جو ملکی حالات اس وقت ہیں، سب کے سامنے ہیں۔ چترال سے کراچی اور کشمیر تا گوادر اکثریت کی حالت پتلی ہے۔ فرد ہو یا قوم، زیرو سے شروع ہوکر ہیرو بن جاتے ہیں۔ مگر یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
60ء کی دہائی میں ملک آگے جارہا تھا۔ اب 70 سال بعد اُلٹا سفر شروع ہوچکا ہے۔ خاص کر گذشتہ کچھ سالوں سے اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، یہ ناقابلِ بیاں اور بے مثال ہے۔ تجربے تو یہاں روزِ اول سے جاری ہیں…… مگر ان دنوں جو مخصوص تجربات ہورہے ہیں، ان کا نتیجہ بہت عجیب نکل رہا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ مٹی کا قصور ہے۔ پڑوس میں ہندوستان کا خیال آتا ہے، تو اس سوچ کو ترک کردیتا ہوں۔ کیوں کہ مٹی تو دونوں ملکوں کی ایک ہی ہے۔ آب و ہوا، زیادہ تر رسم و رواج اور بہت کچھ ایک جیسا ہے…… پھر اگر وہ چاند پر پہنچ سکتے ہیں، تو ہم کیوں رمضان اور عید کے لیے چاند دیکھنے پر راضی ہونے کی بجائے لڑ رہے ہوتے ہیں؟
ایک فرق دونوں ملکوں میں البتہ بہت واضح ہے کہ ہندوستان میں کبھی نظامِ ریاست و حکومت میں تجربہ کاری نہیں کی گئی۔ وہاں ریاستی اداروں کو امورِ حکم رانی میں وہ دخل حاصل نہیں، جو یہاں دست یاب ہے، یہاں تو ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے ایک خاص ادارے سے منسلک لوگوں کو سویلین اداروں میں بھی بٹھایا گیا ہے۔ مثلاً: واپڈ، اسپارکو، این ڈی ایم اے، ہاکی فیڈریشن، سکواش فیڈریشن، پی آئی اے، سٹیل مل اور اب نادرا وغیرہ۔ مگر ان اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ ان اداروں میں بہتری آرہی ہے یا روز بہ روز ان کی بربادی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں؟
امورِ مملکت میں اس بے جا دخل اندازی نے پڑھے لکھے دماغوں کو مایوسی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ سویلین افسران کی مایوسی اور بے زاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ جامعات سے فارغ التحصیل نئے نوجوانوں کے لیے روزگار کا حصول مشکل تر ہورہا ہے۔ اس لیے رزق کی تلاش میں دیارِ غیر کا راستہ اپنایا جا رہا ہے۔ ہر کوئی بیرونِ ملک جانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔
ابھی کل پرسوں ہم گھنے چناروں کے سائے میں بیٹھے ایک کیفے سے چائے پی رہے تھے کہ ان حالات پر تبصرہ شروع ہوا۔ ایک ساتھی پروفیسر نے کہا کہ مجھے دیارِ غیر کی یونیورسٹی سے ایک پروفیسر نے کہا کہ ’’روازنہ کی بنیاد پر پاکستان سے لوگ ای میلز ارسال کرتے ہیں، داخلہ اور سکالرشپس کے لیے۔‘‘ آگے وہ ساتھی پروفیسر کہنے لگے کہ یہ سلسلہ پہلے سے بھی تھا اور ہر ملک میں دیکھنے کو ملتا ہے…… لیکن آج کل پاکستان سے جس تعداد میں لوگ دیارِ غیر کے لیے نکل رہے ہیں، اس کو عالمی سطح پر بھی حیرانی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔
ساتھی پروفیسر نے بات ختم کی، تو میرے ذہن میں افغانستان سے امریکی انخلا کے مناظر تازہ ہوئے۔ جب طالبان کے خوف سے جوان افغانی تھوک کے حساب سے باہر بھاگ رہے تھے۔ دل خراش منظر وہ تھا، جب امریکی جہاز سے لٹکے افغان جوانوں کی لاشیں کابل ائیرپورٹ پر گر پڑیں۔ اللہ نہ کرے، وہ حالات یہاں پیدا ہوں، مگر جو ’’برین ڈرین‘‘ جاری ہے، اس کا درد کوئی کم ہے؟ گذشتہ چالیس سالوں کی جنگ نے افغانستان کو جو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، وہ یہی ’’برین ڈرین‘‘ ہی تو ہے، جس کے سبب وہاں کسی بھی نظام کو استحکام نصیب نہ ہوسکا۔
ہمارے ملک کو بھی سب سے زیادہ نقصان اسی ’’برین ڈرین‘‘ سے ہوا، ہورہا ہے اور مستقبلِ قریب میں اور زیادہ ہوگا۔ نظامِ ریاست اور امورِ مملکت میں بے جا تجربہ کاری نے برین ڈرین کا نہ رکنے والا سلسلہ جنم دیا ہے، جس سے ایک علمی حادثہ جنم لے سکتا ہے۔
آج امریکہ، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں رہایش پذیر پاکستانی بچے اور بچیاں اعلا دماغ ہیں۔ وہاں کے معاشروں میں اپنا مقام بنایا ہے اور ان ملکوں کے لوگوں کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہم مگر اپنے اعلا صلاحیت والے ہنرمندوں سے محروم ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ریاست اور حکومت اب درمیانے درجے کے ہاتھوں میں ہیں، جن کی طرزِ نگہبانی اور اسرارِ حکم رانی دونوں پر سوالیہ نشان ہے۔ کیوں کہ خلقِ خدا تکلیف میں ہے اور بظاہر کوئی دوسرا راستہ بھی نظر نہیں آرہا۔ بے یقینی کے اس گھپ اندھیرے میں بے سمت سفر ہے، جس پر قوم کا قافلہ بے مہار رواں دواں ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
ہمارا سب سے بڑا نقصان ’’برین ڈرین‘‘
