وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کے دلوں سے ریاستِ سوات کی محبت کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ ریاست کے حکمرانوں سے عوام کا پیار اور ان کی طرزِ حکومت، اداروں، نظام امن اور ان کے چلانے والوں کی یادیں اپنی نجی محفلوں میں تازہ کی جاتی ہیں اور ہم جیسے بوڑھے ویسے بھی ’’ناسٹلجیا‘‘ کے مریض ہوتے ہیں۔ کوئی تجسس کرنے والا نوجواں شومئی قسمت سے اس دور کے بارے میں ایک سوال کرتا ہے اور ہم یادوں کی پوٹلی پوری کی پوری کھولنے لگتے ہیں۔ شاید علم کا متلاشی اپنے کئے پر نادم ہو، مگر مروت میں خاموش رہتا ہے اور ہماری ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ سننے کے لیے خود پر دلچسپی کا مصنوعی خول چڑھا دیتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ شام کے وقت ہمارے گاؤں کے ایک نو عمر اہلِ قلم جبار الملک خان ہم سے ملنے آئے۔ باتوں کا سلسلہ چل نکلا، تو انہوں نے بتایا کہ اُن کے دادا کے والی صاحب سے بہت اچھے اور گہرے روابط رہے ہیں اور اکثر اُن کی کہانیاں سناتے ہیں، لیکن اس وقت ضعیف العمری کی وجہ سے ان کی یادداشت کمزور ہوگئی ہے اور اکثر واقعات گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ میں باتیں تو اُن سے کررہا تھا مگر میرا دماغ کہیں دور چلا گیا تھا اور اچانک میرے ذہن میں یہ سوال مچلنے لگا کہ یہ لڑکا جو میرے پوتے کا ہم عمر ہے، اسے اُس دور کے حکمرانوں سے کیوں اتنی اُنس بڑھ گئی ہے اور ان کے بارے میں جان کر اسے کیا ملے گا؟ وہ دور جو ایک خواب کی طرح تھا، گزر گیا۔ اس دور کا پلٹ کر آنا ناممکنات میں سے ہے۔ پھر یہ بات مجھے بے چین کرنے لگی کہ اب ایک ٹرینڈ (TREND) چل پڑا ہے کہ لوگ اپنے کچھ بزرگوں کی تصاویر فیس بک پر اَپ لوڈ کرتے ہیں اور ان سے ریاستی اداروں کے مختلف عہدے منسوب کرتے ہیں۔ بعض حضرات تو اتنے مبالغہ آمیز رینکس (RANKS) اپنے بزرگوں کے ساتھ لگاتے ہیں جن کا اس دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس امر کے پیش نظر میں نے یہ مناسب سمجھا کہ میں مرحلہ وار، ریاست کے مختلف اداروں کے سٹرکچر اور ان کے ترتیب وار افسروں کا نقشہ اپنی بساط کے مطابق اطلاعات پڑھنے والوں کی خدمت میں کھینچ کر پیش کرسکوں
گر قبول اُفتد زہے عز و شرف
اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے ریاست کے اہم ترین شعبے یعنی مسلح افواج کا ذکر کریں گے۔

جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودو المعروف باچا صیب، ریاست سوات کے فوجیوں کے ساتھ کھڑے ہیں

فوج کی تعداد انتہائی عروج کے دنوں میں دس ہزار تک پہنچ گئی تھی جو بعد میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ کم ہوتی گئی۔ اس کے علاوہ نیم مسلح وہ افراد بھی جو روزمرہ کی بنیاد پر سڑکوں کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔ ان کی تعداد کوئی چار ہزار کے قریب تھی۔ ان کا سربراہ ’’کمانڈر روڈز‘‘ کہلاتا تھا۔ ان کے ما تحت ایک کپتان، دو صوبیدار میجر اور دیگر رینکس کے لوگ تھے۔ ان کو بھی فوج کی طرح غلے کی صورت میں ادائیگی کی جاتی تھی۔ صرف افسروں کو نقد تنخواہ ملتی تھی۔ (فوٹو بشکریہ ڈان میڈیا)

ریاست کے ابتدائی ایام میں فوج کا ایک سپہ سالار ہوا کرتا تھا جن کا نام احمد علی تھا۔ وہ وزیراعظم حضرت علی کا چھوٹا بھائی تھا۔ جب ریاست کو استحکام حاصل ہوا اور احمد علی کو اُن کی خدمات کے صلے میں وزیر کا درجہ دیا گیا، تو وہ ’’کشر وزیر‘‘ کہلانے لگے۔ کچھ عرصہ وہ وزارت کے ساتھ فوج کے بھی نگران رہے، اور جب ولی عہد ’’جہاں زیب خان‘‘ کو فوج کی کمان دی گئی اور ساتھ ہی عدالتی اختیارات بھی، تو فوج کے لیے ایک کل وقتی سپہ سالار کی تقرری عمل میں لائی گئی۔ اسی سلسلے کے پہلے سپہ سالار سید شہزاد گل تھے، جو اپنے بعد آنے والے سپہ سالار سید بادشاہ گل کے والد تھے۔ سپہ سالار سید بادشاہ گل کے ریٹائرمنٹ پر والی صاحب نے سپہ سالار کا عہدہ ہی ختم کیا اور اُن کے بیٹے جہاں زیب پاچا (جہان آباد) نائب سالار مقرر کئے گئے۔ اس کے بعد نائب سالار ہی فوج کے اعلیٰ ترین افسر ہوتے تھے۔ جو مشہور افسر اس عہدے پر رہے ہیں، اُن میں فقیر نائب سالار، امیر چمن خان نائب سالار، جہان زیب پاچا نائب سالار، عمرا خان نائب سالار آف پنجیگرام، عمرا خان نائب سالار آف کو کاریٔ اور آخری نائب سالار سید جہان خان آف شاہ پور رہے ہیں۔

یہ بات یاد رکھیں کہ سوات کی فوج میں کوئی جرنیل نہیں تھا۔ درج ذیل جدول سے فوج کے رینکس ظاہر کئے گئے ہیں۔
سپہ سالار، نائب سالار، کماندار (بعد میں کمانڈر)، کمان افسر (بعد میں کپتان)، صوبیدار میجر، صوبیدار، جمعدار، حوالدار، سپاہی۔

ریاست سوات میں صرف افسروں کو نقد تنخواہ ملتی تھی۔ پولیس کا بھی ایک انچارج کمانڈر پولیس ہوا کرتا تھا۔ اُن کے ما تحت کئی انسپکٹر اور تھانیدار ہوا کرتے تھے۔

ریاست سوات میں صرف افسروں کو نقد تنخواہ ملتی تھی۔ پولیس کا بھی ایک انچارج کمانڈر پولیس ہوا کرتا تھا۔ اُن کے ما تحت کئی انسپکٹر اور تھانیدار ہوا کرتے تھے۔ (فوٹو بشکریہ ڈان میڈیا)

فوج کی تعداد انتہائی عروج کے دنوں میں دس ہزار تک پہنچ گئی تھی جو بعد میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ کم ہوتی گئی۔ اس کے علاوہ نیم مسلح وہ افراد بھی جو روزمرہ کی بنیاد پر سڑکوں کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔ ان کی تعداد کوئی چار ہزار کے قریب تھی۔ ان کا سربراہ ’’کمانڈر روڈز‘‘ کہلاتا تھا۔ ان کے ما تحت ایک کپتان، دو صوبیدار میجر اور دیگر رینکس کے لوگ تھے۔ ان کو بھی فوج کی طرح غلے کی صورت میں ادائیگی کی جاتی تھی۔ صرف افسروں کو نقد تنخواہ ملتی تھی۔ پولیس کا بھی ایک انچارج کمانڈر پولیس ہوا کرتا تھا۔ اُن کے ما تحت کئی انسپکٹر اور تھانیدار ہوا کرتے تھے۔

پولیس، ریاست کے طول و عرض، قلعوں اور پوسٹوں میں مستقل طور پر رہائش رکھتی تھی۔ قلعوں کے انچارج صوبیدار ہوتے تھے اور فوج سے آتے تھے۔

پولیس، ریاست کے طول و عرض، قلعوں اور پوسٹوں میں مستقل طور پر رہائش رکھتی تھی۔ قلعوں کے انچارج صوبیدار ہوتے تھے اور فوج سے آتے تھے۔ (فوٹو بہ شکریہ سوشل میڈیا پیج "سوات نامہ”)

پولیس، ریاست کے طول و عرض، قلعوں اور پوسٹوں میں مستقل طور پر رہائش رکھتی تھی۔ قلعوں کے انچارج صوبیدار ہوتے تھے اور فوج سے آتے تھے۔ ان درج شدہ عہدوں کے علاوہ ریاستِ سوات کی فوج میں اور کوئی رینکس نہیں تھے۔ اگر قارئین نے اس کوشش کو پذیرائی بخشی، تو آئندہ عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر شعبوں کے بارے میں تفصیلات پیشِ خدمت کروں گا۔
چلتے چلتے ایک بات واضح کرتا چلوں کہ والی صاحب کے دور میں صوبیدار میجر اور ان سے اوپر کے تمام رینکس کو جنس کی بجائے نقد تنخواہ دی جاتی تھی۔ یہ وضاحت ضروری تھی، لہٰذا گوش گزار کر دی۔