یہ تحریر ہر اُس فرد کے نام ہے جو معاشرہ میں خود کو قابلِ ذکر سمجھتا ہے۔
پوری دنیا اس وقت ایک چھوٹے سے نظر نہ آنے والے جرثومے کی وجہ سے شدید ہیبت اور بوکھلاہٹ کے ساتھ ساتھ اتنے بڑے سماجی، معاشی اور معاشرتی تنزل کا شکار ہو کر رہ گئی ہے کہ معلوم تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ زندگی مفلوج اور دنیا گھروں میں محصور ہوچکی ہے۔ دنیا کے کئی شہروں میں ضروریاتِ زندگی ناپید ہوچکی ہیں۔ کارخانے اور کاروبار کیا، پورے نظام کا ستیاناس ہوچکا ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے والا انسان اب آپس میں مل بیٹھنے، ایک دوسرے کے نزدیک آنے، مصافحہ کرنے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کے سامنے سانس لینے سے ڈرتا ہے۔ ’’کرونا‘‘ طاقت، گھمنڈ، غرور اور تکبر کے پرخچے اُڑا تا ہوا پوری کائنات میں اپنے پنجے گاڑھ رہا ہے۔ چین میں تو جیسے تیسے ’’چَین‘‘ آ ہی گیا لیکن اب یورپ، امریکہ، عرب ممالک اور یہاں تک کہ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔ مخلوقِ خدا کو اِس سے کہیں چھپنے کی جگہ تک نہیں مل رہی۔ اس رنجیدہ اور پریشان کن صورت حال میں جہاں دنیا کے سائنس دان اس وائرس کے کنٹرول کے لیے مختلف طور طریقوں پر غور و فکر میں مصروف ہیں، جہاں شعبۂ صحت کے کارکن اس بلا سے نمٹنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں، اور جہاں حکومتیں اس وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کیے، سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہم سب پر بھی یہ لازم ہے کہ اپنے آس پاس، محلے اور بستیوں میں بے روزگار ہونے والے کارکنوں اور مزدوروں کے خاندانوں کا احوال بھی دیکھیں، اور سوچیں کہ کس طرح ان کی ہر ممکن مدد ہوسکتی ہے؟ اگر ان محروم طبقات کو نظر انداز کیا گیا، تویقین جانیں کہ آنے والے دنوں میں یہی لوگ زندگی کے لیے اس وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ شدید بدحالی اور تنگ دستی کا شکار تو پہلے سے بھی تھا، اب کسی بھی وقت فوڈ سیکورٹی کا بحران بھی سر اٹھا سکتا ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں صورتِ حال بڑی گھمبیر ہے۔ پاکستان کی 23 کروڑ آبادی میں 7 کروڑ لوگوں کو دن بھر میں 3 وقت کا کیا، مناسب کھاناایک وقت کا بھی میسر نہیں، جن کو میسر بھی ہے وہ کہیں روٹی کے ساتھ بطورِ سالن، دہی کی پتلی لسی، مرچ کی چٹنی، اچار کے ٹکڑے یاچائے یا شکر کے ساتھ کھانا نصیب ہوتا ہے۔ حکومت کا اولین فرض بنتا ہے کہ وہ غذائی اشیا کی مارکیٹ میں مسلسل فراہمی پر منظر رکھے، اور دہاڑی پر کام کرنے والے بے روزگار مزدوروں کو ایک مہینے کے لیے کم از کم ایک ہزار روپے یومیہ کے حساب سے 30 ہزار روپے بے روزگاری الاؤنس کی مد میں فوری طو پر ادا کرے، تاکہ وہ اس پُراَشوب دور میں اپنے کنبوں کی مناسب طور پردیکھ بال کر سکیں۔
دکان داروں کو چاہیے کہ اِن دنوں زیادہ منافع کے چکر میں ضروری خوردنی اشیا کی بلیک مارکیٹنگ نہ کریں، اور اپنے منافع میں مناسب حد تک کمی کر دیں۔ وگرنہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ خدا نخواستہ اگرغذائی بحران پیداہوگیا، تو پورا ملک خوفناک بد امنی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ مارکیٹ میں ذخیرہ اندوزوں پر نظر رکھیں۔ اُن کی سرکوبی کریں اورخوردنی اشیا کی غیرضروری خریداری نہ کریں، تاکہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا بیلنس برقرار رہے۔ جو لوگ اپنی ضروریات کے لیے خوردنی اشیا کو گھروں میں سٹاک کر رہے ہیں، وہ بہت بڑے ظالم اور ’’کرونا‘‘ سے زیادہ مہلک ہیں۔ وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان کو پتا ہونا چاہیے کہ بھوک، قانون دیکھتی ہے نہ سماجی اقدار۔ خدانخواستہ وہ وقت آئے کہ بھوک سے نڈھال ضرورت مند لوگ دن دہاڑے ایک دوسرے کے گھروں پر چڑھ دوڑیں اور سٹاک شدہ غذائی اجناس کو نکال کر آپس میں بانٹنے لگیں۔ اس پریشان کن صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آس پاس رہنے والے غریب اور مستحق افراد کا بھرپور خیال رکھیں، اور مصیبت کے اِن ایام میں اپنے نوالے میں اُن کو بھی شریک کریں۔
یاد رکھیں، ’’کرونا‘‘ نے موت کو بڑا نزدیک تر کردیا ہے، جس سے بچنے کے لیے کوئی ’’جھانسا‘‘ کارآمد نہیں۔ یہ مال ودولت یہاں ہی رہنا ہے۔ ہم نے شائد قبر وں کے بجائے کوؤں کا خوراک بننا ہے۔ کاش، یہ جرثومہ حملہ آور ہونے سے پہلے امیر و غریب میں کوئی تمیز کرنے کے قابل ہوتا۔
’’خواگہ کلی وال‘‘ تنظیم کوکارئی سوات کے ایک سروے کے مطابق صرف وادئی کوکاری میں پانچ ہزار خاندانوں میں مجموعی طور پر کوئی پانچ سو گھرانے ایسے ہیں جو اس بحران کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کمانے سے قاصر ہیں۔ وہ دکان داروں اور رشتہ داروں کے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، اور اُن میں ڈھیر سارے خواتین و حضرات اور بچے بچیاں گلی کوچوں میں گھوم پھر کر خیرات مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی زیادہ تر بھوک سے نڈھال ہو کر سوتے ہیں۔
تنظیم کے ممبران وادئی کوکاری میں ایسے مستحق افراد کے لیے پانچ ہزار روپے کی غذائی اشیا پر مشتمل ایک پیکیج کے ساتھ کچھ ضروری ادویہ اُن بے یارو مددگار لوگوں کے گھروں کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی پیمانے پر دیکھا جائے، تو پورے سوات کے اوسطاًپانچ لاکھ کنبوں کا ایک چوتھائی حصہ بھوک اور بیماری سے لڑ رہا ہے۔ مدرسوں میں رہنے والے بچوں کا تو کوئی شمار نہیں، اُن کی حالت تواتنی دکھ بھری اور دگرگوں ہے جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
الفجر فاؤنڈیشن سوات جو ایک عرصے سے تھیلی سیمیا کے بچوں کو خون فراہم کرنے کی خدمات سر انجام دے رہا ہے، ایک عرصے سے مالی بدحالی کا شکار ہے۔ ’’خپل کو ر فاؤنڈیشن‘‘ کے یتیم بچے بچیوں کو بھی توجہ کی شدید توجہ ضرورت ہے۔ علاقے کا خوشحال اور متوسط طبقہ فوری طور پر آگے بڑھ کر بے روزگار مزدورں کے گھر کا چولہا جلانے کے لیے ان کی مقدور بھر مالی مدد کریں، اور مدرسوں کے علاوہ الفجر اور خپل کور فاؤنڈیشن کو دِل کھول کر عطیات و صدقات بھی دیں۔
وادئی سوات کے سرگرم سماجی کارکن ’’خواگہ کلی وال‘‘ تنظیم کے پیٹرن پر اپنے اپنے علاقوں میں اس کارِ خیر کی ابتدا کرکے معاشرے کے ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ کس میں کتنا ہے دَم……!
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
کس میں کتنا ہے دم!
