تحفظ شہریوں کا نہیں، ریاستی اداروں کا فرض ہے

پچھلے ہفتے رات کے دس بجے جیسے ہی بجلی آئی، ایک سٹوری فائل کرنے بیٹھ گیا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ عموماً گھر کے چھوٹے بچے دروازے کی طرف لپکتے ہیں اور نووارد کی مدعا جان کر اسے اپنے الفاظ میں ہم تک پہنچاتے ہیں۔ رات ہوچکی تھی۔ بچے گہری نیند سو رہے تھے، اس لیے ہماری والدہ ماجدہ نے دروازے پر آئے ہوئے محلے دار کے حوالہ سے بتایا کہ اسے مجھ سے کوئی کام ہے۔ میں اٹھا، قمیص پہنی اور گھر سے نکل آیا۔ باہر آکر پتا چلا کہ چند معززینِ علاقہ اس مسئلہ کے بارے میں جمع ہیں کہ راتوں کو گھروں پر دستک دی جاتی ہے اور پتھر پھینکے جاتے ہیں۔ میرے لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی اور ان کے ساتھ پولیس چوکی تک ہولیا۔ جہاں چوکی کے انچارج نے ہمیں سننے کے بعد اپنا دکھڑا سنایا۔ ان کا دکھڑا کسی اور نشست پر رکھ چھوڑتے ہیں، سرِ دست اپنا دکھڑا بیان کر دیتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات ’’کوٹ‘‘ کرنے لائق ہے کہ پچھلی صبح میرے ایک رفیق کار جن کا گھر گلی باغ میں ہے، نے بھی مجھے اس سے ملتی جلتی کتھا سنائی۔ دونوں موقعوں پر جو بتایا گیا ہے، اس کا لب لباب کچھ یوں ہے: ’’اگر ہمیں پتا چلے کہ رات گئے راستے میں بھاری قدموں کی آواز ہے، کھسر پھسر ہو رہی ہے، کسی دروازہ پر دستک ہو رہی ہے یا پھر کوئی آپ کے گھر میں پتھر پھینک دے، تو آپ مقامی تھانہ یا فوجی یونٹ کو فون کریں۔ آپ نے کسی کو گولی نہیں مارنی، ہاں! اگر پتھر پھینکنے یا گھر کی دیوار پھلانگنے والے کو زندہ پکڑا جائے، تو اس سے بہتر بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔‘‘
پولیس چوکی سے واپس آتے وقت معززین علاقہ شش و پنج کا شکار تھے۔ میں نے انہیں اپنی ایک پرانی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیر و مرشد نے ایک دفعہ کسی پروفیسر صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے ایک فکر انگیز واقعہ سنایا تھا۔ واقعہ کچھ یوں تھا (چوں کہ میں یہ واقعہ ایک بار پہلے اپنی ایک تحریر کی زینت بنا چکا ہوں، اس لیے کہانی کا تانا بانا بُنتے اگر اک آدھ جملہ یا سچویشن آگے پیچھے ہوجائے، یا زیب داستاں کے لیے منظر نگاری میں کمی یا بیشی واقع ہو، تو پیشگی معذرت خواہ ہوں)
’’کہتے ہیں کہ ایک بہت ہی شریف النفس پروفیسر کے گھر رات کو ایک چور دیوار پھلانگ کر داخل ہوا۔ پروفیسر صاحب کی آنکھ کھلی، تو چور پستول تانے اس کی سر پر کھڑا تھا۔ پروفیسر صاحب نے آنکھیں مَلیں، چشمہ اٹھایا اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چور کو بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی۔ چور نے بیٹھنے سے انکار کر دیا اور درشت لہجے میں کہا کہ گھر میں جو کچھ ہے، اسے میرے حوالہ کرو۔ پروفیسر صاحب نے چار و ناچار اثبات میں سر ہلایا اور ٹھیک دس منٹ بعد اپنی بچیوں اور مال و متاع کے ساتھ چور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گھر میں جتنی نقد رقم، سونے چاندی کے زیورات اور دیگر قیمتی اشیا تھیں، وہ لاکر چور کے قدموں میں ڈھیر کر دیں اور خود اہلیہ اور بچیوں سمیت چور کے سامنے دست بستہ کھڑا ہوا۔ چور نے ڈھیر کا جائزہ لیا اور مطمئن ہوکر اسے ایک گٹھڑی میں باندھنے لگا۔ اسی اثنا میں چور نے پروفیسر صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ بھئی، یا تو آپ انتہائی بزدل قسم کے آدمی ہیں یا پھر خدا ترس۔ جواباً حمزہ بابا کے اس شعر کے مصداق پروفیسر صاحب کے لبوں پر مسکراہٹ نے ڈیرا جما لیا کہ
د ڈیرہ سوختہ پہ خندا شوی حمزہؔ
دا دویم رنگ دی د ژڑا پیژنم
اور بنا ایک لمحہ ضائع کیے کہا کہ بزدل ہوں اور نہ خدا ترس، بس پوری زندگی اس بھرم میں گزارنے کی کوشش کی کہ کوئی غیر میرے گھر کی دہلیزپار نہ کرے۔ اب جب آپ نے میرے گھر کے تقدس کو پامال کر ہی دیا، تو اس کے بعد میرے جان و مال اور اہل و عیال کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی، اس لیے مع اہل وعیال، میری جان بھی حاضر اور مال تو آپ کے قدموں ہی میں پڑا ہے۔‘‘

اتنی پولیس، سپیشل فورس، ایف سی، درجن بھر سیکورٹی ایجنسیز اور پتا نہیں کون کون اس قوم کے تحفظ کے نام پر ’’سرگرمِ عمل‘‘ ہے، مگر پھر بھی رات کو چوکیداری کا کام ہمیں سونپا جاتا ہے۔

قارئین کرام! ہم سفید پوشوں کے پاس صرف عزت باقی رہ گئی ہے۔ پورے ملک کا نظام ہماری جیب سے چلتا ہے۔ خزانہ ہم مختلف ٹیکسوں کی مد میں بھرتے ہیں اور اس کے اوپر ایک تنخواہ دار ملازم وردی میں ملبوس ہوکر پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھ بیٹھتا ہے۔ مجھے بتایا جائے کہ مہذب اقوام میں کس ملک کے عوام دن کو محنت مزدوری کرتے ہیں اور رات کو اپنے گھروں کی چوکیداری کرتے ہیں؟
اگر میں غلطی پر ہوں، تو خدارا! میری اصلاح کی جائے۔ میرا تو کلیجہ منھ کو آتا ہے کہ وزیر اعظم سے لے کر ایک چھوٹا چپڑاسی تک اسی خزانے سے تنخواہ لیتا ہے، جسے ہم عوام خون پسینے کی کمائی سے ان گنت ٹیکسوں کی شکل میں بھرتے ہیں اور وہی تنخواہ دار الٹا ہمیں اپنے معاون کے طور پر کام کرنے کے احکامات بھی صادر ’’فرماتے‘‘ ہیں۔
بخدا، ہمارے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اتنی پولیس، سپیشل فورس، ایف سی، درجن بھر سیکورٹی ایجنسیز اور پتا نہیں کون کون اس قوم کے تحفظ کے نام پر ’’سرگرمِ عمل‘‘ ہے، مگر پھر بھی رات کو چوکیداری کا کام ہمیں سونپا جاتا ہے۔
ارے خدا کے بندو! جب دن بھر محنت مزدوری کرتے ہوئے پندرہ سولہ گھنٹے میں رزق کے حصول کی خاطر مارا مارا پھروں، اور رات کو بندوق لے کر چوکیداری کرتا پھروں، تو پھر آپ لوگ کس مرض کی دوا ہیں؟ آپ اپنا کام کیجیے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔
قارئین کرام! مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ اس پورے ملک کا نظام مجھ جیسا عام آدمی چلا رہا ہے۔ بجلی کی مد ہم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، گاڑی میں پٹرول ڈالتے وقت ہم ٹیکس ادا کرتے ہیں،ٹیلی فون کا بل چیک کیجیے اس میں اضافی پیسے ہم دیتے ہیں، ہمارے بچے جب ایک چھوٹا سا ’’لولی پاپ‘‘ یا ’’ بسکٹ‘‘ کھاتے ہیں، چیک کیجیے کہ پَر پیس کتنا ٹیکس کٹتا ہے؟ ہم نہیں پوچھیں گے، تو کون پوچھے گا؟
خدا ئے لم یزل خود بڑی غیرت والی ذات ہے اور غیرت مند لوگوں کو پسند فرماتا ہے۔ ہمیں بولنا ہوگا کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے۔‘‘ میرا کام اپنے خاندان کا پیٹ پالنا، دن رات ایک کرکے ملکی خزانہ بھرنا ہے اور تنخواہ دار ملازموں کا کام تنخواہ لینا اور اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ میں کوئی ادق افریقی زبان نہیں بول رہا، میرا مؤقف یہ ہے کہ قوم کے خادم اپنا کام کریں، حاکم بن کر قوم کو دق کرنے کی کوشش نہ کریں۔
جاتے جاتے پولیس کے اعلیٰ افسران اور بطورِ خاص ڈویژنل پولیس آفیسر صاحب کی خدمت میں ایک عرض کرتا چلوں کہ صاحب، ہم سفید پوش لوگ ہیں۔ ہم بھی تحریر میں ذکر شدہ پروفیسر صاحب کی طرح ہیں۔ ہمارے پاس عزت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر آپ صاحبان ہمیں تحفظ نہیں دے سکتے، تو ہم سے یہ حق بھی نہ چھینیں کہ ہمارے گھر پتھر پھینکنے والا، ہمیں ہراساں کرنے والا یا ہمارے گھر کی دیوار پھلانگنے والازندہ واپس ہو۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔