پاکستان کا شمار ان چند بدقسمت ریاستوں میں کیا جاسکتا ہے, جو اپنے وجود میں آنے کے بعد ہی سے محلاتی سازشوں کا شکار رہی۔ سول اور خاکی بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ منصفوں نے ریاست کی بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پاکستان کی حقیقی سیاسی لیڈر شپ کو منظرِ ِعام سے ہٹانے کے لیے نت نئے طور طریقے اپنائے اور آزمائے گئے۔ حقیقی عوامی سیاسی لیڈرشپ کو مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے سے روکنے اور ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ کبھی بہ راہِ راست ’‘مارشل لا‘‘ کا نفاذ، تو کبھی ایوانِ عدل میں بیٹھے نام نہاد منصفوں کے ذریعے جوازِ اقتدار حاصل کیا گیا…… مگر جمہوریت کی آب یاری کے لیے سیاسی لیڈرشپ نے پھانسی، جَلا وطنی اور قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔
غیر آئینی غاصبوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آئینِ پاکستان کا حُلیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی لیڈرشپ نے ہرمرتبہ آئینِ پاکستان کو اس کی اصل حالت میں لانے کے لیے تگ و دو جاری رکھی۔
آمرضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آئینِ پاکستان میں شامل کی گئی متعدد غلاظتوں کو 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاک کیا گیا۔
پرویزمشرف کے بعد بہ ظاہر آمروں کی آمد کا سلسلہ رُک چکا، مگر پسِ پردہ نادیدہ قوتوں کے ایما پر جمہوری حکومتوں پر شب خون مارنے کی ذمے داری ہماری عدلیہ میں بیٹھے منصفوں نے لے لی۔ کبھی یوسف رضا گیلانی کو سوس بینکوں کو خط نہ لکھنے کے جرم میں، تو کبھی میاں محمد نواز شریف کو اپنے بیٹے سے وصول نہ کردہ تنخواہ کی بنا پر مسندِ اقتدار سے ہٹانے کے لیے ’’بابے رحمتوں‘‘ نے اپنی خصوصی خدمات پیش کیں۔
پرویز مشرف کے بعد جوڈیشل ایکٹوزم اور استحصال اپنے عروج پر پہنچ چکا۔ عدالتی فیصلوں میں آئینی و قانونی حوالات کی بہ جائے غیر ملکی مصنفوں کے ناولوں کے تذکرے کرنا، آمروں کے ادوار میں چُپ کا روزہ رکھ کر آمروں کے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کو جواز بخشنے والے بابے رحمتے جمہوری ادوار میں عوامی نمایندوں کے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف ننگی تلواریں نکال لیتے ہیں۔ جمہوریت پسند سیاسی لیڈرشپ کو ذلیل و خوار کرنا، مگر دوسری جانب اپنی من پسند سیاسی لیڈرشپ کو عدالت میں ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ (Good to see you) کہتے وقت کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرنا۔
من مرضی آئینی تشریحات کرنا بابے رحمتوں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا۔ اپنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ جماعت کے لیے آرٹیکل 63-A کی مختلف تشریحات کرنا۔ کبھی ڈیم فنڈ کے نام پر پاکستانی قوم کو بے وقوف بنانا، تو کبھی ہسپتالوں میں چھاپے مار کر ڈاکٹروں کی تنخواہوں اور کارکردگی کے بارے میں پوچھنا۔ عدالتی اُمور چھوڑ کر انتظامی اُمور میں دخل اندازی کو معیوب نہ سمجھنا۔ ناک کے نیچے ہونے والی کرپشن سے آنکھیں چُراکر حکومتی عہدے داروں کوکٹہرے میں کھڑا کرنا عام سی بات ہے۔
اعلا و ماتحت عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں، مگر بابے رحمتوں کو دوسرے محکموں کی کارکردگی کو جانچنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ کئی سالوں حتی کہ دہائیوں تک عام سائلین کے مقدمات کی شنوائی نہیں ہوپاتی، مگر آئینی اور سیاسی مقدمات کے لیے ججوں کے فُل بینچ بھی دست یاب ہوجاتے ہیں اور ایسے تمام مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں بھی ہوجاتی ہیں۔
اس دوران میں عوام الناس جن کے ٹیکسوں سے عدلیہ کے ججوں کو تنخواہیں دی جاتی ہیں، ان کے مقدمات مزید تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔
عوامی نمایندوں کو احتساب کے نام پر ذلیل و خوار کرنے والے بابے رحمتے اپنے سنگی ساتھیوں کے برخلاف کرپشن درخواستوں کو سپریم جوڈیشل کونسل کے صندوقوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔
عوامی نمایندوں کی پچھلی تین نسلوں تک کے احتساب کے لیے چاق و چوبند بابے رحمتے اپنی فیملی کی غیر قانونی، سیاسی اور کرپشن کی سرگرمیوں پر سٹے آرڈر جاری کرتے ہوئے کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے…… اور کرپشن کی کہانیاں منظرِ عام آنے پر فون ٹیپ کرنے والوں ہی کو موردِ الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔
سال 2008ء تا 2024ء ریاستِ پاکستان میں پھیلے ہوئے جوڈیشل ایکٹوزم کے سدباب کے لیے ضروری تھا کہ عدلیہ میں رائج کارٹل کا خاتمہ کیا جائے اور عدلیہ کے اوپر ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا نظام قائم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے تسلط سے آزاد کروایا جائے۔
بہ حیثیت قانون کے طالب علم مجھے یہ کہتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی کہ پارلیمنٹ یعنی عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے بنائے ہوئے آئین و قوانین کی بہ دولت ہی بابے رحمتوں کے اختیارات، ان کی تعداد، ان کی تنخواہوں اور ان کی مراعات کا تعین کیا جاتا ہے، تو پھر پارلیمنٹ کو یہ حق کیوں نہیں مل سکتا کہ وہ بابے رحمتوں کی تعیناتی کرے۔
26ویں آئینی ترمیم کے بعد اُمید کی جاسکتی ہے کہ بابے رحمتوں کی من مانیوں کے سلسلے کا خاتمہ نہیں، تو کم از کم بریک ضرور لگ جائے گی۔
یاد رہے پارلیمنٹ ہی سپریم ادارہ ہے، جس کے بطن سے آئین و قوانین پیدا ہوتے ہیں، جس کی بہ دولت ریاست کے انتظام کو چلانے کے لیے ادارے اور محکمے قائم کیے جاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ تنخواہ و مراعات تو عوام الناس سے لیں، مگر عوام الناس کے حقیقی نمایندوں سے حقِ حکم رانی چھین لیں۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری جمہور کی فتح ہے۔ یاد رہے 1973ء کے آئین بناتے وقت حکم ران و حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں شدید اختلافات تھے، مگر آئین کو ترتیب دینے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے پاکستانی قوم کو متفقہ آئین کا تحفہ دیا۔
پاکستانی جمہوری نظام کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوش آیند ہوگاکہ 18ویں اور 26ویں آئینی ترامیم بھی ماضی کی حریف سیاسی جماعتوں نے مل کر منظور کروایا۔
اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ جس طرح پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے ماضی سے سبق حاصل کیا۔مستقبل میں بھی وہ کسی کا دُم چھلا بننے کی بہ جائے باہم مل کر ریاست پاکستان کو لاحق مسائل سے نکال باہر کریں گی۔ جمہوریت زندہ باد، پاکستان پایندہ باد!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
