مَیں یہ کالم گذشتہ کالم کی جگہ لکھنا چاہتا تھا، لیکن نہ لکھ سکا اور مَیں نے اس کی وجوہات بھی اپنے گذشتہ کالم میں درج کر دی تھیں۔ بہ ہرحال بہ ظاہر آصفہ بی بی پر ایک مکمل کالم لکھنا اس وجہ سے بھی مشکل ہے کہ ابھی تک آصفہ کی پہچان فقط بلاول کی بہن، آصف علی زرداری کی بیٹی کہ جن کو صدرِ پاکستان نے خاتونِ اول کا سٹیٹس دیا ہے، اور شاید دنیا کی تاریخ میں یا کم از کم پاکستان میں پہلی بار کسی بیٹی کو یہ سٹیس دیا گیا ہے، وگرنہ عمومی طور پر یہ سٹیٹس بیگمات ہی کو ملتا ہے۔ البتہ اس سے پہلے شاید یہ اعزازی مرتبہ مادرِ ملت فاطمہ جناح کو بانیِ پاکستان حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بہ طورِ بہن دیا تھا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ جب قائدِ اعظم پاکستان کے گورنر جنرل بنے، تو وہ بغیر بیگم کے تھے اور آج آصف علی زرداری بھی بغیر بیگم کے ہیں۔ ویسے آج اگر بیگم ذرداری یعنی شہید محترمہ بینظیر بھٹو بہ قیدِ حیات ہوتیں، تو وہ خاتونِ اول کے بجائے حکومتی منصب پر بیٹھی ہوتیں اور زرداری صاحب بس مردِ اول ہی ہوتے۔
بہ ہرحال ہم نے یہ کالم لکھنے کا فیصلہ تب کیا کہ جس دن اس نوجوان خاتون نے حلف لیا۔ اُس دن حزبِ اختلاف یعنی تحریکِ انصاف کے ممبرانِ قومی اسمبلی نے بے شک ایک شرم ناک اور بہت ہی قابلِ اعتراض رویے کا مظاہرہ کیا۔ حالاں کہ ملک کی اکثریت نے آصفہ کی پارلیمانی سیاست میں انٹری کو خوش آمدید کہا۔
مَیں چونکہ ذاتی طور پر پاکستان کو ایک لبرل ترقی پسند پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں اور میرے خیال میں قائدِ اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، خان عبدالغفار خان، ولی خان، جان اچکزئی، معراج محمد خان، اصغر خان، نواب زادہ نصرﷲ خان، لیاقت علی خان وغیرہ جیسے صحیح عوامی و سیاسی راہ نما پاکستان میں ایک تھیو کریٹک حکومت کے بہ جائے روشن خیال نظام کے حامی تھے۔ مجھے آصفہ کے حلف اُٹھانے پر اسی طرح فخر و خوشی ہوئی کہ جس طرح مجھے بیگم راعنا لیاقت علی خان کے گورنر، محترمہ بینظیر بھٹو کے وزیرِ اعظم، بیگم اشرف عباسی کے ڈپٹی سپیکر، فہمیدہ مرزا کے سپیکر اور اب محترمہ مریم شریف کے وزیرِاعلا پنجاب بننے پر ہوئی۔
میرا یہ موقف ہے کہ ہم نے اپنے نظام میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی طور پر برابری کی بنیاد پر آگے لانا ہے۔ وگرنہ اس سائنسی و تجارتی بین الاقوامی نظام میں ہم ترقی کر ہی نہیں سکتے۔
آصفہ بھٹو زرداری پاکستان کی تاریخ کی وہ واحد خوش قسمت بچی ہے کہ جو پیدا ہی وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہوئی…… یعنی اس کو ایک وزیرِ اعظم نے جنم دیا۔ مگر جب اس بچی نے بولنا شروع کیا اور اپنے قدموں پر چلنا شروع کیا، تو کچھ عجیب و غریب حالات دیکھنا اس کا مقدر ٹھہرا۔ اس کا باپ مختلف مقدمات میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا اور ماں اس بچی کو گود میں لے کر کبھی جیل جاتی، کبھی ایک عدالت، تو کبھی دوسری۔مَیں نے ایک دفعہ محترمہ بینظیر بھٹو جیسی مضبوط اعصاب کی مالک خاتون کی آنکھوں میں آنسو دیکھے کہ جب اُنھوں نے ایک غیر ملکی صحافی سے گفت گو کرتے ہوئے بچوں کے رویے کے حوالے سے کہا کہ یہ بچی مجھ سے پوچھتی ہے کہ ہمارا باپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتا؟ اور جب محترمہ بینظیر بھٹو یہ بات آنسو لے کر کر رہی تھی، تو ننھی آصفہ اُن کی گود میں تھی۔
بہ ہرحال پھر محترمہ بینظیر بھٹو جَلا وطن ہوگئیں اور آصفہ سمیت اُن کے بچوں کو ایک طویل عرصہ بنا باپ کے رہنا پڑا۔ قریب 2004ء میں زرداری صاحب ضمانت پر رہا ہو کر دوبئی گئے۔ یوں پرائمری سکول کی طالب علم آصفہ کو ماں باپ دونوں کی آغوش ملی، لیکن شاید قدرت کو ابھی اس خاندان کی خوشیاں مطلوب نہ تھیں۔ جب آصفہ بچپن سے لڑکپن میں داخل ہو رہی تھی، تو پاکستان کی تاریخ کا ایک مکروہ ترین اور ظالمانہ واقعہ 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں پیش آیا کہ جس نے آصفہ سے اُن کی ماں کو ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ اس کے بعد یقینی طور پر اس معصوم بچی کے لیے یہ صدمہ برداشت کرنا بہت مشکل تھا…… لیکن ثابت ہوا کہ یہ بچی حالات کے جبر کو براشت کرگئی اور دوبئی میں ابتدائی تعلیم کے بعد آکسفورڈ میں اعلا تعلیم کے لیے چلی گئی اور امتیازی نمبروں سے ڈگری لے کر واپس آئی۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
اپنے وہ کام جو پیپلز پارٹی کیش نہ کراسکی  
پیپلز پارٹی کی تجدید وقت کی اہم ضرورت  
بلاول بھٹو زرداری  
پاکستان میں سیاسی و انتخابی اتحادوں کی مختصر تاریخ 
جہاں تک میری معلومات ہیں، محترمہ بینظیر بھٹو کے بچوں میں سے سیاست کا شوق بھی اسی بچی کو حاصل ہے اور سیاست کا فہم بھی۔ بختاور تو سیاست سے بہت دور ہے اور شاید اپنی خالہ صنم بھٹو کی طرح سیاست سے دور ہی رہے، جب کہ بلاول کی بھی سیاست میں شمولیت بس حادثاتی ہی ہے۔ اگر محترمہ بینظیر بھٹو کا الم ناک حادثہ نہ ہوا ہوتا، تو شاید بلاول بھی سیاست میں نہ آتا…… لیکن آصفہ کی شخصیت شاید بنی ہی سیاست کے لیے ہے۔
مجھے ایک دفعہ کسی نے بتایا کہ ایک دفعہ مرحوم جنرل مشرف نے ایک نجی محفل میں کہا تھا کہ آصفہ بینظیر جونیئر بنے گی۔ کیوں کہ بہ قول جنرل مشرف کے اُنھوں نے ایک دعوت میں (جس میں زرداری صاحب بچوں کے ساتھ موجود تھے) زرداری صاحب کو کہا کہ آپ جس اپنی وزیرِ خارجہ پر بہت ناز کرتے ہیں یعنی محترمہ حنا ربانی کھر، یہ میری دریافت ہے۔ یاد رہے کہ حنا کھر پہلی بار ق لیگ کے دور میں وزیر بنی تھی۔ اس کے فوراً بعد آصفہ کہ جو اُس وقت طالب علم تھیں، نے کہا: ’’جنرل! بے شک سیاست میں کھر صاحبہ کو وزیر آپ نے بنایا، لیکن حنا کو ’حنا کھر‘ ہم نے بنایا۔ ہم نے اُن کی صلاحیتوں کو سمجھا اور اُن کو اہم وزارت دی۔‘‘
اس کے بعدآصفہ بی بی کی پہلی عملی سیاست میں عوامی طور پر انٹری سنہ 2018ء کے انتخابات میں ہوئی، جب وہ سانگھڑ سے ملتان تک عوامی اجتماعات میں نظر آئی۔ پھر سنہ 2023ء کے انتخابات میں تو اندرونِ سندھ پوری عوامی مہم آصفہ بھٹو ہی نے چلا کے دکھائی۔ بلاول تو زیادہ پنجاب اور بلوچستان یا کسی حد تک خیبر پختون خوا اور کراچی تک محدود رہا۔ اس لڑکی نے اس محنت اور یک سوئی سے انتخابی مہم چلائی کہ پورے اندورنِ سندھ سے ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے نہ صرف کلین سوئپ کیا، بلکہ ووٹوں میں بہت واضح فرق نظر آیا۔ اکثر جگہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدواران کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ تھرپارکر سے ارباب رحیم خاندان، نواب شاہ سے جتوئی خاندان، لاڑکانہ سے کھوڑوں خاندان، سانگھڑ سے پگاڑوں خاندان، پھر فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا وغیرہ جیسے بڑے نام بہت بری طرح شکست کھاگئے۔ پھر انتخابات کے بعد جب آصف زرداری صاحب ملک کے صدر بن گئے، تو اُن کی خالی ہونے والی نواب شاہ کی نشست سے آصفہ بی بی بلامقابلہ ممبر قومی اسمبلی بن گئی۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آصفہ بھٹو زرداری پر دھاندلی اور جبر سے بلا مقابلہ منتخب ہونے کا الزام بھی بہت کھوکھلا ہے۔ کیوں کہ اس نشست پر سنہ 1988ء سے زرداری خاندان بلا شرکتِ غیرے منتخب ہوتا چلا آرہا ہے…… بلکہ ایوب خان کے دور اور سنہ 70ء کے انتخابات میں بھی یہاں سے آصفہ بی بی کے دادا حاکم علی زرداری منتخب ہوتے رہے۔ پھر گذشتہ عام انتخابات میں جب انتخابات کا ماحول تھا، تمام جماعتیں زور لگا رہی تھیں۔ خاص کر پاکستان تحریکِ لبیک اور مسلم لیگ پگاڑو گروپ بہ شمول تمام جی ڈی اے۔ تب بھی آصف زرداری صاحب قریب ایک لاکھ کے مارجن سے یہ نشست جیت گئے ۔ تو محض ضمنی انتخابات کہ جہاں مسلم لیگ ن کا امیدوار ہی نہ ہوتا، سندھ میں اُن کی اپنی حکومت ہے، اُن کا اپنا منتخب شدہ وزیرِ اعلا ہے، حزبِ اختلاف حکومت سے نہ صرف مکمل باہر ہے، بلکہ اب اس کے لیے سندھ میں مقابلہ کرنا ممکن ہی نہیں، تو صدر زرداری کو کیا ضرورت تھی کہ اپنی بیٹی کو پہلی بار پارلیمان میں داخل کرنے کے لیے دھاندلی دھونس سے کام لیتے اور خواہ مخواہ بدنامی مول لیتے۔
پھر اب تک کوئی ایک بھی ممکنہ امیدوار عدالت گیا نہ کوئی عوامی دعوا ہی کیا۔ بہ ہرحال اب آصفہ بھی عملی طور پر سیاست میں آگئی ہیں۔ اُن کی سیاست میں کارگردگی کیسی رہتی ہے؟ یہ تو مستقبل ہی بتائے گا۔ کیا وہ اپنے والد کی طرح دھیمے انداز میں سب سے یاری والی سیاست کرتی ہیں، جوڑ توڑ اور بارگینگ کرتی ہیں یا اپنی ماں اور نانا کی طرح مکمل عوامی اور جارحانہ سیاست کرتی ہیں؟اس وقت آصفہ بھٹو زرداری کی سیاست پر تبصرہ مشکل ہے۔
ایک تو وہ بالکل نیا چہرہ ہیں۔ دوم، اس وقت وہ خود سے کوئی فیصلہ لینے یا کسی مسئلہ پر خود سے پالیسی بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی میں اس وقت آخری فیصلہ کرنے کا اختیار محترم آصف زرداری کا ہے، یا پھر کسی حد تک بلاول بھٹو کا۔
لیکن آصفہ کی کچھ ذاتی خوبیاں کہ جن سے راقم آگاہ ہے، وہ آصفہ بی بی کو ’’کراوڈ پلر‘‘ بنا سکتی ہیں…… یعنی آصفہ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہے اور دنیا کے اہم اور مستند اداروں سے ڈگری ہولڈر ہے۔ سیاسی دانش میں بالکل نانا کے خاندان پر گئی ہے۔یورپ کے اعلا تعلیمی اداروں میں پڑھنے، زندگی کا بڑا حصہ یورپ میں گزارنے کے باجود وہ مکمل مشرقی انداز اپنائے ہوئی ہے اور سچی بات یہی ہے کہ مجھے ذاتی طور پر اس بچی کی سادگی بہت پسند ہے۔ پھر ایک بہت بڑے سردار اور نواب خاندان سے ہونے کے باجود بھی وہ جو چند بار عوام میں گئی، تو اُن سے بالکل اُنھیں کی طرح گھل مل جاتی ہے۔ تکبر اور غرور اُس میں نام کا نہیں۔ تکبر تو ایک طرف، اُس میں کوئی روایتی رکھ رکھاو یا منافقت بھی نظر نہیں آتی، بلکہ ان وہ عام عوام میں سو فی صد انکسار اور کھلے دل سے جاتی ہے۔
پتا نہیں، کیوں میرا اندازہ ہے کہ جب جماعتی کمانڈ مکمل آصفہ کے پاس آئے گی، تو کم از کم وہ ’’ہٹو بچو پروٹوکول‘‘ سے بے نیاز ہو کر عام آدمی سے رابطہ رکھے گی۔ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے ہماری نیک خواہشات اور تمنائیں اس نوجوان بچی کے ساتھ ہیں۔
جاتے جاتے آصفہ بھٹو زرداری کو یہ مشورہ ضرور دیں گے کہ وہ سیاست میں اپنے نانا کی پیروی کرے۔ سیاست برائے خدمت کرے اور پاکستان عوام کی ترقی کو اولین ترجیح دے۔ اللہ حافظ و ناصر!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔