ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے…… مگر جیسے یہ بتانا ضروری ہوتا ہے کہ کون سے بھائی ہو…… ہابیل یا قابیل؟ ٹھیک اسی طرح ریاست کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ کون سی ماں ہے…… ’’سگی‘‘ یا ’’سوتیلی‘‘؟
یادش بہ خیر، میاں محمد نواز شریف کی مرکز میں حکومت تھی اور پی ٹی آئی صوبے میں براجمان تھی۔ میاں محمد نواز شریف نے ’’فاٹا اصلاحات کمیٹی‘‘ کے نام پر چند لوگوں کو نام زد کیا۔ سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی تھی، مگر فاٹا سے کوئی فرد شامل نہ تھا…… یعنی جہاں اصلاحات کرنا تھے، سرے سے وہاں کی نمایندگی تھی ہی نہیں۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
پشاور میں بیٹھ کر اپنے نام زد افراد کو بلایا جاتا، اُن کی پیٹ بھری جاتی، جیب گرم کیے جاتے اور وہ کچھ کہے سنے بغیر ’’شکریہ‘‘کے الفاظ ادا کرتے لوٹ جاتے۔
شوکت عزیز کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کیں اور فاٹا کے انضمام کی تجویز دی۔ یہ تجویز ویسے ہی آئین کے آرٹیکل 247 کی خلاف ورزی تھی، جس کا سیکشن 6 کہتا ہے کہ مقامی قبائلی جرگے کی اکثریت بلا کسی دباو اور مداخلت کے فاٹا کے اندرونی انتظامی نظام کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز ہے…… مگر اُن کو تو پورا آرٹیکل 247 ہی کھٹک رہا تھا، جس کو آئین سے اُڑا دیا گیا۔
شوکت عزیز کمیٹی نے مزید کہا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے۔ اُن کی سفارش تھی کہ پورے ملک کی طرح تمام وفاقی و صوبائی قوانین کا اطلاق انضمام کے ساتھ ہی شروع ہوجائے اور خصوصی حیثیت ختم ہوجائے۔ یوں فاٹا خیبرپختونخوا کے باقی حصوں کی طرح ہی باعمل ہو جائے گا، مگر پانچ سال کے لیے ٹیکسوں کے نفاذ سے گریز کیا جائے، تاکہ فاٹا باقی خیبرپختونخوا اور ملک کے مساوی معاشی لیول تک پہنچ سکے۔ پانچ سال بعد جائزہ لیا جائے کہ اگر مطلوبہ معاشی اہداف حاصل نہیں ہوئے ہیں، تو مزید 10 سال کی چھوٹ دی جائے۔
مسودہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیش کیا گیا اور باجماعت منظوری حاصل ہوئی۔ فاٹا کی ’’میت‘‘ دفناتے دفناتے ’’پاٹا‘‘ کی لاش بھی گرا آئے۔ اُس وقت کے نااہل ممبرانِ صوبائی اسمبلی نے مذکورہ مسودہ پڑھنا تک گورا نہ کیا۔ حکومت کی رخصتی کے دن تھے اور نئے انتخابات کی تیاریاں کرنا تھیں، پڑے فنڈز کی بندر بانٹ کرنا تھی۔ اس آپا دھاپی میں پاٹا ملاکنڈ ڈویژن کو بھسم کر آنے کا خیال ہی نہیں رہا۔
قومی اسمبلی نے لبیک کہتے ہوئے انگوٹھے ثبت کیے اور یوں ’’فاٹا‘‘ اور ’’پاٹا‘‘ کی خصوصی حیثیت جس کا آئین ضامن تھا، وہ آئین جس کا خود کوئی ضامن نہیں، اس سے آرٹیکل 247 مٹاکر ختم کر دیا گیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
پاٹا فاٹا کی آئینی حیثیت اور موجودہ صورتِ حال  
سرزمینِ بے آئین 
پاٹا کا مستقبل  
’’پاٹا‘‘ میں پہلے ہی پاٹا ریگولیشن یہاں کے عوام کی طویل جدوجہد سے ختم ہوکر ماضی کا حصہ بن گیا تھا۔ عدلیہ انتظامیہ سے الگ تھی۔ ہائی کورٹ بنچ قائم تھا۔ سپریم کورٹ تک رسائی حاصل تھی۔ محض زیبِ داستاں کے لیے ’’فاٹا‘‘ کے ساتھ ’’پاٹا‘‘ کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی۔
اس عمل سے ’’پاٹا‘‘ میں بے چینی کی آگ بھڑک اُٹھی۔ تاریخ کے بدترین مظاہرے ہوئے۔ عوام سراپا احتجاج بن گئے۔ مجبوراً 2018ء میں حکومت نے دو ’’ایس آر اُوز‘‘ جاری کیے، جن میں ’’فاٹا‘‘ اور ’’پاٹا‘‘ (سابقہ ) کے تعین کے ساتھ 5 سال یعنی 30 جون 2023ء تک ٹیکس کی چھوٹ دی گئی۔
سابق نگران حکومت نے فائنانس بل 2023-2024ء میں مزید ایک سال کی توسیع دے دی، یعنی صرف دو مہینے بعد آخری رعایت ٹیکس کا نفاذ بھی شروع ہو جائے گا۔ ’’ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن‘‘ کے دفتر سیدو شریف شگئی میں کھول دیے گئے ہیں۔ انکم ٹیکس محکمے کے لیے دفاتر اور دفاتر کے لیے سامان کے ٹینڈر پہلے ہی شائع ہوچکے ہیں۔ کسٹم حکام پچھلے سال سے نام کسٹم پیڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن کر رہے ہیں۔ اب مکمل روح نکل جائے گی، جسم تو پہلے ہی نیم مردہ تھی۔
اس وقت ملاکنڈ ڈویژن کے کسی حصے میں حقیقی ظلم و جبر کے خلاف کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی، نہ کہیں کوئی مباحثہ ہو رہا اور نہ کہیں کوئی احساس ہی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں 2009ء تک مسلسل کئی سال عسکریت پسندی رہی اور فوجی آپریشن جاری رہا۔ اس سے پہلے ’’شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‘‘ کے نام پر تحریک نے مسلح ہوکر ریاست کو للکارا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے جانی و مالی نقصان نے ملاکنڈ ڈویژن اور سوات کی معاشرت ، معیشت، تعلیم حتی کہ تہذیب و ثقافت کے پرخچے اُڑا دیے۔
اس عظیم الشان نقصان کا ریاست نے کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا، بلکہ الٹا ’’سیکشن فور‘‘ لگا لگا کر نجی جائیداد اونے پونے داموں سرمایہ داروں کی عیاشی کے لیے ہتھیائی گئی۔
جنگ زدہ علاقوں کو ریاستیں معاوضے ادا کرتی ہیں۔ مالیے، ٹیکس اور قرضے معاف کرتی ہیں۔ مفت تعلیم اور صحت کے مواقع دیتی ہیں۔ امن کے بعد بہ حالی کے کام شروع کرتی ہیں، جس میں مالی، سماجی اور نفسیاتی بحالی و امداد پر زور دیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصی کوٹے دیے جاتے ہیں۔ مقامی طور پر تعلیمی سرگرمیوں کو بڑھایا جاتا ہے۔ کھیل کے میدان آباد کیے جاتے ہیں۔
’’مملکتِ خداداد‘‘ میں مگر گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔ 2010ء کے سیلاب نے رہی سہی کسر بھی پورا کردی۔
فطرت کی ناراضی کا سارا زور ہوٹل انڈسٹری، جو پہلے ہی دیوالیہ پن کا شکار تھی، دریا برد ہوگئی۔ نتیجتاً سیاحت ختم ہوکر رہ گئی۔ یہاں کے عوام جو پہلے سے سفید پوش تھے، کوڑی کوڑی کے محتاج ہوئے۔
اب جبر یہ ہوا کہ جس ’’سرتاج عزیز کمیٹی‘‘ یا ’’فاٹا اصلاحات کمیٹی‘‘ نے فاٹا میں اصلاحات کرنا تھے، وہاں پاٹا کا ذکر ہی نہیں تھا۔ پاٹا کو امداد کی ضرورت تھی۔ مگر ریاست نے مرے پر سو درے کے مصداق ٹیکس نافذ کرنا شروع کر دیے۔
اس طرح سابقہ نوابی ریاستوں کے ون یونٹ کے خاتمے کے بعد انضمام اور اب ملاکنڈ ڈویژن کے انضمام نے ریاست سے رحم کی امید ہی ختم کر دی۔
گذشتہ 53 سالوں سے مسلسل جبر اور ریاستی بیانیے کی تکمیل کے زور نے عوام کو ریاست اور اس کے نظام سے ایک طرح بے زار سا کر دیا ہے۔
دنیا میں لوگ ریاست سے غداری کرتے ہیں، یہاں الٹا ریاست نے وفاداری سے انکار کردیا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تجار، وکلا، صحافی برادری،مزدور، اساتذہ، طلبہ اور سول سوسائٹی مل کر ریاست کو یاد دلائیں کہ ریاست ماں ہوتی ہے، سگی ماں…… ریاست عوام کی وفادار اور محافظ ہوتی ہے۔ ریاست گھنی چھاؤں اور تحفظ کا احساس ہوتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔