ڈاکٹر طاہرہ کاظمی (Tahira Kazmi) کی تحریر پر تنقید اور تضحیک کا سلسلہ جاری ہے جو کہ غیر متوقع بالکل نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے ایسے مواقع بڑے پسند ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ معاشرے میں شعور کہاں تک پہنچا اور بظاہر بڑے روشن خیال نظر آنے والے اندر سے کیا ہیں؟ تحریر کی وجہ سے جن کی قوم پرستی جاگ اُٹھی، انہیں الگ سے داد……!
ظہیر الاسلام شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
آپ سماج میں کیا دیکھ رہے ہیں، کیا نہیں دیکھ رہے…… اس کا تعلق بصری مشاہدے سے کہیں بڑھ کر آپ کے ’’مائنڈ سیٹ‘‘ سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کے اندر پدر شاہی رسوم اور اقدار کھوٹ کھوٹ کر بھری ہیں اور آپ ان کو سماجی تخلیقات(Social Constructions) کی بجائے آفاقی سچ سمجھتے ہیں، تو آپ سے یہ توقع بالکل نہیں رکھی جاسکتی کہ آپ کو سماج میں عورت کے ساتھ ہونے والے مظالم نظر آئیں گے۔ جب آپ ایک رویے کو ظلم، امتیاز اور طاقت کی مرہونِ منت اخلاقیات کا نتیجہ سمجھنا تو درکنار، اس کی "Institutionalization” میں بذاتِ خود شریک ہیں، تو آپ سے کوئی کیوں کر یہ امید رکھے کہ آپ اس کے خلاف بولیں گے، آپ کو نظر ہی نہیں آئے گا، بھائی جان……!
روز کا مشاہدہ ہے، جن باتوں پر جسم میں کرب کی ایک لہر دوڑ رہی ہوتی ہے، یار لوگ نہایت نیک نیتی یا ڈھٹائی سے اُس کی تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں۔
عورت کے حوالے سے انتہائی مقدس اور بظاہر معصومانہ لبادے میں رائج اقدار، لطائف، قوانین، سٹیریوٹائپس، بیانیے، رسوم…… کچھ بھی اُٹھا لیں۔ کہیں نہ کہیں سفاک طاقت (Power) کی عمل داری ضرور کار فرما ہوگی۔ ہاں! البتہ اس کو نوٹ کرنے کے اہل ہونے کے لیے آپ کو سماج کی طرف سے عنایت شدہ نقطۂ نظر کو جوں کے توں اپنانے کی بجائے اور زاویوں سے مشاہدہ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے تعصبات سے خالی الذہن ہو کر مطالعہ کرنے اور "Sociological Imagination” (سماج میں رہتے ہوئے سماج کا یوں مشاہدہ کرنا جیسے آپ کسی دوسری دنیا سے آئے ہوں) کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ محنت طلب اور جرات مندانہ فعل ہے۔ اس لیے اکثر لوگ اس کی بجائے نہ صرف ’’سٹیٹس کو‘‘ کے رنگ میں رنگ جانے بلکہ اس پر فخر سے ڈٹ جانے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایسے موضوعات پر مطالعہ کرنا اور دانش وری جھاڑنا بھی اتنا مشکل نہیں، جتنا مشکل پہلے سے سیکھے ہوئے تعصبات سے سچ مچ جان چھڑانا، کھلے دل سے نئی باتوں کو قبول کرنا اور پھر عملی طور پر اُن کو ذاتی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ اگر پتا چل بھی جائے کہ فُلاں فُلاں رویے صنفی امتیاز پر مبنی ہیں، مساویانہ حقوق دینے کے سلسلے میں مرد اس لیے کتراتے ہیں کہ محدود سمجھ بوجھ کے سبب صنفی مساوات کو لاگو کرنے میں اُنھیں ذاتی فائدے کی بجائے نقصان نظر آ رہا ہوتا ہے، جب کہ خواتین کی صدیوں سے حیا، نسوانی حسن، مشرقی اقدار وغیرہ وغیرہ جیسے بظاہر خوش نما نظر آنے والے بیانیوں کے ذریعے جس طرح ذہن سازی کی گئی ہوتی ہے، بہت مشکل ہوتا ہے ان کا ’’سٹاک ہوم سنڈروم‘‘ سے نکلنا، حقائق کی کھوج لگانا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانا۔
اگر شاذ و نادر آواز اُٹھا بھی لیں، تو اُن کے خلاف اُٹھنے والی آوازیں اتنی زیادہ، پُرشور اور اُونچی ہوتی ہیں کہ گنی چنی ان چند خواتین کی اپنی آواز کہیں کھو جاتی ہے۔
مجھے ڈاکٹر صاحبہ کی تحریر پڑھ کر حیرت بالکل نہیں ہوئی۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ اس حوالے سے کئی سال پہلے رام لعل کا ایک افسانہ ’’لوہے کا کمر بند‘‘ پڑھا تھا، جس کو مَیں نے اسی تحریر کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے وقت ’’کومنٹ‘‘ میں شیئر بھی کیا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ قدم قدم پر خود کو مہذب کہنے والے خاندانوں میں بھی عورت کے ساتھ اِس قدر امتیازانہ سلوک دیکھتا آیا ہوں کہ اگر کوئی کہے کہ سندھ، بلوچستان یا پختون خوا کے قبائلی علاقوں میں اب بھی گاہے بگاہے بیوی کے جنسی اعضا کو تالا لگانے کا رواج ہے، جیسے ڈاکٹر صاحبہ نے کہا، خاص طور پر جب کہ کہنے والی ایک سینئر گائناکالوجسٹ ہو اور چار پانچ اور گائناکالوجسٹس بھی اپنا ویسا ہی مشاہدہ شیئر کر رہی ہوں، تو حیرت نہیں ہوسکتی۔
مَیں تو کہتا ہوں کہ تالا لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لڑکی ابھی پیٹ کے اندر ہوتی ہے اور اُس کی لڑکی ہونے کا سوگ منانا شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ پیدا ہوتی ہے، تو زندگی کا شاید ہی ایسا کوئی شعبہ ہو جس میں اُس کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جاتا ہو، کیا آپ صنفی امتیاز سے پاک کوئی شعبہ بتا سکتے ہیں؟ دُکھ کی بات یہ ہے کہ اس ظلم میں غیر شعوری طور پر لڑکی کی والدہ اور خاندان کی دوسری قریبی عورتیں سب سے زیادہ متحرک ہوتی ہیں۔ مقدس بیانیوں کی شکل میں لڑکی کو باور کرایا جاتا ہے کہ تم کم زور ہو، ناقص العقل ہو، ناقص الوجود ہو، جنسی بے راہ روی کا سبب ہو۔ اور یہ ذہن سازی اپنے ہی گھر میں ہوجاتی ہے۔ اَن جانے، اَن چُنے اور عموماً اَن دیکھے شوہر کے گھر جانے سے قبل اُس کو ذہنی اور جسمانی طور پر غلام بنانے کا کورس مکمل ہوچکا ہوتا ہے۔ شوہر کی لگاتار خدمت اور اس کی جانب سے "Marital Rape” کا شکار ہوتے رہنے کے لیے فرشتوں کی طرف سے بھیجی جانے والی لعنت اور مستقبل میں ایک اور جہنم سے کامیابی کے ساتھ ڈرانے کا کارِ خیر بھی سر انجام دیا جا چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں لڑکی کی زندگی عذاب کا استعارہ کیوں نہ بنی ہوئی ہو، وہ احتجاج نہیں کرتی، کرے تو کس کے خلاف…… جائے تو کہاں……!
جنھوں نے طنز کا ایک طوفان کھڑا کیا ہے ، وہ اپنا موبائل فون گھر میں کسی ایسی جگہ رکھے جہاں گھریلو خواتین باتیں کر رہی ہوں۔ گفت گو ریکارڈ کرلیں اور پھر اس کا تنقیدی جائزہ لیں۔ اگر اُن کی پچاس فی صد سے زیادہ باتیں، جو اُنھیں پدر شاہی سماج نے سکھائی ہیں اور جن کا وہ پرچار کرتی رہتی ہیں، خود اُن کی اپنی ذات کے خلاف ثابت نہ ہوئیں، تو مجھے جھوٹا قرار دے دیجیے گا۔
تاریخ سے بے خبر اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانے سے مجتنب لوگ بڑی آسانی سے یہ کَہ کر جان چھڑا لیتے ہیں، بلکہ اُلٹا سرزنش کر لیتے ہیں، کہ اس قسم کی ’’گم راہانہ‘‘ باتیں کرنا مغربی سازش سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ یہ مضحکہ خیز بات وہ یوں کہتے ہیں جیسے مغرب میں متفقہ طور پر بل پاس ہوا ہو کہ آج کے بعد ہم سب مغربی فیمینسٹس ہوں گے۔ اُنھیں اندازہ ہی نہیں کہ مغرب میں جنھوں نے صنفی مساوات یا کسی بھی دوسرے انقلاب کے لیے آواز اُٹھائی، اُنھیں طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور وہ سماج کے من پسند افراد بالکل نہیں تھے۔
ایک مثال دیکھ لیں۔ مشہورِ زمانہ ناول "The Frankenstein” لکھنے والی ’’میری شیلے‘‘ کی والدہ ’’میری ولسٹونکرافٹ‘‘ ان خواتین میں سے تھیں جنھوں نے سب سے پہلے صنفی مساوات کے لیے آواز اُٹھائی۔ انھوں نے اپنی کتاب "A Vindication of the Rights of Woman”، جو ابتدائی فیمینسٹ شاہ کار سمجھی جاتی ہے، میں خواتین کی تعلیم اور معاشی آزادی کے لیے ڈٹ کر لکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روسو جیسا شخص بھی کَہ رہا تھا کہ خواتین کو صرف اتنی تعلیم دینی چاہیے کہ وہ اچھی بیویاں بنیں اور اپنے شوہروں کو خوش رکھ سکیں۔ ’’ولسٹونکرافٹ‘‘ کو اُن کی زندگی میں بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ اُنھوں نے خود کُشی کی کوشش بھی کی اور ان کی کتاب کے پورے 150 سال بعد کیمبرج یونیورسٹی نے پہلی بار عورتوں کو مکمل ڈگری دینے کی اجازت دی۔
اگرچہ مجھے خود پر کسی "Ism” کا لیبل چسپاں کرنے کا کوئی شوق نہیں، لیکن جب کسی محفل میں روایات سے ہٹ کر کوئی نقطۂ نظر پیش کرتا ہوں، تو ’’دیسی لبرل، فیمنسٹ، سوشلسٹ‘‘ وغیرہ وغیرہ کے طعنے ملتے رہتے ہیں، جو میرے نزدیک پاکستان جیسے بنیاد پرست اور پدر شاہی سماج میں طعنے نہیں، اعزازات ہیں…… جنھیں سننے کے بعد میں ریکرشنری بن کر ’’دیسی عرب‘‘ ہونے کا طعنہ بالکل نہیں دیتا۔
طالب علم، جنھوں نے "Gender Studies” سے متعلق ابھی کچھ نہیں پڑھا، ابتدائی مطالعے کے لیے "Jane Pilcher اور "Imelda Whelehan” کی کتاب "50 Key Concepts in Gender Studies” پڑھ لیں۔ کیا پتا وہ بھی ’’مغربی سازش کا شکار‘‘ ہوسکیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔