیں کرسکا جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔
گرو کوہ نورد مستنصر حسین تارڑ بھی ان کے ہم راہ پہاڑ گردی کرچکے ہیں۔ آپ جناب ان کے خاص رفقا میں شامل ہیں۔ تارڑ صاحب نے گرین ہارٹس کے 2017ء خوردوپن، سم لا اور سکم لا پروگرام میں ان کو لارڈ بایرن آف ٹریکنگ کا خطاب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ کسی جنم میں مارخور، سنو لیپرڈ، عقاب تھے اور پہاڑوں کے باسی تھے۔ اب ان کا جنم میدانوں میں ہوا مگر ان کی روحیں وہیں پہاڑوں پر بسیرا کرتی ہیں۔ اس لیے یہ سب ہر سال پہاڑ یاترا لازمی کرتے ہیں، ورنہ ان کو چین نہیں آتا۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔