گروہ در گروہ انسانی جوڑوں کے آہ و بکا والے ماحول میں خود کو تنہا پا تے ہیں، تو شرار صاحب احساسِ کمتری کے لت سے مزید شرابور نہ ہونے کے واسطے، ساحل سے واپسی کا راستہ ناپتے ہیں۔ ہم بھی بادلِ نخواستہ اُن کی کمان میں دیکھتے پیچھے پیچھے ہیں اور چلتے آگے آگے ہیں۔ یہاں تک کہ ریزارٹ کے کینٹین پہنچ جاتے ہیں اور چائے کے گرما گرم چسکی میں اپنی تنہائی کی محرومیوں کو بھی پی جاتے ہیں۔ کاش، اتنے ’’جینڈر اَن بیلنسڈ‘‘ نہ ہوتے ہم۔کینٹین کی دیواروں پر سرخ رنگ سے جگہ جگہ لکھا ہے: ’’اپنے ساتھ کھانا لانے والے حضرات سے التماس ہے کہ وہ پہلے کاؤنٹر سے رابطہ کریں۔ چارجز ادا کرنے پڑیں گے۔‘‘ ساحل سے واپس کمروں میں آنے والوں کے لیے تحریری نوٹس چسپاں ہے: ’’واش رومز میں پاؤں دھونا منع ہے۔‘‘ لکھنے والوں نے یہ بھی لکھا ہے: ’’کنڈ ملیر ضرور آئیں لیکن کچرا ساتھ نہ لائیں۔‘‘ کہتے ہیں کہ یہاں محمدبن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں ہیں، جن کو دیکھنے سے ہم محروم رہے۔ ہنگول نیشنل پارک مٹی کے پہاڑوں سے بنا ہوا ہے جو سیکڑوں کلومیٹر پرپھیلا ہوا ہے۔ہر لحظہ اور ہر گھڑی بارش، ہوا اور مٹی کی باہمی آمیزش و اشتراک اور من کی مرضی سے جو نت نئے ڈیزائن کے ٹیلے، پہاڑیاں، ڈھلوان اور مجسمے پروان چڑھتے اوردیکھنے کو ملتے ہیں، تو بندہ انگشت بدندان رِہ جاتا ہے،آدمی نظامِ خداوندی کے اس روپ سے مرعوب ہو جاتا ہے۔ نظروں کو عجب سی طمانیت اور سکون کا احساس ہو جاتا ہے۔ جیسے مٹی کی بنی یہ شکلیں لوگوں سے مخاطب ہوں، جیسے یہ آنے والوں کو خوش آمدید اور جانے والوں کو خدا حافظ کہنے کے لیے کمر بستہ کھڑی ہوں۔ جیسے یہ آنے جانے والوں کو کائنات کے تنوع (ڈائی ورسٹی) کے بارے میں بیتے دنوں کا احوال سنانے کھڑی ہوں، شاید کوئی اُن کی بھی بپتا سنے۔ لیکن یہاں کون ہے جو کسی کی سنے؟ اس ظالم، بے حس اور بے پروا دُنیا میں کوئی خود کو نہیں سنتا، تو دوسروں کو کیا سنے گا۔
لو جی، ایک اِلرٹ، جب ہوائیں نمکین محسوس ہوں، جب سانسیں نمک زدہ ہوں، زمین نمک اُگلنے لگے، پہاڑیاں نمک کے سفید لباس میں ملبوس نظر آئیں۔ جب در و دیوار زنگ آلود ہوں۔ بجلی کے کھمبے اور ہر قسم کا لوہا زنگ آلود لگے، تو سمجھو کہ آپ مکران کی ساحلی پٹی میں گھوم پھر رہے ہیں۔ اُرماڑہ کے ساحل پر پاکستان نیوی نے نیول بیس اور کیڈٹ کالج بنایا ہے، لیکن ہم جلدی میں اس کے دیکھنے سے محروم رہتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ دُکانوں میں اور سڑک کنارے ایرانی پیٹرول سے بھرے کنستر پڑے نظر آتے ہیں۔ یہاں پر یہی سب سے بڑا کاروبار اور روزگار ہے عام لوگوں کے لیے۔ کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں یا بکھرے بکھرے گھروندے موجود تو ہیں، لیکن سڑک پر آدم زاد کیا کوئی گاڑی بھی کم کم ہی نظر آتی ہے۔ شکر خدا کا، سفر کے تیسرے دن سہ پہر کے وقت گوادر کے ایک شاہی مہمان خانے میں قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ یہاں ہمارے میزبان ہیں جناب نعیم خان پائیزئی، جو کارِ سرکار سے وابستہ ہیں۔ وہ خود بڑے مصروف ہیں۔ کل ایک دو روزہ بین الاقوامی تجارتی نمائش شروع ہونے والی ہے، جس کا افتتاح وزیرِ اعظم پاکستان کریں گے۔ ہمارے علاوہ، جی ہاں! ہمارے علاوہ چیدہ چیدہ عوامی نمائندے، پاک اورچین کی سرمایہ کار پارٹیاں (بھی) اس نمائش میں مدعو ہیں۔ یہ تمام انتظامات ہمارے میزبان کے سر ہیں، لیکن وہ وہاں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی وقت دے رہے ہیں۔ ہمارے آرام، سکون اور ’’واروں نیاروں‘‘ کا خیال بھی رکھ رہے ہیں۔
اپنے کاروان میں عجیب البیان قسم کے لوگ موجود ہیں۔ یہ جو میرِکارواں میاں افتخارحسین ’’لیلونی وال‘‘ ہیں نا، وہ خود کو بھول کر صرف اس تگ ودو میں لگے رہتے ہیں کہ سات بندوں جن میں بذاتِ خود وہ شامل نہیں، پر مشتمل اپنے قومی ہیروز کے آرام و سکون کا خیا ل رکھیں، جو وہ اپنے ساتھ گوادر لے کے آئے ہیں (یعنی ہم)۔ لیکن وہ خود کتنا منظم ہے، اندازہ کریں کہ اُس کے کپڑے حاضر گل کے بیگ میں پڑے ہوئے، کوٹ گاڑی کے سیٹ کے پیچھے لٹکا ہوا،نظر کی عینک روشن کی جیب میں اور ادویات کوئٹہ میں چھوڑ آئے ہیں۔ یہی احوال بھائی شوکت شرار کا ہے۔خوشی اس بات کی ہے کہ وہ خود بخیر و عافیت پہنچے ہیں۔ اگر خود کو کہیں بھول جاتے تو……! اُس کا خالی خولی بریف کیس ہاتھ میں اور اپنا بیگ کندھے پر بڑے طمطراق سے اُٹھائے، سردار زیب مہمان خانے کی دوسری چھت تک جانے والی سیڑھیوں کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ میری معلومات کے مطابق وہ ریلوے میں نہیں رہا، پھر بھی سامان اُٹھانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ جب کہ افتخارخود بڑے کروفر بلکہ جاہ و جلال سے دونوں ہاتھ آگے پیچھے کرتے ہوئے ڈرائنگ روم کی طرف یوں رواں دواں ہیں، جیسے امریکہ کولمبس نے نہیں بلکہ انہوں نے ابھی ابھی دریافت کیا ہو اور وہ ملکۂ برطانیہ کو اس دریافت کی روداد سنانے جا رہے ہوں۔
شام کو انواع و اقسام کے کھانے دسترخوان پر سج جاتے ہیں، تو پیٹ میں بھوک کے بھانبڑ آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔ ہم لمبے چوڑے ڈسپوزبل دسترخوان کا جائزہ لیتے ہیں۔ پانی کی بوتل دُبئی کی، لسی کے پیک ایران کے، کولڈ ڈرنکس اور جوسز امارات کے، بکرے کا گوشت بلوچستان کے صحراؤں کا، مچھلی جیونی کی، روٹی گھریلوگندم کے آٹے کی، ذائقہ دار پلاؤ کے چاول کالا شکاکو کے کھیتوں کے، دہی کہیں کی، سلاد کہیں کا۔ دوسر ی طرف ،باورچی کراچی کا، خادم گوادر کے،کھاؤ پیو پارٹی سوات کی، اور۔اور ’’اَفٹر آل‘‘ اپناپشتون میزبان مہربان کوئٹے کی گلیوں کا۔ پھر کیا، مقابلہ تو دلِ توانا ہمیشہ خوب کرتا ہے۔ صبح صبح نمائش دیکھنے ایک چھوٹی سے پہاڑی پر واقع ہوٹل پہنچتے ہیں۔ جہاں سے پُرانے پریشان حال شہر اور خوش حال سمندر، دونوں ہمسا یوں کا بیک وقت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ چین سے آنے والے ڈالروں کی سونامی میں ایک اپنی محرومیوں کی جب کہ دوسری اپنے آؤ بھگت کی زندہ و تابندہ مثال پیش کرتے ہیں۔ اور یہی پر پشتو کی ایک زندۂ جاوید کہاوت کی نفی ہوتی ہے کہ ’’ہمسائے پر برسے گا، تو ہمسائے پر ٹپکے گا۔‘‘ نمائش میں جانے کے لیے سیکورٹی کا جو طریقۂ کار اوربندوبست ہے،اُس سے لگ رہا ہے جیسے بادی النظر میں ہر طرف دہشت گردوں کا راج ہو اور بد امنی کی بادشاہی ہو، سِوائے ہوٹل کے چار پانچ ایکڑ قطعۂ ارضی کے۔ اپنی گاڑیاں کہاں پارک کرنی ہیں، فہرست کے مطابق نام کی ویری فکیشن کہاں سے ہونا ہے، ویزیٹر کارڈ کدھر سے بنوانا ہے، موبائل فون کہاں جمع کرنا ہے اور اس کی رسید حاصل کرنے کا طریقۂ کار کیا ہے، کتنے فٹ پیدل جانا ہے اور کتنے میٹرانتظامیہ کی پک اینڈ ڈراپ سروس سے استفادہ کرنا ہے؟ ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے ایک جگہ سائن بورڈ پر بڑی ڈھٹائی سے لکھا ہے: ’’اپنی شناخت کراؤ، خلاف ورزی پر اسلحہ کا استعمال کیا جائے گا۔‘‘ یہاں ایک بڑا پوسٹر آویزاں ہے، جس پر انگریزی زبان میں لکھا ہے۔’’گوادر، ایپی سنٹر آف سی پیک۔‘‘ (جاری ہے)
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔