آج کے دور کی سیاسی انارکی، مذہب سے دوری، جذباتی بے چینی اور معاشی مشکلات نے ہمارے رویوں میں بھی عجیب و غریب ماحول بنا دیا ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں تب آئی جب آج میں نے ایک مغربی دانشور کا قول پڑھا کہ ’’جس طرح مرنے والے کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کی موت نے اس سے وابستہ لوگوں کو کس حد تک اذیت میں مبتلا کیا ہے۔ اور لوگ کتنے پریشان اور غمگین ہوئے ہیں، ٹھیک اسی طرح ایک احمق شخص کو بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کی حماقتوں کی وجہ سے کتنے دوسرے لوگ پریشان ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے عقل میں حماقت کرتا رہتا ہے اور گردو بیش کے لوگ پریشان ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
سو آج میں اپنے قارئین کو چند ایک معاشرتی برائیوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں، ممکن ہے اﷲ کسی ایک ہی کو ہدایت عطا کر دے۔ میرے خیال میں ایک بڑی برائی جو مَیں نے پاکستان میں بہت دیکھی ہے، وہ ہے خود کو متعارف کروانے کا شوق۔
آپ کہیں کسی سیاحتی، تاریخی یا سماجی مرکز جائیں۔ آپ کو ہر طرف لوگوں کے لکھے ہوئے تعارف مع ایڈریس، فون نمبر اور تاریخ ملیں گے۔ فلاں ابن فلاں، تحصیل و ضلع فلاں، فون نمبر فلاں، تاریخ فلاں۔ پتا نہیں اس کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ ہم نے اس جذبہ اور جنون میں اپنی خوب صورت عمارات کو گندہ بھی کر دیا ہے اور جہالت کا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے۔ بھئی، ایک شخص جو چترال سے مینارِ پاکستان جا رہا ہے، یا شیخوپورہ سے ٹیکسلا جا رہا ہے، یا لورالائی سے داتا دربار جا رہا ہے، یا کراچی سے سوات جا رہا ہے، محض کسی علمی یا سیاحتی دورہ پر اس کو کیا مجبوری ہے کہ وہ لازماً اپنا نام پتا کسی بھی تاریخی عمارات یا کسی درخت کسی بینچ پر لکھ دے۔ البتہ کہ آپ کو ان جگہوں پر موجود واش رومز کی دیواریں بھی بھری نظر آئیں گی۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس کا ان حضرات کو فائدہ کیا ہوتا ہے؟ اگر فائدہ کوئی نہیں، تو خواہ مخواہ گند پھیلانے کا مقصد؟
اسی طرح ایک اور ہم میں نفسیاتی بیماری ہے، ہم جہاں کئی اکھٹے ہوں، غیر ضروری طور پر سیاسی و مذہبی بحث شروع کر دیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ ہم کسی تقریب کسی بس کسی ویگن کسی پارک میں ہیں، اور ہماری یہ چیخ چیخ کر ہونے والی بحث کچھ اور لوگوں واسطے باعثِ پریشانی بن رہی ہے۔ ہمارے اردگرد جو لوگ ہیں ان کو ہماری مذہبی قابلیت یا سیاسی شعور سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ہماری چیخیں ان واسطے باعثِ زحمت بن رہی ہیں۔ اور بہت حد تک ممکن ہے کہ ہمارے متاثرین میں سے کوئی بیمار ہو۔ کوئی کسی نفسیاتی یا خاندانی الجھاؤ کا شکار ہو۔ وہ کسی سکون کا متلاشی ہو، لیکن ہم بنا سوچے چیخ چیخ کر اپنی دانش وری کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ تو ہماری یہ بحثیں گالی گلوچ کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور کبھی کبھار باقاعدہ جسمانی لڑائی میں بدل جاتی ہیں۔
اسی طرح ایک اور معاشرتی کم زوری ہے کہ ہم بنا اس بات کا احساس کیے کہ ہم کسی عوامی جگہ پر ہیں، سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی بھول کر اعتراض کر بیٹھے، تو ہم اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں، کہ یہ جگہ اس کے باپ کی جاگیر ہے، جو وہ معترض ہوا۔
اسی طرح کی ایک اور معاشرتی برائی ہم میں عمومی اور بالخصوص ڈرائیور حضرات میں شدت سے موجود ہے اور وہ ہے ہارن کا اندھا دھند استعمال۔ نہ آبادی کی نزاکت کو دیکھا جاتا ہے نہ مساجد کا احترام، نہ سکول یا ہسپتال کی قربت۔ معمولی سی وجہ ہو اتنی اونچی گونج سے ہارن کو بجایا جاتا ہے کہ ایک میل دور موجود گدھا تک بدک جائے۔ ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنا غلط کام کر رہے ہیں۔
پھر ایک اور برائی کہ ہم ہر وقت بنا کسی ٹھوس وجہ کے جلدی میں ہوتے ہیں۔ کسی بھی یوٹیلیٹی بل کو جمع کروانا ہو یا کسی سرکاری محکمہ میں کوئی کام، مجال ہے کہ ہم ترتیب یا قطار کا خیال رکھیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے فوراً فارغ کیا جائے۔ بعد میں بے شک وہ دوستوں میں فضول گپیں ہانکتا رہے۔ یہ بھی بہت عجیب رویہ ہے کہ ہم شعوری کوشش کرتے ہیں خاص کر یوٹیلٹی بل پر خواہ وہ بجلی کا ہو یا گیس کا کہ آخری تاریخ کو ہی جمع کروایا جائے۔ حالاں کہ متعلقہ محکمہ جات ہم کو دنوں قبل دے دیتے ہیں۔
ایک اور بہت ہی فضول حرکت جو کی جاتی ہے، ہم خود ساختہ طور پر ہر جگہ کو عوامی سرائے بنا لیتے ہیں۔ نہ گلی کی تمیز نہ عوامی تکالیف کا احساس۔ جہاں دو چار بندے اکٹھے ہوئے، وہی پارک یا سرائے سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور گپیں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ قطعی خیال نہیں کرتے کہ یہ شارع عام ہے یا عوامی راستہ۔ یہاں سے معزز خواتین کا بھی گذر ہوتا ہے، لیکن ہم نے اپنی مرضی کرنا ہوتی ہے اور اگر کوئی اعتراض کر دے، تو اس کو ایک منٹ میں بے عزت کر دیتے ہیں۔ پھر ایک اور کمزوری ہم صفائی کا قطعی احساس نہیں کرتے۔ پکوڑے کھائیں اور شاپر یوں ہی پھینک دیا۔ جوس پیا اور خالی ڈبہ عین روڈ پر پھینک دیا۔ سگریٹ جلتا ہوا چلتی گاڑی سے پھینک دیا، یہ سوچے بغیر کہ یہ کسی حادثہ کا باعث بن سکتا ہے۔ بعض اوقات تو کوڑے کا ڈرم سامنے موجود ہوتا ہے، لیکن ہم جان بوجھ کر ایسی چیزوں کو شہروں میں پھینک دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہم میں ایک اور بہت ہی گندی اور قابل اعتراض غیر اخلاقی حرکت کر گزرتے ہیں اور وہ ہے غیر محرم خواتین کو تاڑنا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ یہ حرکت خالی ٹین ایجر لڑکوں تک محدود نہیں بلکہ اچھے خاصے عمر رسیدہ اور مہذب پیشوں سے وابستہ تعلیم یافتہ حضرات بھی ٹھرک بازی کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے دل میں خوفِ خدا ہوتا ہے، نہ معاشرتی اقدار کا احساس۔ وہ ذرا ایک منٹ واسطے نہیں سوچتے کہ یہ خاتون کسی بھی شریف شخص کی بہن بیٹی اسی طرح ہو سکتی ہے جس طرح ان کی اپنی بیٹی یا بہن۔ بلکہ کچھ بدبخت بات صرف گھورنے تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ موقع ملے تو آوازیں کسنا بلکہ باقاعدہ ہاتھوں کا استعمال کرنا بھی لازمی سمجھتے ہیں۔ ان کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کی یہ حرکت کسی بھی معزز خاتون واسطے کتنی اذیت کا باعث ہوتی ہے، جب کہ آپ کی گھٹیا حرکت آپ کو دے تو کچھ نہیں سکتی، لیکن آپ واسطے پریشانی اور ندامت کا باعث ہی بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے باجود بھی لوگ یہ کمینی حرکت کرنے سے باز نہیں آتے۔
ایک اور اہم خامی جو ہماری قوم میں انتہائی درجے میں موجود ہے، وہ یہ کہ جب بھی ہم لوگ کسی قسم کی کمرشل یا رہائشی کنسٹرکشن کرتے ہیں، تو ایک انچ زمین چھوڑنا جرم سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ اگر آپ جتنا زیادہ راستہ کھلا رکھیں گے، وہ یقینا صدقۂ جاریہ تو ہے، لیکن اس کے ساتھ اس دنیا میں سب سے زیادہ فائدہ بھی آپ کو ہی حاصل ہوتا ہے، یعنی آپ کا روز کا معاملہ ہے۔ دوسرا کوئی تو اس کو کم ہی استعمال کرتا ہے۔
اسی طرح کئی غیر اخلاقی حرکات ہمارے معاشرے میں رس بس چکی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے ان اخلاقی برائیوں کو غیر محسوس طریقے سے قبول بھی کر لیا ہے۔ معاشرے میں نہ کوئی اس کی نشان دہی کرتا ہے اور نہ احتجاج ۔ اگر کوئی شخص اس پر بات کرے، مذمت کرے، تو بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کو پاگل اور احمق بتایا جاتا ہے۔ پتا نہیں کب ہم اس طرف متوجہ ہوں گے اور کب ان اخلاقی کمزوریوں کو واقعی گناہ یا جرم سمجھنا شروع کریں گے۔ مغرب پر تنقید کا فیشن تو بہت عام ہے ہم میں، لیکن آپ کبھی تجربہ کے طور پر وہاں جا کر معائنہ کریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ایسی معاشرتی برائیوں کا وہاں پر ہونا ہی نا ممکن ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ تعلیمی و اخلاقی معیار پر ہم سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ان کی مادی ترقی کا باعث ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاس داری کو بطورِ رویہ تسلیم کر چکے ہیں جب کہ ہم ان سے گناہ سمجھ کر بھی جان نہیں چھڑانا چاہتے۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔