سرزمینِ بے آئین

ہمارا صوبہ تذویراتی طور پر جس اہم خطۂ زمین پر واقع ہے، اس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال سے توجہ اور اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جمانے کے بعد یہ خطہ ان کے لیے بھی انتہائی اہم اور جاذب بن گیا۔ 1949ء میں سکھوں سے پنجاب اور اس صوبہ کے زیریں علاقے ہتھیانے کے بعد اس سامراجی طاقت کی نظریں وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں اور اس کے لیے باقاعدہ مہمات بھی شروع کی جارہی تھیں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی نے ان کا بھرم اور لایحۂ عمل بڑی حد تک متاثر کیا۔ بہرحال جنگِ آزادی کا غبار جیسے ہی بیٹھ گیا، انگریزوں نے اس صوبے کے دوسرے علاقوں میں اپنا پھیلاؤ شروع کیا، لیکن 1863ء کی جنگِ امبیلہ میں شکست خوردگی کی وجہ سے ان کا پھیلاؤ افغانستان کے علاقوں میں زیادہ مرتکز ہوگیا۔ ڈیورنڈ تصفیے کے ساتھ ہی انگریزوں نے ایک دفعہ پھر اس علاقے میں پاؤں پھلانا شروع کیے لیکن فقید المثال عوامی مزاحمت دیکھ کر انگریز اپنی حکمت عملی بدلنے پر مجبور ہوگیا اور اس حکمت عملی کا سارا نزلہ ہمارے علاقوں پر آن گرا۔ سکھوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد ہمارے صوبے کے بندوبستی علاقوں کو پنجاب کا حصہ قرار دیا گیا تھا، اور ان علاقوں میں ویسی ہی اصلاحات اور ترقی کا عمل پیش رفت کررہا تھا جیسے کہ پنجاب کے دوسرے علاقوں میں تھا۔
لیکن مندرجہ بالا واقعات کے تناظر میں 1901ء میں لارڈ کرزن نے ایک غیر معمولی اقدام کے ذریعے شمال مغربی سرحدی صوبے کی بنیاد رکھی، جس پر ہندوستان کے دوسرے صوبہ جات اور خاص کر کانگریس نے ہمہ پہلو اعترض یوں وارد کیا کہ اس صوبے کے تو سرے سے بنانے کا جواز ہی نہیں بنتا۔ نہ تو یہ اپنے اخراجات پورے کرسکتا ہے اور نہ اس کی آبادی اتنی کافی ہے کہ علیحدہ سے انتظامی اکائی تشکیل دی جائے۔ لارڈ کرزن نے اس کی انتظامی وجوہات کو رد کرتے ہوئے مرکز سے اس کے خسارے پورے کرنے کا اعلان کیا اور اس اقدام کے پیچھے تاجِ برطانیہ کے خصوصی مقاصد کی تکمیل کو وجہ قرار دیا۔ اسی تناظر میں اس کو گورنر کے زیرِ انتظام صوبہ (جو کہ بنیادی طور پر بندوبستی پیش رفت کی ترویج کا حامل ہوتا تھا) کی بجائے کمشنر کے زیرِ انتظام صوبہ (جو کہ براہِ راست وائسرائے کے احکامات کے تابع ہوتا ہے) قرار دیا۔ یوں ایک نہ ختم ہونے والا استحصالی اور طبقاتی شکار انگریزوں اور بعد ازاں حکومتِ پاکستان کے ہاتھوں لگ گیا۔ 1901ء سے لے کر 1935ء تک جتنے بھی آئینی اصلاحات اور بہبود کے پیکیجز متعارف ہوئے، ان سے اس صوبے کو محروم رکھا گیا اور یہی وجہ ہے کہ جب سائمن کمیشن کے ردعمل کے طور پر کانگریس اور مسلم لیگ نے بالترتیب نہرو رپورٹ اور قائد اعظم کے چودہ نِکات پیش کیے، تو دونوں میں اس صوبہ میں اصلاحات کا مطالبہ شامل تھا۔
محمد علی آکسن المعروف مولانا محمد علی جوہر نے اسی لیے اس کو سر زمینِ بے آئین قرار دیا اور اور مولانا ظفر علی خان نے اسی لیے اس عنوان کے تحت اس صوبے کے حقوق کے حوالے سے اداریے اور کالمز لکھے۔ علاوہ ازیں صاحبزادہ عبدالقیوم خان (یہ پاکستان بننے کے بعد کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کی بجائے صوابی سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم تھے) نے لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں انتہائی عرق ریزی و جاں فشانی سے اصلاحات کا ایجنڈا آگے بڑھایا۔ لہٰذا 1935ء کے ایکٹ میں اس صوبے کو گورنر کے زیرِ انتظام صوبے کی حیثیت دینا ہی پڑی، لیکن اس میں بھی طرفہ تماشا یہ دکھایا گیا کہ قبائیلی علاقہ جات اور آزاد ریاستوں کو خصوصی حیثیت دے کر قبائیلی علاقہ جات کو مرکز کے تحت لایا گیا، اور نام نہاد رواجی بندوبست بنامِ بدنام زمانہ ایف سی آر (Frontiers Crimes Regulation) اس علاقے کے لیے مختص کر دیا گیا۔ اب نام کو تو قانون موجود تھا، لیکن عملاً ایک غیر انسانی اور بلا روک ٹوک اختیار پولی ٹیکل ایجنٹ کو دے کر اس علاقے کو پتھر کے زمانے تک محدود رکھنے کا پورا سامان کیاگیا۔
پاکستان بننے کے بعد بھی حالات جوں کے توں رہے۔ حالاں کہ انگریزوں نے اگر یہ اقدام کیا تھا، تو اپنی سامراجی اور نوآبادیاتی ایجنڈے کی ترویج ان کے پیش نظر تھی، لیکن حقیقتاً ریاستِ پاکستان نے بھی بعینہٖ وہی انداز اختیار کیے رکھا۔ اور تو اور، جب 1969ء میں سوات، دیر، چترال اور امب کا ادغام عمل میں لایا گیا، تب بھی ان ریاستوں کے عوام کے انتہائی امن اور تعاون کے رویے کے علی الرغم ان علاقوں کے ساتھ خصوصی طور پر ’’سوتیلی ماں‘‘ جیسا سلوک کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ادغام کے حق میں جد و جہد کرنے والے زعما دو سال میں ہی مایوس ہوکر خود کو کوسنے لگے۔ پاٹا کی جداگانہ حیثیت دے کر ان سابقہ ریاستوں کو صوبائی مقننہ کے براہِ راست دائرہ اختیار کی بجائے گورنر کے تابع کردیا گیا اور یوں تذبذب، غیر یقینی اور نا انصافی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ فاٹا سے بڑھ کر پاٹا کا مقدر بن گیا۔
آج کل نئے آئینی پیکیج میں ہم فاٹا کے ادغام کے عنوان سے بہت سے وعدے وعید، پیکیجز اور رعایتیں سن رہے ہیں، لیکن اس میں پاٹا کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے، بلکہ یہاں کے لوگوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ ان کی آئینی حیثیت تبدیل ہو رہی ہے اور اس کا کیا کچھ اثر ان کے انفرادی اور اجتماعی زندگی پر پڑھنے والا ہے۔ جو کچھ پاٹا کے تناظر میں اس علاقے کے عوام نے خصوصی حیثیت کے لگان کے طور پر قیمت ادا کی ہے، اس کے جواب میں ادارہ جاتی بنیاد پر یوں ہتک آمیز رویہ اور نوچ کھانے کا طریقہ، اسلام تو بہت دور کی بات ہے، کسی بھی مہذب اکٹھ سے توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
نوٹ:۔ اس کالم کے لیے بیشتر مواد ڈاکٹر سلطانِ روم کی کتاب "North West Frontier Province” سے لیا گیا ہے، جب کہ کچھ معلومت پروفیسر خورشید خان چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری جہانزیب کالج سے لی گئی ہیں۔

………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔