ان دنوں ملک بھر میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے، جس نے غریب اور درمیانے درجے کے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ اشیائے ضروریہ، اجناس سے لے کر ادویہ، بجلی، گیس، پیٹرول سمیت کوئی بھی ایسی شے نہیں جس کی قیمت میں استحکام پیدا کرنے کی کوئی کوشش حکومتی سطح پر محسوس کی گئی ہو۔ البتہ نئے ٹیکس لگا کر سارا بوجھ عوام پر منتقل کرنے کی روش ضرور اپنائی گئی ہے۔
گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے حالیہ اجلاس میں پاؤر ڈویژن کی جانب سے یہ اعتراف کیا گیا کہ جولائی 2018ء سے اب تک بجلی کے نرخوں میں 40 فیصد سے زائد کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس اضافے کے باوجود گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے دگنا ہوا ہے۔ بجلی کے بنیادی نرخ 2018ء میں 11 روپے 72 پیسے تھے، جو اَب 4 روپے 72 پیسے کے اضافے کے بعد 16 روپے 44 پیسے ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ جو حکمران دور اندیش اور عوامی مزاج کو سمجھنے والے ہوتے ہیں، وہ سب سے پہلے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے لیے ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو آسان بناتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی اشیائے خور و نوش کی قلت اور گرانی کو برداشت نہیں کرتے اور طلب و رسد کا ایسا مضبوط نظام قائم کرتے ہیں کہ عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔ بس یہی چیز حکومت کا پلہ بھاری کردیتی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور وقت سے پہلے رخصت کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔
لیکن پاکستان میں ہوا یہ کہ عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف جن نعروں کی بنیاد پر اقتدار میں آئے تھے، اقتدار کی باگیں اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد بھی ان نعروں کو ترک کرنا گوارا نہ کیا، وہ اقتدار میں آنے سے پہلے ایک اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کنٹینر پر سوار اپنے مخالفین کو للکار رہے تھے۔ شریف فیملی اور زرداری ان کا خاص ہدف تھے۔ ان کا دعوا تھا کہ ان لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے اور قومی دولت ملک سے باہر لے گئے ہیں۔ وہ برسر ِاقتدار آتے ہی لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائیں گے، اور قومی مجرموں کو عبرت ناک سزا دیں گے۔
اب تین سال ہوگئے عمران خان کو اقتدار میں آئے لیکن آج بھی وہ سرکاری کنٹینر پر کھڑے بدستور یہی نعرے لگا رہے ہیں۔ ان نعروں میں مزید ایک دو کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘، ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چھوڑنا اور پکڑنا یا این آر اُو دینا نہ دینا وزیراعظم کا کام ہے؟ کیا عوام نے انہیں اس لیے منتخب کیا ہے کہ وہ ملک و قوم کو درپیش مسائل کو ایک طرف رکھ کر اپنے سیاسی مخالفین کو فکس اَپ کرتے پھریں اور حکومت کی ساری توجہ اسی ایک کام پر لگا دیں۔
بے شک ان کے سیاسی حریف قومی مجرم ہیں۔ انہوں نے قومی دولت بھی لوٹی ہے۔ وہ منی لانڈرنگ کے گھناؤنے جرم میں بھی ملوث ہیں، لیکن انہیں پکڑنے کے لیے کیا ملک کا قانون کافی نہیں؟ کیا ملک میں احتساب کا ادارہ اور عدالتیں موجود نہیں؟ انہیں تو خاموشی سے اپنے اصل کام یعنی عوامی مسائل پر توجہ دینا چاہیے تھی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوامی مسائل ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ ان کی حکومت آتے ہی ملک میں مہنگائی کا سیلاب آگیا، لیکن وہ اسے روکنے میں ناکام ہیں۔ ان کا دعوا تھا کہ وہ کبھی آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے، لیکن پھر ہوا یہ کہ نہ صرف آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلایا گیا بلکہ اس کی شرائط کو من و عن قبول کرتے ہوئے پوری قومی معیشت اس کے حوالے کردی گئی۔ اب سارے فیصلے ان کی مرضی کے مطابق ہورہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے عوامی مسائل حل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، تاکہ شہری سکھ کا سانس لے سکیں۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔