خواجہ سرا نہیں، ہمارے رویے مسئلہ ہیں

ہندوستان کی تاریخ میں خواجہ سراؤں کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کے شاہی محلوں اورخاص کر زنان خانوں کا کنٹرول خواجہ سراؤں کے ہاتھوں میں ہوتا تھا۔ اس وقت کے خواجہ سرا سازشوں کے تانے بانے بننے میں ماہر ہوتے تھے۔ بعض اوقات اقتدار دلوانے اور اقتدار سے محروم کروانے میں بھی خواجہ سرا برابر کے شریک ہوتے تھے۔ ان کے ذریعے بادشاہوں، امیروں، وزیروں، شہزادوں وغیرہ کو زہر دلوا کر ہلاک کیا گیا یا تلوار سے قتل کیا گیا۔ ان کے سینے شاہی محل کے مکینوں، بعض وزیروں اور امیروں کے رازوں کے دفینے ثابت ہوئے ہیں۔
یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں، جنسی لحاظ سے اگر چہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ مرد اوردوسرا حصہ عورت، لیکن اکثر و بیشتر سڑک پر سے گزرتے ہوئے شادی بیاہ یا چوراہوں پر کھڑی ایک تیسری جنس سے بھی ہمارا سامنا ہوتا ہے، جسے مہذب زبان میں خواجہ سرا، عام زبان میں ہیجڑااورخسرا بھی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد اور رسومات پر روشنی ڈالنے سے پہلے اس پر بات کر تے ہیں کہ آخر خواجہ سرا کیسے پیدا یا بنتے ہیں؟
جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، تواس کے جنس کا تعین مرد کی جانب سے ملنے والے نطفے (کروموسوم) کے ذریعے ہوتا ہے۔ حمل قرار پاتے ہوئے اگرکسی مرد کا ایکس کروموسوم بیضے سے ملتا ہے، تو اُسی جوڑے کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے اور وائی کرموسوم کا بیضے سے ملنا لڑکے کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح خواجہ سرا کی پیدائش ایک ایکسٹرا کروموسوم کے بیضے سے ملنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، تواس کے جنس کا تعین مرد کی جانب سے ملنے والے نطفے (کروموسوم) کے ذریعے ہوتا ہے۔ (Photo: New Kids Center)

آگے چل کر پتا چلتا ہے کہ خواجہ سراؤں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جن پر وائی کرموسوم حاوی ہوتا ہے۔ ان کی داڑھی اور جسم پر بال نکل آتے ہیں۔ ان کی عادتیں مردوں جیسی ہوتی ہیں لیکن یہ ہوتے خواجہ سرا ہی ہیں۔
دوسرے وہ ہوتے ہیں جن پر ایکس کروموسوم حاوی ہوتا ہے۔ ان کے خد و خال لڑکیوں جیسے ہوتے ہیں۔ ان کی داڑھی نہیں نکلتی۔ نتیجتاً مردوں جیسی عادات رکھنے والے خواجہ سرا کو اکثر لوگ جعلی، خود ساختہ خواجہ سرا یا خسرا بھی کہتے ہیں۔ ویسے تو تمام تر خواجہ سرا معاشرے کا پِسا ہوا طبقہ ہے، مگر مردانہ عادات رکھنے والے خواجہ سرا زیادہ اذیت ناک زندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک مکمل خواجہ سرا کا روپ اختیار کرنے کے لئے انھیں اپنے پستان کا سائز بڑھانا پڑتا ہے، جس کے لئے مالی طور پر مستحکم خواجہ سرا مصنوعی پستان لگو اتے ہیں۔ ان کی اکثریت غربت کا شکار ہوتی ہے۔ وہ اسی مقصد کے لئے غیر معیاری انجکشن اور دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ یہ غیر معیاری دوائیں اور انجکشن ان میں بلڈ پریشر، ہارٹ ڈیزیزز اور بریسٹ کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن اپنے پیشے کو برقرار رکھنے کے لئے انھیں یہ سب تکلیف دہ کام برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
اب کچھ بات کرتے ہیں ان کے طرزِرہائش کی۔ خواجہ سرا عماماً ٹولیوں اور گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ کیوں کہ ایک ساتھ رہتے ہوئے یہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کا ایک گرو ہوتا ہے۔ یہ گرو خود بھی خواجہ سرا ہی ہوتا ہے، لیکن ادھیڑ عمر کا ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت گھر کے سربراہ کی سی ہوتی ہے۔ تمام خواجہ سرا چاہیں، وہ بھیک مانگتے ہوں یا پھرجسم فروشی کے پیشے سے وابستہ ہوں، اپنی کمائی کا ایک حصہ اپنے گرو کو پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خواجہ سرا بھی جو بھلے ہی الگ رہائش اختیار کئے ہوئے ہوں، اپنے گرو کو ایک خاص رقم مہیا کرتے ہیں۔ اس کے بدلے گروکا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام چیلوں کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ اگر کوئی خواجہ سرا بیمار پڑ جائے، تو اس کی تیمارداری کرتا ہے۔
خواجہ سراؤں کی کمائی کی ایک عمر ہوتی ہے۔ جب یہ بوڑھے ہونے لگتے ہیں، تو یہ گرو کی ذ مہ داری ہوتی ہے کہ ان کے نان نفقہ کا خیال رکھے۔ اس طرح اگر کسی خواجہ سرا کی موت واقع ہوجاتی ہے، تو اُس کی تدفین اور آخری رسومات بھی گر و کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نئے خواجہ سرا بچوں کا پالنا بھی گرو کے فرائض میں شامل ہے۔
بنیادی طور پر یہ ایک کمیونٹی سسٹم ہے۔ چوں کہ خواجہ سرا حقیقتاً وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ دھتکار چکا ہوتاہے۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے ماں باپ انھیں اپنا نام دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ نوکری تو دور کی بات اکثر لوگ ان سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر و بیشتر جسمانی تشدد اور ریپ کا نشانہ تک بنتے رہتے ہیں۔ پولیس کا ان شکایات پرمؤقف ہوتا ہے کہ ان کا پیشہ ہی ایسا ہی ہے، تو یہ تو ہونا ہی ہے۔ حالاں کہ اس طبقہ پر یہ ’’پیشہ‘‘ مسلط کرنے والا سماج ہی ہے۔ یہ لوگ اپنی پیدئش سے ایک ایسے گناہ کی سزا بھگتنے پر مجبور ہوتے ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں ہوتا۔

یہ لوگ اکثر و بیشتر جسمانی تشدد اور ریپ کا نشانہ تک بنتے رہتے ہیں۔ پولیس کا ان شکایات پرمؤقف ہوتا ہے کہ ان کا پیشہ ہی ایسا ہی ہے، تو یہ تو ہونا ہی ہے۔ (Photo: Nayyab’s Blog)

اب روشنی ڈالتے ہیں ان کے پوشیدہ رازوں پر جو کہ خواجہ سراؤں سے منسوب کئے گئے ہیں۔یہ تو آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ خواجہ سراؤں کو ایک پُراسرار اور عجیب خلقت مخلوق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ انھیں ہندو مذہب کی دیوی’’بہوچر‘‘کا پجاری سمجھتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ ان کا ایک الگ اور پوشیدہ مذہب ہے۔ کوئی صاحب کہتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کا جنازہ آدھی رات کے بعد ننگے پاؤں لے جایا جاتا ہے۔ کیوں کہ اگرکوئی شخص اس جنازے کو دیکھ لے، تومرحوم خواجہ سرا اگلی جنم میں بھی خواجہ سرا ہی پیدا ہوگا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کوکھڑا دفنایا جاتا ہے اور دفنانے سے قبل لوگ ان کے مردہ جسم کومارتے پیٹتے ہیں، تاکہ اس سرزد گناہوں کو دنیا میں دھو دیا جائے۔ یہ بات بھی زبان زدِ عام ہے کہ خواجہ سرا اپنے کسی ساتھی کی موت پر سوگ نہیں مناتے بلکہ خوشی مناتے ہیں کہ ہمارا ساتھی ایک اذیت ناک زندگی سے آزاد ہوگیا، لیکن یہ تمام باتیں صرف اور صرف قیاس آرائیاں ہیں۔ خواجہ سراؤں کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہوتا۔ پاکستان میں رہنے والے اکثر خواجہ سرا مسلمان ہیں۔ یہ لوگ بھی ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کی نمازِ جنازہ بالکل عام لوگوں کی طرح ادا کی جاتی ہے۔ اپنے مرحوم خواجہ سرا کے تمام ساتھی مردوں کے لباس میں ملبوس ہوتے ہیں اور انھیں عام قبرستانوں میں دفنایا جاتا ہے۔ یہ دوسرے لوگوں کی طرح اپنے مردے کے ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی بھی کرتے ہیں اور صاحبِ حیثیت خواجہ سرا مسجدوں میں کھانا بھی تقسیم کرتے ہیں۔ یہ اپنے ساتھی کی موت پر روتے ہیں اورغم بھی مناتے ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والے خواجہ سرا ہندوازم کے ماننے والے ہیں۔ یہ لوگ کسی دوسری دنیا کی مخلوق نہیں ہیں۔ یہ بھی ربِ کائنات کی پیدا کردہ مخلوق ہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا اور ان کی تخلیق بنا کسی مقصد کے نہیں ہوتی۔

…………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔