دہشت گردی یا سیاسی دشمنی؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 9مئی 2023ء کو چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور بعد میں ان کی رہائی کی وجہ سے پورا پاکستان سیاسی بحران کا شکارہوچکا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر، پی ڈی ایم حکومت اور کچھ سینئر صحافیوں نے عمران خان پر دہشت گردی، القادر ٹرسٹ، توشہ خانہ اور 9 مئی کے تشدد سمیت مختلف قسم کے فوج داری مقدمات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
ایڈووکیٹ نصیر اللہ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/advocate-naseer-ullah/
اب پی ٹی آئی کے خلاف الزامات کی فہرست وسیع ہے، تاہم ان میں بڑے نِکات یہ ہیں کہ پارٹی کو معیشت کی خرابی، مہنگائی اور غربت میں اضافے کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی اصلاحات، احتساب اور شفافیت کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کرکے اس نے ملک کی خود مختاری اور سلامتی پر سمجھوتا کیا ہے۔ انھوں نے فوجی قیادت کے اختیار اور قانونی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے فوجی قیادت کو عمران خان کی گرفتاری اور اقدامِ قتل کی کئی مرتبہ منصوبہ بندی کرنے تک کے الزام عائد کیے ہیں۔
عمران خان اور ان کے حامی مسلسل پی ڈی ایم اور دیگر جماعتوں بشمول عدلیہ، نیب، الیکشن کمیشن اور حکم ران مقتدرہ پر جمہوری عمل کو کنٹرول کرنے اور آیندہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
دوسری جانب عمران خان اور پی ٹی آئی ’’میڈیائی اور فوجی سازش‘‘ کا شکار ہونے کا دعوا کرتے ہیں، جس کا مقصد پی ٹی آئی کو سیاست سے بے دخل کرنا اور عوامی مینڈیٹ کی چوری ہے۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ انصاف، جمہوریت، شفافیت اور بدعنوانی اور ہیرا پھیری کے خلاف احتساب کے لیے لڑ رہی ہے۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور عدمِ استحکام کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔
قارئین! بلوچستان اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں میں ہونے والے حالیہ واقعات اور کراچی کے میئر شپ انتخابات نے جمہوری اداروں کے اندر افراتفری اور تناو کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ عدلیہ صورتِ حال کو حل کرنے اور عوام کے حقوق کے تحفظ میں بے بس اور غیر موثر دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود عدلیہ کے فیصلوں نے تشدد کے خلاف رائے عامہ کو مضبوط کیا ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اصولوں اور شواہد کی بنیاد پر مسائل کا متوازن اور حقائق پر مبنی تجزیہ فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
حالیہ متذکرہ سیاسی بحران نے عمران خان، پی ٹی آئی اور پاکستان کے عوام کے لیے چیلنج اور مواقع دونوں پیش کیے ہیں۔ اس سیاسی بحران نے پی ٹی آئی کے اندر کم زوریوں اور تقسیم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کیوں کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے کئی رہنماؤں نے استعفا دے دیا ہے اور ڈھیر سارے کارکنوں کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس طرح عمران خان اور پی ٹی آئی کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ عمران خان کو متعدد قانونی مقدمات (بقولِ عمران خان 176مقدمات) کا سامنا ہے اور ان کی دوبارہ گرفتاری کا قوی امکان ہے۔ عمران خان کو اقتدار اور سیاست سے ہٹانے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ دباؤ، خوف اور ہیر ا پھیری کے ذریعے کارکنوں حتی کہ راہنماؤں کو ہراساں کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے پی ٹی آئی کی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے۔ کیوں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے حمایت واپس لے کر اب پی ڈی ایم کو دی ہے۔ پی ڈی ایم نے نئے قوانین کے ذریعے عدلیہ اور ججوں کو متاثر کیا ہے اور ججوں اور عدالتی اداروں کے بارے میں تنازعات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری جانب واقعات اور سیاسی بحران نے عمران خان کے حامیوں کے جذبات کو بھڑکا دیا ہے۔ جان بوجھ کر اُنھیں اُکسایا گیا، پی ٹی آئی کے نام پر سرکاری ایجنٹوں کو شامل کیا گیا، تاکہ ایسی صورتِ حال پیدا کی جاسکے جو عمران خان اور اُن کے پارٹی حامیوں کے خلاف استعمال کی جاسکے۔ عمران خان کے حامیوں نے اُن کی گرفتاری اور پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں 26 ہلاکتیں ہوئیں اور لاتعداد کارکن لاپتا بھی ہوئے۔ تاہم عمران خان نے حکم ران طبقے اور پی ڈی ایم کی قیادت کو چیلنج کرنے والے اپنے حامیوں کی جرات کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کی گرفتاری اور اقدام ِقتل کے پیچھے طاقت ور اداروں کا ہاتھ ہونے کا الزام عائد کیا۔ سیاسی اور قانونی دباو کے علاوہ تشدد اور مبینہ ظلم و ستم کے باوجود عمران خان عوام کے حقوق کے لیے لڑنے اور برسرِ اقتدار لوگوں سے احتساب کا مطالبہ کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
حالیہ سیاسی بحران کے اثرات نے پاکستان کی جمہوریت اور معاشرے کے مستقبل کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے، جو ممکنہ طور پر مختلف گروہوں اور اداروں کے مابین مزید تشدد اور تنازعات کا باعث بنے گااور جمہوری عمل اور قانون کی حکم رانی پر عوام کے اعتماد کو ختم کر سکتا ہے، قیادت اور حکم رانی کا خلا پیدا کرسکتا ہے۔ اس کا فائدہ انتہا پسند یا غیر ملکی عناصر اُٹھا سکتے ہیں۔ تاہم یہ بات چیت اور مفاہمت کا ایک موقع بھی پیش کرتا ہے، جس سے رہنماؤں اور نمایندوں کی طرف سے زیادہ شفافیت اور احتساب کے مطالبات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ بحران ملک کے مسائل کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے نئے خیالات اور اقدامات کی راہ ہم وار کرسکتا ہے۔
اس سارے منظر نامے میں کچھ سینئر صحافیوں کا کردار واضح ہے۔ کیوں کہ انھوں نے یک طرفہ طور پر خود کو پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ جوڑ لیا ہے اورعمران خان اور پی ٹی آئی پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ نیز اُنھیں سیاسی بحران کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُن کا مقصد عمران خان اور اُن کے حامیوں کو کم زور کرنا، عوام سے اُن کے حامیوں کی وابستگی اور اُن کے عوامی مینڈیٹ کو کم زور کرنا اور آیندہ ہونے والے انتخابات پر اثر انداز ہونا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ یہ واقعات انصاف اور قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں جو عوام، جمہوریت اور معاشرے کے استحکام کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اگرچہ عدلیہ بے بس اور غیر موثر دکھائی دیتی ہے، لیکن عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان متنازعہ سینئر صحافیوں کے غلط اور بے بنیاد تجزیوں کا مشاہدہ کرکے ان کا محاسبہ کریں اور اپنے ضمیر کی آواز پر ان کو متذکرہ سیاسی بحران کے معاشرتی، قانونی اور اخلاقی مضمرات کا سوال پوچھ لیں، اور ان کے جواز ات کے خلاف ان سے جواب پوچھے جائیں۔
سوالات کیے جائیں کہ کرپٹ اشرافیہ، حکم رانوں اور میڈیا نے عوام کے وقار پر سمجھوتا کیوں کیا ہے، غریبوں کا استحصال کیوں کیا ہے اور ان کے حقوق کو نظر انداز کیوں کیا گیا ہے؟ طاقت ور وں کے حق میں قوانین بنائے جا رہے ہیں، جب کہ حکومت اور ملازمین میں ایمان داری نایاب ہے۔ انتہا پسند، تشدد اور دہشت گردی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
قارئین! ہم سمجھتے ہیں کہ انفرادی اختلافات کے باوجود قوم کو خوش حال اور روشن پاکستان کے مستقبل کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ سچائی، انصاف، امن اور ہم آہنگی عوام کی دلی اُمنگ ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سوشل میڈیا رائے دینے اور احتساب اور شفافیت کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرسکتا ہے۔ عوام کو بولنا چاہیے۔ اپنے حقوق کا دفاع کرنا چاہیے اور مکالمے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ انصاف اور قانون کا احترام ضروری ہے۔ تشدد کے پھیلاو کو دور کیا جانا ہم سب کی ذمے داری ہے۔
حکم ران طبقوں، بدعنوان سیاست دانوں، اشرافیہ، عدلیہ اور سول اور ملٹری بیورو کریسی سے قانون اور اصولوں پر مبنی، علم پر مبنی بیانیے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ اخلاقیات، قوانین اور روایات کو برقرار رکھنے کا دعوا کرنے والے نام نہاد ’’کرتا دھرتا‘‘ سے اس کے اعمال کے لیے جواب دہی ضروری ہے۔ قانون کی حکم رانی کے نفاذ پر زور دیا جانا چاہیے اور ان کی حکم رانی کے بارے میں سوالات اٹھائے جانے چاہئیں۔
آئیے، ہم ہر طاقت ور سے سوالات پوچھنے اور اپنے حقوق اور پاکستان کے حقوق کے لیے لڑنے کی ہمت پیدا کرتے ہیں۔
قارئین! خیال کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور فوج کے درمیان اختلافات اور شکایات کو سول سوسائٹی، سی ڈی اے، عدلیہ اور بین الاقوامی مبصرین جیسے اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے، تاکہ منصفانہ اور شفاف انتخاب کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ ضروری ہے کہ عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے جیسا کہ ان کے ووٹ سے ظاہر ہوسکتا ہے۔ اس لیے تشدد یا جبر کا سہارا لیے بغیر انتخابی نتائج کو قبول کرنا قرین انصاف ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو سماجی، معاشی، سیاسی، سول اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے