جنرل مشرف کی پاکستان میں الیکٹرانک نجی ٹی وی چینلوں کے قیام کی اجازت دینے کے نتیجے میں ڈھیر سارے الیکٹرانک نجی ٹی وی چینل وجود میں آئے۔ اُن نجی ٹی وی چینلوں کو جب عوام میں پزیرائی ملی، تو صحافتی دنیا نے دعوے کرنا شروع کیے کہ صحافت، ریاست کی چوتھی ستون ہے۔ صحافتی دنیا کے اس دعوے میں کہاں تک حقیقت ہے، اس کے تو آثار نظر نہیں آرہے، البتہ صحافتی دنیا اور صحافیوں کے اس تصور کے باوجود پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کو ڈھیر ساری مشکلات کا سامنا ہے۔ آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن ہے۔ سچ بولنے والے صحافی ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اندرونِ ملک کیا بیرونِ ملک بھی اپنے صحافیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ کوئی بھی ٹی وی چینل ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کے ڈر سے ایک سیاسی لیڈر کا نام تک نہیں لے سکتا، جب کہ اُن کی بات نہ ماننے پر صحافیوں کو اِغوا کیا جاتا ہے۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
9 مئی کو سابق وزیرِ اعظم اور چیئرمین عمران خان کی کرپشن کیس میں گرفتاری کے خلاف ملک گیر احتجاج کی رپورٹنگ پر 11 مئی کو صحافی اور اینکر پرسن عمران ریاض کو سیالکوٹ پولیس نے اُس وقت گرفتار کیا جب وہ ملک چھوڑ کر عمان جا رہے تھے۔
عمران ریاض کی گرفتاری کی دوسری بڑی وجہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حمایت، کینیا میں صحافی ارشد شریف کی قتل کی رپورٹ کی تیاری اور خاموشی اختیار نہ کرنا بھی تھی۔
گرفتاری کے چار دن بعد عمران ریاض کے والد نے 16 مئی کو اپنے بیٹے کے اِغوا کا مقدمہ سیالکوٹ میں درج کیا۔ اُس سے ایک روز قبل یعنی 15 مئی کو سرکاری وکیل نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ اینکر پرسن عمران ریاض سے تحریری حلف نامہ لے کر جیل سے رہا کر دیا گیا، جو کہ سفید جھوٹ ثابت ہوا۔ کیوں کہ اُس روز عمران گھر پہنچے ہی نہیں۔
گرفتاری کے بعد پولیس نے لاہور عدالت کو بتایا کہ 24 گھنٹوں میں عمران ریاض کو رہا کر دیا جائے گا، لیکن بعد میں ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کے ایما پر پولیس مکر گئی اور کہا کہ عمران ریاض اُن کی تحویل میں ہیں ہی نہیں۔
اُس موقع پر پاکستان کا کوئی بھی اِدارہ عمران ریاض کی گرفتار کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ گھر والوں نے عمران کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ کیس کی کئی سماعتوں کے باوجود عمران ریاض کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران میں پولیس کو حکم دیا کہ 22 مئی تک عمران ریاض کو بازیاب کرایا جائے۔ اُسی دن سماعت کے دوران میں آئی جی عثمان انور نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ عمران پنجاب کے کسی بھی پولیس تھانہ میں زیرِ حراست نہیں۔
اس طرح 26 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے آئی ایس آئی، آئی بی اور دیگر تمام خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ 30 مئی تک عمران ریاض کو بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیا جائے…… لیکن پھر بھی ایسا نہ ہوسکا۔ آئی جی لاہور نے عدالت کو بتایا کہ ٹیلی فونک رابطوں سے معلوم ہوا ہے کہ عمران ریاض کے اِغوا میں افغانستان ملوث ہے۔
5 جولائی کی سماعت میں عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ 25 جولائی کو ہر صورت میں عمران ریاضی کو عدالت میں پیش کیا جائے، لیکن اُسی دن کیس کی سماعت اس لیے نہ ہوسکی کہ بنچ ٹوٹ گیا۔
ایک سماعت کے دوران میں ریٹائرڈ بریگیڈئیر فلک ناز نے وزارتِ دفاع سے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ ہم یہ معلوم کرنے میں لگے ہیں کہ عمران کو کہاں رکھا گیا ہے؟ جلد سے جلد اُنھیں ریکور کیا جائے گا۔
6 ستمبر کو آئی جی لاہور نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ 13 ستمبر تک اچھی خبر ملنے کی توقع ہے، لیکن پھر بھی عمران ریاض بازیاب نہ ہوسکے۔
20 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی لاہور کو آخری بار موقع دیتے ہوئے حکم دیا کہ 26 ستمبر تک عمران ریاض کو بازیاب کرایا جائے۔ یوں آخرِکار 25 ستمبر کو عمران ریاض تقریباً چار ماہ بعد اپنے گھر سیالکوٹ پہنچ گئے۔
عمران ریاض کے چھوٹے بھائی اور اُن کے وکیل نے الجزیرہ ٹی وی پر عمران ریاض کی گھر پہنچنے کی تصدیق کی۔ اُن کے وکیل میاں علی اشفاق نے الجزیرہ کو بتایا کہ اللہ تعالا کے خاص فضل و کرم اور رحمت سے اپنے شہزادے کو لے آیا ہوں۔ مشکلات کے انبار، معاملہ فہمی کی آخری حد، کم زور عدلیہ اور موجودہ غیر موثر آئین و قانون کی وجہ سے وقت زیادہ لگا۔
قارئین! چلو اچھا ہوا کہ عمران ریاض بازیاب ہوگئے۔ پولیس یہ دعوا تو کررہی ہے کہ اُنھوں نے عمران ریاض کو بازیاب کرایا ہے، لیکن یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اُنھیں کہاں سے بازیاب کرایا گیا ہے؟ کون تھے جنھوں نے عمران ریاض کو اِغوا کیا اور اُنھیں کس مقصد کے لیے اِغوا کیا گیا تھا؟
قارئین! مجھے یقین ہے کہ پولیس کبھی یہ نہیں بتاسکے گی کہ اِغواکار کون تھے اور اُن کو کہاں رکھا گیا تھا؟ اگر اس طرح کا کسی دوسرے صحافی کے ساتھ بھی واقعہ پیش آئے، تو پولیس پھر بھی اُس کی بازیابی میں ناکام ہوگی، جب تک ’’اِغواکار‘‘ بازیابی نہ چاہیں۔ یہ عناصر بعض سرکاری اہل کاروں اور سیاسی رہنماؤں اور ورکرز کو کئی کئی ماہ حبسِ بے جا میں رکھ کر بعض سیاسی لیڈروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بھی بنالیتے ہیں۔ اگر عدالتیں بھی اُن کے سامنے بے بس ہیں، تو اس کا تعین کون کرے گا کہ یہ کون ہیں، جو کسی بھی ریاستی ادارے کو خاطر میں نہیں لاتے!
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایک سابق وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ، نگران وفاقی وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کو کھلم کھلا دھمکیاں دیتے ہوئے کہتا ہے کہ نواز شریف کے بارے میں بیان دیتے وقت وزیرِ داخلہ کو سابق وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کے انجام کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔
قارئین! اللہ نہ کرے اگر صورتِ حال اسی طرح رہی، تو ریاست کا مشکلات سے نکلنا ناممکن ہے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔