رہبرانِ وطن کو وطن کے قومی مسائل کا ادراک فوری ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے قومی قیادت پاٹا کے ایشوز سے صرف لاتعلق ہی نہیں ہے بلکہ اس کی مجرمانہ خاموشی کسی انہونی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ صوبائی سیاسی پارٹیاں اس سنجیدہ مسئلے پر کوئی واضح اور مثبت سوچ رکھتی ہوں بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ الٹا اس نازک اور حساس مسئلہ کو سیاست زدہ کردیا گیا ہے۔ سیاسی پارٹیاں مبہم اور تذبذب کا شکار ہیں۔ اس دعویٰ کے ثبوت کے لئے ہم آج کی نشست میں جائزہ لیں گے اور ثابت کریں گے کہ اس گومگوں کی کیفیت کا ذمہ دار کون ہے؟
ہمارے صوبے میں مرکزی اور نیشنلسٹ پارٹیوں کے علاوہ مذہبی پارٹیاں صوبائی سیاست میں فعال کردار ادا کرتی چلی آئی ہیں۔ یاد رہے دوسرے صوبے میں اکا دکا سیٹ لینے کا یہاں پر سوال نہیں ہے۔ اس موجودہ صورتحال میں پارٹیوں کی پاٹا کی تقسیم کے متعلق متضاد آرا ہیں اور ہر کوئی اپنے حق کے بارے میں دلائل کے انبار لگا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی کہتا ہے کہ پاٹا کے عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے ریفرنڈم ہونا چاہئے۔ کوئی بلوچستان اور پاٹا پختون خوا کو دو صوبوں میں تقسیم کرنے کا خواہاں ہے اور پاٹا کی پختون آبادی کو جنوبی پختونخوا کے پختونوں کے ساتھ یعنی پاٹا کو ساتھ ملاکر الگ صوبہ بنانے کا خواہاں ہے۔اس طرح بعض سیاسی پارٹیاں یہ کہتی ہیں کہ پاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جانا چاہئے اورکوئی یہ کہتا ہے کہ پاٹا کو الگ صوبہ بنانا چاہئے۔ یاد رہے دو قومی پارٹیاں انضمام کے حق میں اور دو پارٹیوں کا جواب نفی میں ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ وہاں پاکستان کے باقاعدہ قوانین لاگو کرنے چاہئیں۔ ایف سی آر کا کالا قانون اور ’’جرگہ لاز‘‘ کو ختم کیا جانا چاہئے۔ بعض افراد انتہائی حد تک جاتے ہوئے یہ بھی کہنے میں عار محسوس نہیں کر رہے کہ اگر حکومت پاٹا کو کوئی جداگانہ سٹیٹس نہیں دیتی، تو پھر ہمیں جداگانہ ریاست بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کوئی پاٹا ریفارمز بل پر بات کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، تو کوئی انضمام اور ریفرنڈم کوہی بہتر تصور کرتا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے علاوہ یوتھ جرگہ میں سیاسی اور غیر سیاسی نوجوان پاٹا کے عوام کی آواز اٹھاتے ہوئے اپنے منصوبوں پر مصر ہیں۔ آخر اتنی گھمبیر صورتحال میں کسی نتیجے پر پہنچنا کیسے ممکن ہے؟ کس کے دعویٰ میں کتنا دم ہے، یہ تو وقت ہی صحیح بتا سکتا ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں ریاست میں مختلف قوانین لاگو کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں الگ قانون اور صوبوں کا الگ بنایا گیا ہے، لیکن یہاں وضاحت کرنا ضروری ہے کہ قانون، عوام کی خواہش کے پیشِ نظر بنانا ہوتا ہے۔اس طرح کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا کہ قانون عوام کی خواہشات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایجنسیوں میں پے درپے آپریشن کی وجہ سے انفراسٹرکچر، سکول، کالجز، ہسپتال الغرض نظامِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ اب علاقے کے عوام میں صبر کرنے کی سکت باقی نہیں ہے۔ وہ اپنی جائیدادیں، عورتیں اور عوام جو کہ اب تک شہید ہوئے ہیں اوردیگر شہدا کو اٹھانا اور برداشت نہیں کرسکتے۔
قارئین، زیرِ نظر مسئلہ کے متعلق جائزہ لینے کے لئے ہمیں برٹش انڈیا کے دور میں جھانکنا ہوگا اور بعد ازاں موجودہ صورتحال کے پیش منظر میں اسے دیکھنا ہوگا۔

ایجنسیوں میں پے درپے آپریشن کی وجہ سے انفراسٹرکچر، سکول، کالجز، ہسپتال الغرض نظامِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ (Photo: Aaj News)

برٹش انڈیا نے ’’ایف سی آر‘‘ اور جرگہ قوانین کو علاقے کے مخصوص پس منظر کو دیکھتے ہوئے بنایا تھا۔ البتہ روس،کمیونسٹ بلاک سے نبرد آزما ہونے کے لئے بفر زون قائم رکھنے کی خاطر فرنگیوں کے مستقبل کے پیش نظر اپنے دیرینہ مقاصد تھے۔ پاٹا کو ان حالات میں آزادی کے بعد بھی اس طرح پسماندہ چھوڑنا بھی انہی پالیسیوں کا تسلسل تھا۔ ترقیاتی علاقوں کی بہ نسبت پسماندہ علاقوں کو استعمال کرنا آسان ہوتا ہے۔ پاٹا کے علاوہ فاٹا قبائل میں دیر، شانگلہ، کوہستان، ملاکنڈ، چترال اور سوات کے اضلاع شامل تھے، لیکن ان اضلاع میں نیم خود مختار ریاستیں موجود تھیں۔ مثال کے طور پر ریاستِ سوات ہی کو لے لیجئے جو انگریز کے گرانٹ اور اپنے وسائل سے مالا مال تھا۔ ریاستِ سوات میں محکمۂ قضا، محکمۂ تعلیم، محکمۂ صحت وغیرہ کے علاوہ جدید انفراسٹرکچر بنایا گیا تھا۔ اور دوسرے اضلاع کی بہ نسبت یہاں کافی شافی سہولیات اور بہتر طرزِ زندگی کا موزانہ دوسرے فاٹا اور پاٹا کے علاقوں سے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس طرح دیگر علاقوں جیسے دیر اورچترال میں بھی ریاستیں موجود تھیں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ایف سی آر اور دوسرے قوانین کا خاتمہ تو کلی طور پر نہیں کیا جاسکتا لیکن بہرحال یہاں پر ریگولر لاز کو لاگو کرکے سوات اور مذکورہ اضلاع سے ایف سی آر کا خاتمہ بوجہ متذکرہ حالات کیا گیا ہے۔ پاٹا کے مستقل کے حوالے سے ڈیورنڈ لائن اور ریاست کی مبہم پالیسی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ دور کے واقعات نے اس مقصد کو مزید تیز کیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے متعلق افغانستان کے حکمرانوں کے بیانات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں، سادہ سی بات ہے کہ وہ پاٹا، فاٹا اور خیبر پختونخوا کو اپنا حصہ مانتے چلے آرہے ہیں۔ ان حالات میں خیبر پختونخوا کے حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کا کیا مؤقف ہے؟ وہ آپ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ یہاں پر اس کا تذکرہ کرنا بے کار ہے۔ البتہ معروضی حالات اس کے شاہد ہیں کہ ایک یا دو پارٹیوں کے علاوہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے سے گریزاں ہے اور سب اس کو افغانستان کا حصہ مانتے ہیں۔
پاٹا میں جرگوں کے بااثر لوگوں کا کردار کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ عورت کی زندگی کو مشکل بنا دیا گیا ہے اوراس کو زندگی کی بنیادی حقوق سے محروم ہی رکھا گیا ہے۔ عورت ذات کو اپنی زندگی پر علاقائی قوانین اور روایات کے تناظر میں کمپرومائز کرنا ہوتا ہے۔ انضمام کی صورت میں پاٹا کے بعض بااثر لوگوں کے مفادات متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ پارلیمنٹ میں عورتوں کی نمائندگی کے لئے ریزرو سیٹس نہیں ملتیں۔ اس طرح عورتوں کو پرائمری لیول تک ایجوکیشن ملتی ہے۔ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ وہاں پر ہائی کورٹ یاسپریم کورٹ بینچز لائے جائیں اور باقی ان کو کوئی سہولیات اور فنڈ نہ ملیں۔ ستر سال میں ایجوکیشن اور ہیلتھ کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی اور نہ ہی کوئی ایک جامع یونیورسٹی بنائی گئی ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ جس کسی نے بھی پاٹا کے لئے پہلے آواز اٹھائی، تو پاٹا عوام اس کے شکر گزار اور احسان مند ہوں گے۔ چاہے ان کی صورت متذکرہ جیسی ہی کیوں نہ ہو۔ خاص کر نیشنلسٹ سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے اپنے علاقے کے سینیٹر اور ایم پی اے کے تعاون کی یقین دہانی کرائی جانی چاہئے۔ اس حوالہ سے اے پی سی کا بلایا جانا اور مسئلہ پر اتفاق رائے قائم کرنا ازحد ضروری ہے۔
حکومت پاٹا کے حال پر رحم کھاتے ہوئے درج ذیل گزارشات کو درخور اعتنا سمجھتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرے، تو اس سے علاقے کے عوام میں پھیلی بے چینی کا مداوا کیا جاسکتا ہے ۔
٭ حکومت سے بھر پور طور پر التجا کی جاتی ہے کہ وہ فی الفور ایجنسیوں میں جاری شورشوں کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے اور امن و امان بحال کرتے ہوئے انفراسٹرکچر بحال کرنے کی تگ و دو کرے۔
٭حکومت سے ڈیمانڈ ہے کہ ایک ارب بیس کروڑ روپے این ایف سی ایوارڈ میں ڈالے جائیں اور جو بھی باقی ماندہ رقومات ہیں، وہ فی الفور دی جائیں۔
٭تیئس ایم پی اے اور ایم این اے کی سیٹیں یقینی بنائی جائیں۔
٭پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹس کے بینچ لائے جائیں۔ پشاور ہائی کورٹ سے کیس اور بینچ ٹرانسفر کرکے لائے جائیں۔
٭مجوزہ پاٹا ریفارمز پر قومی سیاسی پاٹیوں کے ا تفاق رائے کے لئے نیا لائحہ عمل طے کیا جائے اور اس پرعمل کو تیز تر کر دیا جائے۔
٭پاٹا کے عوام میں تعلیم اور امن کے متعلق شعور و آگاہی پھیلانا چاہیے ۔ یہاں جدید تعلیمی ادارے، یونیورسٹیز کی داغ بیل ڈالنی چاہئے۔ بجلی کی ترسیل یقینی بنانی چاہئے، جب بجلی نہیں ہوتی تو پانی بھی نہیں ہوتا۔ جو چیزیں جنگ اور آپریشن میں تباہ ہوئی ہیں، ان کو از سر نو تعمیر کیا جانا چاہئے۔ ہائیر ایجوکیشن کے لئے جدید جامع یونیورسٹیز، سکولز اور کالجز کا جال بچھایا جانا چاہئے۔
٭بحالی عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ انفراسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرے۔ ترقیاتی کاموں جیسے روڈوں میں کرپشن زورپر ہے، اس لئے چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیاجائے۔
٭لوگوں کو سالانہ بنیاد پر امداد اور کسانوں اور دکانداروں کو بھی معاوضے دئیے جائیں۔ کارخانے لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور قرضے دئیے جائیں۔
٭حکومتی سرکردگی میں انڈسٹرئل زون بنائے جائیں۔ جن آئی ڈی پیز کو امداد کے پیسے اب تک نہیں ملے اور یا ان کو ہڑپ کیا گیا ہے، کو فوری امداد دی جائے۔
٭پاٹا کی آبادی ایک کروڑ سے متجاوزہے اور اس کو حالیہ مردم شماری میں کم دکھایا گیا ہے۔ اس لئے صحیح تعین کے لئے دوبارہ مردم شماری کرائی جائے۔ نئے ہسپتال اور ایمرجنسی یونٹ بنائے جائیں۔ کیونکہ پاٹا میں مریضوں کیلئے کوئی ایمرجنسی کی تسلی بخش سہولت موجود نہیں ہے۔
٭سوات آپریشن تین مہینوں میں مکمل ہوا۔ اس طرح فاٹا میں آپریشن جو کہ اب تک جاری ہے، کو ختم کیا جانا چاہئے۔
٭فاٹا سیکرٹریٹ میں بغرض ترقی جو ترقیاتی فنڈ آتے ہیں، ان کا حساب کتاب نہیں ہوتا اور اس میں خورد برد ہوتی ہے۔ اس پر کمیشن بنائی جائے۔
٭فاٹا ریفارم ایکٹ کو پارلیمنٹ سے پاس کرکے پسماندہ پاٹا علاقوں کو ترقیاتی علاقوں کے برابر لانا چاہئے۔
٭رواج ایکٹ کی جو شقیں آئین پاکستان سے متصادم ہیں، ان کو خارج کرکے اسکو لاگو کیا جائے۔
٭پارٹیوں کو پاٹا میں سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ وہاں پر سیاسی سرگرمیوں کے لئے محفوظ ماحول بنایا جائے۔

…………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔