جولائی 2017ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اسرائیل یاترا کی تصاویر دکھائی جا رہی تھیں، جس گرم جوشی کا اظہار اسرائیلی وزیر اعظم (بینجمن نیتن یاہو) نے بھارتی وزیراعظم سے ملاقات میں کی، وہ ہم نے اُن کے کسی اور سربراہ وطن سے ملاقات میں نہیں دیکھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم نینن یاہو، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ خوشگوار موڈ میں

جولائی ہی کے مہینے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ اسرائیل کے دوران میں اس قسم کی گرمجوشی موجود نہیں تھی۔ پھر اسرائیلی وزیراعظم کی ’’صورتی زبان‘‘ (باڈی لینگویج) اُس کی اندرونی خوشی کو ظاہر کررہی تھی۔
اسرائیل اور بھارت کے تعلقات کافی پرانے ہیں۔ اُن کے درمیان تجارت بھی کافی مستحکم ہے۔ اسلحے کی تجارت قابل ذکر ہے، لیکن ان سب کے باوجود مودی سے پہلے غالباً کسی بھی بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اس لیے مودی پہلے وزیراعظم ہیں جو اسرائیل تشریف لے گئے تھے۔

اسرائیل اور بھارت کے تعلقات کافی پرانے ہیں۔ اُن کے درمیان تجارت بھی کافی مستحکم ہے۔ اسلحے کی تجارت قابل ذکر ہے، لیکن ان سب کے باوجود مودی سے پہلے غالباً کسی بھی بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اس لیے مودی پہلے وزیراعظم ہیں جو اسرائیل تشریف لے گئے تھے۔

اسرائیل اور بھارت کے تعلقات کافی پرانے ہیں۔ اُن کے درمیان تجارت بھی کافی مستحکم ہے۔ اسلحے کی تجارت قابل ذکر ہے، لیکن ان سب کے باوجود مودی سے پہلے غالباً کسی بھی بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اس لیے مودی پہلے وزیراعظم ہیں جو اسرائیل تشریف لے گئے تھے۔

پہلے بھارتی وزرائے اعظم کیوں اسرائیل یاترا سے گریزاں رہے؟ اس کا ہمیں علم نہیں، چوں کہ بھارت کے اسلامی ممالک سے بھی کافی عمدہ تعلقات ہیں اور بیشتر اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات موجود نہیں، اس لیے ممکن ہے کہ سابقہ بھارتی حکمران زیادہ تعداد کے عرب ممالک کی ’’خوشنودی‘‘ کے لیے اسرائیل یاترا سے گریزاں ہوں۔
ذاتی طور پر مجھے معلوم نہیں کہ پاکستان اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرتا جب کہ یہ دونوں ممالک مذہبی پہچان کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ مسلمانوں کی مذہبی تحاریر بنی اسرائیل کی اذکار سے بھری پڑی ہیں۔ خدا کرے کسی قابل اہلِ قلم کی کوئی تحریر مجھے ملے اور میرے علم میں اضافہ ہو لیکن پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ممالک کی دنیا میں موجودگی کے باوجود وہ ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے اور جب قبولیت نہ ہو، تو سوچ اور احساس مثبت نہیں ہوتے۔ اس لیے جب کسی نامنظور شخص یا ملک کے مفادات کا موقعہ آتا ہے، تو وہ مخالف یا خاموش رہتا ہے۔ بصورتِ دیگر نقصان پہنچانے میں دیر نہیں کی جاتی۔ ہنود اور یہود کی مسلم دشمنی کا فقرہ ہم بچپن ہی سے سنتے آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اگر مسلمان نام کا مسلمان نہ ہو، اور اُس کے ذاتی اور ریاستی اعمال، افعال، اقوال اور پالیسی قرآن مجید اور ہدایات رسول (صلعم)  کے مطابق ہو، تو کوئی بھی اُس کا دشمن نہ ہوگا۔ کیوں کہ اسلام دشمنی کو مٹاتا ہے۔ اسلام امن کا داعی ہے۔ یہ اُس وقت تک کسی شخص یا ملک پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جب تک وہ شخص یا ملک کسی مسلمان یا مسلمانوں کے ملک پر حملے میں پہل نہیں کرتا۔ دین اسلام نے جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار رہنے کا حکم دیا ہے، تاکہ دشمن کو احساس ہو کہ ان لوگوں پر حملہ خطرناک ہوگا (اگر میرا یہ خیال غلط ہو یا یہ کالم غلط ہو، تو میری رہنمائی کی جائے یا روزنامہ آزادی میں صحیح صورتحال پر مبنی کالم شائع کیا جائے، تاکہ عام قاری کو بھی فائدہ ہو)۔ یعنی مسلمانوں کی جنگی تیاری (قرآنِ مجید میں زیادہ سے زیادہ تیاری کا حکم ہے، تاکہ معلوم اور نامعلوم دونوں دشمنوں کو ڈرایا جائے۔ آیت نمبر ساٹھ، سورۂ انفال) گویا کہ امن کو بر قرار رکھنے کے لیے فوجی تیاری مسلمانوں پر فرض ہے۔ اب جبکہ ہندوؤں کے ساتھ ہم لوگ پہلے ہی سے حالت جنگ میں اور اسرائیلیوں کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور نہ وہ ہمیں تسلیم کرتے ہیں، لیکن ہم ’’عرب کاز‘‘ کے حامی ہیں، اس لیے اُن دونوں پاکستان مخالف اقوام کا گرمجوشی کے ساتھ متحد ہونا پاکستان کے لیے سبق آموز حقیقت ہے۔ پاکستان کی حکومت اور اس کے اندر علما پر یہ لازم ہے کہ وہ زیادہ محتاط ہوجائیں۔ ایسے اسباب اور ذرائع ڈھونڈ کر زیرِ عمل لائے جائیں جن کے ذریعے پُرامن بقائے باہمی برائے امن و خوشحالی پر عمل کروایا جاسکے، تاکہ تینوں ممالک امن و سکون کے ساتھ ترقی کریں اور ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار نہ ہوں۔

کئی ایک اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی اور دوسرے شعبوں میں تعلقات موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے، موجود ہے اور مؤثر ہے۔ پاکستان کی بنیاد بھی نظریاتی ہے اور اسرائیل کی بنیاد بھی نظریاتی ہے۔ پاکستان بھی جنگ کے بغیر میز پر بات چیت کے بعد وجود میں آیا ہے اور اسرائیل بھی ایسے ہی بنا ہے۔

کئی ایک اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی اور دوسرے شعبوں میں تعلقات موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے، موجود ہے اور مؤثر ہے۔ پاکستان کی بنیاد بھی نظریاتی ہے اور اسرائیل کی بنیاد بھی نظریاتی ہے۔ پاکستان بھی جنگ کے بغیر میز پر بات چیت کے بعد وجود میں آیا ہے اور اسرائیل بھی ایسے ہی بنا ہے۔

کئی ایک اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی اور دوسرے شعبوں میں تعلقات موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے، موجود ہے اور مؤثر ہے۔ پاکستان کی بنیاد بھی نظریاتی ہے اور اسرائیل کی بنیاد بھی نظریاتی ہے۔ پاکستان بھی جنگ کے بغیر میز پر بات چیت کے بعد وجود میں آیا ہے اور اسرائیل بھی ایسے ہی بنا ہے۔ غالباً اسرائیل کے قیام کا بڑا محرک یہ تھا کہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی اس قدیم قوم کا اپنا کوئی ملک نہیں تھا۔ تفاسیرِ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم یہودی لوگ تقریباً تقریباً انہی علاقوں میں آباد تھے جو آج کل اسرائیل اور مصر کے مشرقی علاقے اور فلسطین کے علاقے ہیں۔ مذہبی تعلیم کی جو محافل مجھے نصیب ہوئی ہیں، اُن میں، مَیں نہ سن سکا ہوں کہ پاکستان اور اسرائیل ایک دوسرے کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟

تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے علاقوں میں یہودی لوگ تھے، پتا نہیں وہ کیوں اور کہاں چلے گئے؟ وہ تو یہاں کے شہری تھے۔ عام (غیر مذہبی) مضامین؍ خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ اسرائیلی اور فلسطینی علاقے مسلم عربوں کے ہیں اور ان پر اسرائیل کی ریاست زبردستی قائم کی گئی ہے اور یہودی افواج مسلمانوں کو نشانہ ستم بنا رہی ہیں۔ عرب ممالک کی مشترکہ افواج نے اسرائیل کو مٹانے کی کوششیں کی ہیں، لیکن ناکام رہی ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیل کے سخت بیانات حال ہی کی بات ہیں۔ اب سعودی عرب نے ایران اور قطر کے خلاف ایک خطرناک محاذ کھڑا کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ’’اسرائیلی کاز‘‘ کو تقویت پہنچانے کے لیے (؟) اگر پاکستان اس سے محتاط طریقے پر الگ نہ رہا، تو وطنِ عزیز میں کئی مشکلات پیدا ہونے کے خطرات ہوں گے۔

تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے علاقوں میں یہودی لوگ تھے، پتا نہیں وہ کیوں اور کہاں چلے گئے؟ وہ تو یہاں کے شہری تھے۔ عام (غیر مذہبی) مضامین؍ خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ اسرائیلی اور فلسطینی علاقے مسلم عربوں کے ہیں اور ان پر اسرائیل کی ریاست زبردستی قائم کی گئی ہے اور یہودی افواج مسلمانوں کو نشانہ ستم بنا رہی ہیں۔ عرب ممالک کی مشترکہ افواج نے اسرائیل کو مٹانے کی کوششیں کی ہیں، لیکن ناکام رہی ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیل کے سخت بیانات حال ہی کی بات ہیں۔ اب سعودی عرب نے ایران اور قطر کے خلاف ایک خطرناک محاذ کھڑا کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ’’اسرائیلی کاز‘‘ کو تقویت پہنچانے کے لیے (؟) اگر پاکستان اس سے محتاط طریقے پر الگ نہ رہا، تو وطنِ عزیز میں کئی مشکلات پیدا ہونے کے خطرات ہوں گے۔

تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے علاقوں میں یہودی لوگ تھے، پتا نہیں وہ کیوں اور کہاں چلے گئے؟ وہ تو یہاں کے شہری تھے۔ عام (غیر مذہبی) مضامین؍ خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ اسرائیلی اور فلسطینی علاقے مسلم عربوں کے ہیں اور ان پر اسرائیل کی ریاست زبردستی قائم کی گئی ہے اور یہودی افواج مسلمانوں کو نشانہ ستم بنا رہی ہیں۔ عرب ممالک کی مشترکہ افواج نے اسرائیل کو مٹانے کی کوششیں کی ہیں، لیکن ناکام رہی ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیل کے سخت بیانات حال ہی کی بات ہیں۔ اب سعودی عرب نے ایران اور قطر کے خلاف ایک خطرناک محاذ کھڑا کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ’’اسرائیلی کاز‘‘ کو تقویت پہنچانے کے لیے (؟) اگر پاکستان اس سے محتاط طریقے پر الگ نہ رہا، تو وطنِ عزیز میں کئی مشکلات پیدا ہونے کے خطرات ہوں گے۔ مسلمان ممالک پر نظر ڈالنے سے یہ افسوسناک صورتحال نظر آتی ہے کہ اعلیٰ وسائل کے باوجود مسلمان کئی مشکلات اور محرومیوں اور کئی فسادوں کا شکار ہیں۔ آخر کیوں اور کب تک؟

ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ وہ امت فلاح نہیں پاسکتی جس کے امرا و علما گمراہ ہوں۔ گویا کہ امرا و علما پر بہت بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کیا مسلمان ممالک اور عوام امن، ترقی اور خوشحالی کے حقدار نہیں؟ اگر ہیں، تو کیا خراب حالات کو بہتر بنانے کے لیے از سرِ نو مکالمہ اور نئے عمرانی معاہدوں کی ضرورت نہیں؟ اگر قرآن و احادیثِ صحیحہ میں واضح پابندیاں نہ ہوں، تو کیوں مسلمانوں کے امرا و علما بہتر اور پُرامن زندگی کے لیے کام شروع نہ کریں۔

ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ وہ امت فلاح نہیں پاسکتی جس کے امرا و علما گمراہ ہوں۔ گویا کہ امرا و علما پر بہت بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کیا مسلمان ممالک اور عوام امن، ترقی اور خوشحالی کے حقدار نہیں؟ اگر ہیں، تو کیا خراب حالات کو بہتر بنانے کے لیے از سرِ نو مکالمہ اور نئے عمرانی معاہدوں کی ضرورت نہیں؟ اگر قرآن و احادیثِ صحیحہ میں واضح پابندیاں نہ ہوں، تو کیوں مسلمانوں کے امرا و علما بہتر اور پُرامن زندگی کے لیے کام شروع نہ کریں۔

ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ وہ امت فلاح نہیں پاسکتی جس کے امرا و علما گمراہ ہوں۔ گویا کہ امرا و علما پر بہت بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کیا مسلمان ممالک اور عوام امن، ترقی اور خوشحالی کے حقدار نہیں؟ اگر ہیں، تو کیا خراب حالات کو بہتر بنانے کے لیے از سرِ نو مکالمہ اور نئے عمرانی معاہدوں کی ضرورت نہیں؟ اگر قرآن و احادیثِ صحیحہ میں واضح پابندیاں نہ ہوں، تو کیوں مسلمانوں کے امرا و علما بہتر اور پُرامن زندگی کے لیے کام شروع نہ کریں۔ عوام تو عوام ہوتے ہیں، وہ خود کچھ نہیں کرسکتے۔ اُن کو بہتر اور پُرامن زندگی صرف امراو علما ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ کئی پرانی باتوں کا حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں از سرِ نو جائزہ لینا اور فیصلے کرنا بری بات نہ ہوگی۔