سچ اور جھوٹ کا فرق معمولی مگر بہت پُراثر ہوتا ہے۔ پراپیگنڈا جو عموماً جھوٹ کی تشہیر کے لیے کیا جاتا ہے، وہ اثرات دکھاتا ہے، جو بعد مدتوں دل و دماغ پر نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ اگرچہ پراپیگنڈا صرف منفی اور جھوٹ کی ترویج کے لیے نہیں کیا جاتا، بل کہ ’’وائٹ پراپیگنڈا‘‘ بھی کیاجاتا ہے، جس کا مقصد سچ کو پھیلانا ہوتا ہے…… مگر آج تک دنیا میں اکثر و بیش تر جھوٹ کے پھیلاو کے لیے ’’بلیک پراپیگنڈا‘‘ ہی کیا گیا ہے۔
یہاں وہ بات نہیں دہرائی جائے گی کہ جرمن آمر ہٹلر کے وزیرِ پراپیگنڈا گوئبل نے کس طرح ’’بلیک پراپیگنڈا‘‘ کا سہارا لے کر ’’ہٹلری ظلم‘‘ کے لیے میدان ہم وار کیا تھا۔ کیوں کہ ماضیِ قریب میں بھی ڈھیر سارے واقعات ایسے ہوئے ہیں جب میڈیائی پراپیگنڈے کے ذریعے قتل و غارت کے بہانے تلاش کیے گئے۔ ملکوں کو تہِ تیغ کیا گیا اور ظلم و زیادتی کی کہانیاں رقم ہوئیں۔
دور جانے کی ضرورت نہیں امریکہ-عراق جنگ ابھی ابھی گزری ہے۔ اس جنگ کو شروع کرنے کے لیے ایک مفروضہ یہ بھی گڑا گیا تھا کہ عراق میں "WMDs" یعنی بڑی تباہی کے ہتھیار موجود ہیں۔ اشارہ جوہری ہتھیاروں کی طرف تھا۔ اس مفروضے کی خوب تشہیر کی گئی۔ اتنا پراپیگنڈا کیا گیا کہ مغرب کے حکم رانوں نے امریکی جھوٹ پر یقین کیا۔ نتیجتاً عراق پر حملہ کیا گیا۔ لاکھوں لقمۂ اجل بنے اور کروڑوں ذہنی، جسمانی اور معاشی آزمایشوں سے تاحال گزر رہے ہیں۔ اب کئی سال گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ امریکہ کا دعوا غلط تھا اور یہ حملہ صرف منفی پراپیگنڈے کا نتیجہ تھا…… مگر وہ دن اور آج کا دن سال ہا سال گزر گئے، لیکن عراق کو امن اور ترقی نصیب نہ ہوسکی۔
پھر داعش جیس تنظیم بنائی گئی اور اس تنظیم کی مکروہ کاررائیوں کا پراپیگنڈا اس شان سے کیا گیا کہ اب دنیا بھر میں وحشت کا دوسرا نام ’’داعش‘‘ ہی ہے۔ حالاں کہ امریکی سرپرستی میں لڑی جانے والی مختلف جنگوں میں جتنے لوگ مرے ہیں، اُن کا عُشرِ عشیر بھی اب تک داعشی ظلم کا نشانہ نہیں بنا، مگر پراپیگنڈا تو پھر پراپیگنڈا ہی ہے۔
پراپیگنڈے کو آج کل سوشل میڈیا کے پَر بھی میسر آئے ہیں۔ بس کہیں سے کوئی بھی بات سن لو، تحقیق اور تصدیق کیے بغیر اُسے آگے پھیلاؤ۔ پھر چاہے آگ لگے، انسان آگ کا ایندھن بنے، کاروبار رُکے یا کچھ اور ہوجائے…… آپ آرام سے بیٹھ جائیں اور تماشا دیکھتے جائیں۔ یہ پراپیگنڈے کی جدید شکل ہے، جو انتہائی موثر ہے۔
کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’نائن الیون‘‘ کے بعد امریکہ نے یہی راستہ اپنایا ہے اور پراپیگنڈے کے ذریعے ملکوں کے جغرافیے اور تہذیبوں کو تبدیل کرنا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ تاکہ بدامنی کا چلن عام ہو اور عدم تحفظ کے مارے ممالک امریکی فوجی امداد اور اسلحہ خریداری کے لیے اپنی عزت اور پیسا دونوں امریکی قدموں میں رکھیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ہی امریکی شہ پر پراپیگنڈے کا ذریعے ہو رہا ہے، مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ مختلف ممالک میں موجود مسائل کا جب بروقت ادراک اور تدارک نہیں کیا جاتا، تو مقامی آبادی میں مایوسی بڑھتی ہے۔ اس مایوسی کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جائے، تو پھر اللہ بچائے۔ اسی پراپیگنڈے کا موثر اثر ’’عرب بہار‘‘ کی صورت میں مشرقِ وسطیٰ میں سامنے آیا تھا، جب مصر، یمن، بحرین، لبنان اور شام میں خلف شار کو شہ دی گئی تھی۔
قارئین! اپنے ہاں نظر دوڑائیں، تو بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ’’پراپیگنڈائی اثرات‘‘ نے ذہنوں کو قبضہ کیا ہوا ہے۔ بس کسی خبر کی سوشل میڈیا پر چلنے کی دیر ہوتی ہے اور پھر انتشار کے وہ مناظر سامنے آتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
کتنے کیس ایسے سامنے آئے جب کسی پر توہین کا جھوٹا الزام لگایا گیا اور آنا فاناً ملزم کو خود پولیس بن کر، خود عدالت بن کر ’’انصاف‘‘ کی نذر کرتے ہوئے جلایا گیا۔ ایسے بے شمار واقعات ہوئے جو کالے داغ کی مانند معاشرتی دامن پر لگ چکے ہیں۔ یہ داغ میڈیائی پراپیگنڈے ہی کے اثرات و ثمرات ہیں۔
سوشل میڈیا میں پیسے کمانے کے لیے سنسنی خیزی کا کاروبار چوں کہ عروج پر ہے۔ اس لیے ہر کوئی پراپیگنڈے کا سہارا لے کر اپنا اُلّو سیدھا کررہا ہوتا ہے۔
یہ جو آج کل پنجاب میں کسی بنتِ حوا کی آبروریزی کے واقعے کو اچھالا جارہا ہے اور پراپیگنڈا کرکے طلبہ وطالبات کو احتجاج پر مجبور کیا جارہا ہے، کسی کو اندازہ ہے کہ اگر یہ طریقۂ واردات کام یاب ہوگیا، تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
انجام یہی ہوگا کہ بس کوئی بھی پراپیگنڈا کرو اور لوگ مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکلیں۔ کیا یہ کوئی مناسب طریقہ ہے، کیا یہی مسائل کا حل ہے؟
’’منفی پراپیگنڈے‘‘ کا توڑ ’’مثبت پراپیگنڈا‘‘ اور سچ کی بروقت ترویج وتشہیر ہے۔ کیا حکومتی سطح پر اس کے انتظامات پورے ہیں؟ بس اسی کی مدد سے معاشرے اور نظام کوسنبھالا جاسکتا ہے اور کوئی حل بہ ظاہر دکھائی نہیں دے رہا۔
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔