ماضیِ قریب کی ہی بات ہے کہ پاکستان نازک دور سے گر رہا تھا، لیکن اب مزاحیہ دور سے گزر رہا ہے۔ نئی آنے والی حکومت نے پہلے ہفتے میں ہی جو شگوفے چھوڑے ہیں، اس سے اپوزیشن کا کام کافی آسان ہوگیا ہے۔ کیوں کہ حکومت خود اپنے لیے اپوزیشن ثابت ہو رہی ہے۔ الیکشن کے دوران اور بعد میں بہت سی نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ مثلاً ماضی کے انتخابات کے بعد کوئی پارٹی ایک آدھ حلقے میں دھاندلی کا الزام لگاتی تھی، لیکن اس الیکشن سے پہلے قومی اخباروں سے لے کر بین الااقوامی جریدوں تک سب لکھ رہے تھے کہ یہ الیکشن کے نام پر ’’سلیکشن‘‘ ہونے جارہا ہے۔
انتخابات کے بعد تبدیلی نے زور و شور سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو اسپیکر بنا دیا۔ وفاقی کابینہ میں سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ شوکت عزیز کی بجائے عمران وزیراعظم کے منصب پر بیٹھے ہیں، ورنہ وزرا تو تقریباً سب کے سب مشرف یا زرداری ادوار سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم پنجاب کے عوام سے کیا گیا کہ وہاں پر چھے افراد کے قاتل انتظامی امور سے ایک نابلد شخص کو وزارتِ اعلیٰ دے دی گئی جو سرکاری جہازوں، بنگلوں اور گاڑیوں پر کسی نادیدہ بندے کی طرح ٹوٹ پڑا ہے۔ چار پانچ دن پہلے وہ اپنے سسر اور ایک دوست سے ملنے دو ہیلی کاپٹروں اور اٹھارہ گاڑیوں کے قافلے میں پہنچ گئے اور پروٹوکول کی نتیجے میں ایک بچی بھی جان سے گئی۔ لیکن خیر اَب نئے پاکستان میں پروٹوکول کو تبدیل کرکے اس کا نام "سیکورٹی” رکھا گیا ہے۔ اور وزیر اعظم صاحب پچپن روپے فی کلومیٹر کے حساب سے ہیلی کاپٹر اڑاتے پھرتے ہیں۔ سائیکل کا دعویدار اب ہیلی کاپٹر سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
تبدیلی چلتے چلتے جب اخلاقیات پر پہنچ گئی، تو پارٹی میں سب سے بدزبان فیاض چوہان اور فواد چوہدری کو وزیر جب کہ عامر لیاقت کو ایم این اے بنا دیا گیا۔ سوشل میڈیا گالی بریگیڈ بھی تبدیل نظر آ رہا ہے۔ کیوں کہ پہلے وہ تنقید برائے تنقید کرتے تھے، لیکن اب ناقدین کو دھمکیاں اور زدوکوب کرنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور ایسے ہی ملک کے ایک نامور اور بے باک صحافی سلیم صافی کو دو ہفتوں تک ایک مصدقہ رپورٹ پر گالیاں بکی گئیں۔

مراد سعید دو سو ارب ڈالر سمیت الیکشن کے بعد لاپتا ہو چکے ہیں.

تبدیلی دعوؤں سے جب حقیقت پر منتج ہوئی، تو مراد سعید دو سو ارب ڈالر سمیت الیکشن کے بعد لاپتا ہو چکے ہیں جب کہ چائنیز اسٹیو جابز پہلے آئی ایم ایف کو آڑے ہاتھوں لیتے، لیکن اب وہ خود آئی ایم ایف کی طرف کوچ فرما رہے ہیں۔ اور اسی طرح روزانہ تیل کی قیمتوں پر تنقید کرنے والا کہ حکومت ہر لیٹر میں تیس پینتیس روپے کماتی ہے، اب خود قیمتوں کو کم نہیں کر رہا۔ کھاد کو دو سو سے لیکر آٹھ سو روپے مہنگا کیا جا چکا ہے اور موصوف جب اینگرو کے ’’سی ای اُو‘‘ تھے، تب اس نے اسّی فیصد قیمتوں کا اضافہ کرکے کمپنی کو تین ارب کا جرمانہ کروایا تھا جس پر اسد عمر صاحب کو کمپنی سے نکالا بھی گیا تھا۔ گیس کی قیمتیں 25 روپے فی کلو زیادہ ہوچکی ہیں اور گردشی قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے لیے مزید مہنگائی کے بم گرائے جائیں گے۔
وزارت خارجہ بھی تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اب تک ہمیں دو ممالک بھارت اور امریکہ کے معاملے میں جھوٹ بول کر واپس لینا پڑا، اور شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ کم اور وزیر وضاحت زیادہ لگ رہے ہیں۔ شیخ رشید تو چلو پرانے پاکستان کا وزیر ہے، لیکن نئے پاکستان میں وہ آفیسرز کو گالیاں دینے پر اتر آیا ہے جب کہ مردِ اوّل ’’خاور مانیکا‘‘ کے حکم پر اور خاتونِ اوّل کی مداخلت سے بزدار صاحب ڈی پی او کو تبدیل اور معطل کیا جاچکا ہے۔ اور تو اور ’’ایف اے پاس‘‘ گورنر نے تو ’’تبدیلی آئے رے‘‘ کا گانا بھی راجھستانی گانے سے کاپی کرکے دیا۔ اس سارے عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام ایک بار پھر دھوکا کھا چکے ہیں اور جو امیدیں انہوں نے موجودہ حکومت سے لگائی ہیں، اس سے الٹ سمت میں حکومت جارہی ہے۔ بقول فیضؔ
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جسکا، یہ وہ سحر تو نہیں
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔