شیڈو کو عموماً منفی خصوصیات کا گھر کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لالچ، ہوس، حسد، جلن، غصہ، طیش، بربریت، کاہلی، آزردگی وغیرہ…… لیکن شیڈو میں صرف منفی خصوصیات شامل نہیں ہوتیں۔ بچپن میں معاشرہ، کلچر اور والدین کی مرضی کے مطابق ہم اپنی کچھ مثبت خصوصیات کو بھی قابلِ قبول نہ سمجھے جانے پر کاٹ کر پھینک دیتے ہیں کہ جیسے وہ موجود ہی نہیں…… لیکن وہ سب ہوا میں گم نہیں ہوجاتا بلکہ ’’کارل یونگ‘‘ کے مطابق آپ کی نفسیات میں لاشعور میں کسی کونے میں بند کردیا جاتا ہے، جہاں شعور کی روشنی نہیں پہنچ سکتی۔ لاشعور کے اس بند حصے کو کارل یونگ ’’شیڈو‘‘ کہتے ہیں۔ آپ کے شیڈو میں تخلیقی اور مثبت خصوصیات بھی پائی جاسکتی ہیں۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
اگر انا وہ سب ہے جس سے آپ اپنی شناخت جوڑتے ہیں، تو شیڈو وہ ہے جسے آپ اپنی شخصیت کا حصہ نہیں مانتے ہیں، اور ان دونوں کے درمیان ہمیشہ ایک جنگ چلتی رہتی ہے۔ انا کہتی ہے کہ میری چلے گی، لیکن شیڈو بھی شعور کی روشنی میں آنا چاہتا ہے۔ ہمارے اندر چل رہی اس جنگ کو کارل یونگ اندرونی خانہ جنگی (Inner Civil War) کہتے ہیں، جسے ختم کرنا اصل مقصد ہے۔
شیڈو سب میں ہوتا ہے۔ کسی میں بہت تاریک اور بھیانک، تو کسی میں کم نقصان دِہ اور کسی حد تک قابو میں۔ جتنی سخت، محدود اور تنگ اَنا ہوگی، اُتنا ہی تاریک اور بھیانک آپ کا سایہ ہوگا۔
چوں کہ شیڈو آپ کے لاشعور میں ہوتا ہے، اس لیے بہت ممکن ہے کہ آپ کو اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ وہ کون سی خصوصیات اور نظریات ہیں، جن سے آپ خود کو منسلک نہیں کرتے۔ رد کیے جانے پر شیڈو ہوا میں گھل نہیں جاتا، بلکہ اپنی ایک چھوٹی اور الگ شخصیت (Mini Personality) بنالیتا ہے، جسے اپنا آپ دوسروں کے سامنے لانے کے لیے آپ کی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو اپنے اندر کے لالچ کا علم نہیں اور کسی بھی انسان کے آپ کو ناقابلِ یقین آفر دینے پر آپ اپنے لالچ کی لپیٹ میں بنا چھان بین کے اس آفر کو قبول کرلیتے ہیں، پھر جب دھوکا ملتا ہے، تب آپ یا تو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ آپ مظلوم ہیں اور آپ کے ساتھ غلط ہوا، یا پھر میں کیوں اندھا ہوگیا تھا؟ میری آنکھوں پر پٹی بندھ گئی تھی، وغیرہ۔ کیوں کہ آپ کو اپنی سطح پر آتی ہوئی لالچ کا علم نہیں ہوتا۔ آپ کو اندھا آپ کا شیڈو ہی کرتا ہے اور یہ کرنے کے لیے اسے آپ کی اجازت کی ضرورت نہیں۔
شیڈو کی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہ آپ کے شعور میں تو نہیں ہوتا، لیکن دوسرے اسے آپ کی باتوں اور عادات میں باآسانی دیکھ لیتے ہیں…… اور یہی وجہ ہے کہ خود کو جاننا دوسروں کو جاننے سے بہت مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کو جان کر ہی آپ دوسروں کو بھی بہتر طور پر پرکھ سکتے ہیں۔ شیڈو آپ کی وہ حقیقت ہے جس سے آپ نظریں چراتے ہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی اس بات کو قبول کرنا نہیں چاہتا کہ وہ کسی سے جلن یا حسد محسوس کررہا ہے۔ کوئی بھی اپنے اندر اُٹھ رہی لالچ اور ہوس کو پہچاننا نہیں چاہتا۔ شیڈو کی اپنی الگ شخصیت تب آپ کی انا میں ضم (Integrate) ہونے لگتی ہے، جب آپ اس پر شعور کی روشنی ڈالنا شروع کرتے ہیں۔ اس عمل کو شیڈو ورک (Shadow Work) کہتے ہیں۔ شیڈو صرف تب تک طاقت ور ہے، جب تک یہ اندھیرے میں ہے، لیکن جیسے ہی یہ شعور میں لایا جاتا ہے، یہ اپنی طاقت کھو دیتا ہے۔ پھر یہ آپ کے خلاف نہیں بلکہ آپ کے حق میں کام کرتا ہے۔
٭ شیڈو کو کیسے پہچانا جائے ؟
مَیں اس پیچیدہ عمل کو چند پوائنٹ میں بیان کرنے کی کوشش کروں گی۔ البتہ اس سمندر جیسے گہرے ٹاپک کو یوں چند پوائنٹ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔
٭ دوسروں کو بہت سختی سے پرکھنا (Harshly Judge Others):۔ اکثر ہم کچھ لوگوں کو اُن کے لباس، رہن سہن، سوچ، عادات، نظریات، ثقافت کے اعتبار سے بہت سخت انداز میں پرکھتے ہیں۔ اکثر ہم ان لوگوں پر سخت ’’کومنٹ‘‘ پاس کرتے ہیں۔ گہرائی میں بہت ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم نے ان جیسا نہ بن کر عقل مندی کا کام کیا ہے، جس سے ہمیں اپنے متعلق بہتر محسوس ہوتا ہے۔ آپ وہ سب نہ کرکے اس گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو جج کرتا ہے نہ کہ جج ہوتا ہے۔ کیوں کہ جج کرنے والے گروپ میں شامل ہوکر آپ طاقت ور محسوس کرتے ہیں۔ وہ بچے جن کے والدین یا ان کے بڑے ان پر بہت زیادہ دھونس (Bullying) جماتے ہیں، وہ آگے چل کر خود بھی ساری زندگی دوسروں پر دھونس جماتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ اُن کے مطابق وہ خود کو محفوظ کررہے ہیں، اُس دھونس جمانے والے گروپ میں خود کو شامل کرکے۔
لیکن سوچیں کہ جس گروہ میں آپ شامل ہیں، وہ بہت ہی تنگ نظر اور آپ کی نشو و نما کو روکنے والا گروہ ہے۔ اَب آپ خود کو بہتر محسوس کروانے کے چکر میں اس ججمنٹ والے شیڈو کے زیرِ اثر صرف نقصان اُٹھائیں گے۔
٭ ٹروما اور نامکمل جذباتی ضروریات (Trauma and Unmet Emotional Needs):۔ ٹروما کئی سارے شیڈو کو جنم دیتا ہے۔ کبھی لت (Addiction) تو کبھی جذبات سے نمٹنے کے نقصان دِہ طریقۂ کار کی شکل میں۔ ٹروما میں بچہ اپنے تکلیف دہ جذبات، اپنی شخصیت میں سے کافی کچھ کاٹ اپنے لاشعور میں اُنھیں کبھی نہ محسوس کرنے کے لیے پھینک دیتا ہے۔ کیوں کہ ایک چھوٹے بچے کے لیے ٹروما والے تجربات اور جذبات اس قدر اذیت ناک ہوتے ہیں کہ اُنھیں لاشعور میں دبانا ضروری ہوجاتا ہے، تاکہ بچہ اسے نظر انداز کرکے ایک سماجی مخلوق ہونے کے ناتے باقی کے معاملات کو سیکھ لے۔ یہ تمام تر جذبات اس کا شیڈو بن جاتے ہیں۔ ٹروما کو شفایاب کرنے کا بہترین طریقہ شیڈو ورک بھی ہوسکتا ہے۔
اور اگر بچپن میں کچھ جذباتی ضروریات پوری نہیں ہوئیں۔ مثال کے طور پر والدین سے وہ توجہ نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی، پھر آپ کا شیڈو یا تو توجہ کا اس قدر بھوکا ہوگا کہ اُسے کوئی پروا نہیں ہوگی کہ اس توجہ والے طریقے سے آپ کو نقصان پہنچ رہا ہے، بلکہ آپ کو صرف توجہ سے غرض ہوگا۔ آپ چاہ کر بھی خود کو روک نہیں سکیں گے، یا پھر آپ بالکل ہی خود کو علاحدہ کرلیں گے اور انتہائی سخت طور پر یہ ماننے لگیں گے کہ مجھے کسی کی کوئی توجہ نہیں چاہیے۔ توجہ حاصل کرنے والے لوگ بکواس ہوتے ہیں۔ مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔ آپ کے اندر ایک شدید خواہش ہوگی کسی کی محبت اور توجہ کی، لیکن آپ خود کو روکیں گے کسی کے قریب جانے اور اس کی توجہ حاصل کرنے سے۔ اور یہ جنگ چلتی رہے گی۔ تب تک جب تک آپ اس بات کا اقرار نہ کرلیں کہ آپ کی گہری خواہش (Deep Desire) توجہ اور محبت حاصل کرنا ہی ہے۔
٭ عدم تحفظ، خامیاں اور پروجیکشن (Insecurities, Flaws, Projection):۔ یہ تین چیزیں سب سے زیادہ مدد دیتی ہیں اپنے شیڈو معلوم کرنے میں۔ ہمیں عموماً دوسروں میں وہی باتیں چبھتی ہیں، جو ہمارے لاشعور میں دبے ہوئے عدم تحفظات کو اُجاگر کرتی ہیں۔ والدین کو بچوں میں اکثر لاشعوری طور پر وہی باتیں بری لگتی ہیں، جو اُنھیں اپنے اندر دبی ہوئی ان باتوں کی یاد دلاتی ہیں جو ان کے شیڈو ہیں۔ ایسے میں بچہ والدین کے شیڈو کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور اپنی مثبت خصوصیات کو بھی دبا دیتا ہے۔
آپ اپنی خامیاں اور اپنے عدم تحفظات دوسروں پر پروجیکٹ کرتے ہیں، تاکہ آپ کو خود اپنے متعلق برا نہ محسوس کرنا پڑے۔ مثال کے طور پر آپ کہتے ہیں کہ ’’مَیں بہت سنجیدہ ہوں اور سنجیدہ رہنے کی قائل ہوں۔ کیوں کہ میری تربیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہے، جہاں پر سنجیدگی کو اچھا اور مذاق یا شوخ چنچل رویے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں بہت ہی سمجھ داری کے ساتھ ایک بچہ ہونے کے ناتے اپنی شخصیت کے مِزاحیہ حصے کو اپنی انا سے کاٹ کر لاشعور میں دبا دوں گی، اور پھر جب بھی کوئی میرے سامنے مِزاحیہ یا شوخ و چنچل ہونے کی کوشش کرے گا، تو میرے اندر کا وہ حصہ سطح پر آنے لگے گا۔ اور چوں کہ میری انا کہتی ہے کہ مَیں سنجیدہ عورت ہوں، تو پھر مَیں شوخ و چنچل لوگوں کو چھچھورے کا لقب دے کر اُنھیں برا بھلا کَہ کر اپنا شیڈو ان پر ڈال دوں گی، یعنی کہ پروجیکٹ کروں گی، کیوں کہ میری انا کے لیے اس بات کو قبول کرنا ناممکن ہے کہ مَیں سنجیدہ ہونے کے علاوہ کبھی کبھار مِزاحیہ بھی ہوسکتی ہوں۔‘‘
ایسا عموماً اُن لوگوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے، جو ہر سنجیدہ بات کو بھی مِزاح میں بدل دیتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا شیڈو ان کا سنجیدہ پن ہوتا ہے، جسے وہ اپنی انا ساتھ منسلک نہیں کرتے۔
سنجیدہ ہونا غلط نہیں۔ ہم سب کی شخصیت میں کوئی ایک عنصر نمایاں ہوتا ہے، لیکن مسئلہ وہاں ہوتا ہے جب آپ اپنی شخصیت سے مختلف لوگوں کو دیکھ کر چڑتے ہوں، اُنھیں پریشان کرتے ہوں، یا اُن سے دور رہتے ہوں۔ سوچیں آپ کتنا نقصان کررہے ہیں اپنا، اگر آپ کے مخالف لوگ صحیح اور آپ شدت پسندی میں غلط فیصلے لے رہے ہیں۔
آپ کو جو باتیں بھی لوگوں میں بری یا فضول لگتی ہیں، یا پھر جو خامیاں آپ لوگوں میں نکالتے ہیں کہ اُن میں یہ یا پھر وہ بہتر نہیں، یا پھر وہ تمام عدم تحفظات جو آپ کے اندر دوسروں کو دیکھ کر اُجاگر ہوتے ہیں، ان پر غور کیجیے۔ وہی آپ کو آپ کی اصلیت بتائیں گے۔ کیوں کہ آپ صرف سنجیدہ یا صرف مِزاحیہ نہیں ہوتے، بلکہ ہمارے اندر ہر ایک خصوصیت کا اُلٹ بھی پایا جاتا ہے، جس کا اگر اظہار/ تسلیم نہ کرنے دیا جائے، تو وہ شیڈو بن جاتا ہے ۔
٭ آپ کے ماتحت لوگوں کے ساتھ آپ کا برتاو (Behavior with People in Subordinate Position of Power):۔ اکثر لوگ اپنے سے کم طاقت ور لوگوں یا اُن لوگوں پر جو اُن کے ماتحت ہوں، اپنا غصہ نکالتے ہیں…… یا طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ پوری ایک کڑی ہوتی ہے، آپ کا باس آپ پر چلاتا ہے، آپ اپنے جونیئر پر، آپ کا جونیئر اپنی بیوی پر، بیوی اپنے بچوں پر…… یہ پوری ایک سائیکل ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی حد تک بے یارومددگار مجبور ہوتے یا محسوس کرتے ہیں، اور اپنے اندر کی اس مجبوری اور بے یارو مددگاری کی تلافی ہم خود سے کم طاقت ور لوگوں پر نکال کر کرتے ہیں۔
اس کا سب سے زیادہ شکار کسٹمر کیئر میں کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے شیڈو سب سے زیادہ تاریک ہوتے ہیں۔ فلموں میں دیکھا ہوگا کہ حالات کا ستایا اور کسٹمرز کے تلخ رویے سے تنگ ایک عام آدمی کبھی کبھار ’’سیریل کلر‘‘ بن جاتا ہے، یا پھر جرم کی دنیا میں قدم رکھ لیتا ہے، یا پھر اس کی زندگی میں اس کا ایک چھپا ہوا تاریک اور بھیانک چہرہ ہوتا ہے، جس کے متعلق اُسے خود بھی علم نہیں ہوتا۔ وہ دراصل اس کا شیڈو ہوتا ہے۔ کسٹمر کیئر جیسی جاب میں آپ کے اندر کچھ بھی چل رہا ہو، لیکن چہرے پر مسکان ہونی چاہیے۔ یہ لوگ اپنے جذبات دباتے (Repress) رہتے ہیں، جو اُن کا شیڈو بن جاتے ہیں۔
ایسے میں اگر کوئی ’’کسٹمر کیئر‘‘ میں کام کررہا ہے، تو وہ یاد رکھے کہ آپ اُن کم زور انسانوں سے یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ وہ اپنے باس کا غصہ آپ پر نہ نکالیں…… بلکہ آپ کو خود کو سمجھانا ہوگا کہ مجھ پہ چلانے والا یہ انسان خود کسی کی ڈانٹ سن کر آیا ہے۔ اس کا غصہ اور آپ کو برے الفاظ کہنا اس کے اندر کی دنیا اور زندگی میں چلنے والے مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ چوں کہ آپ اسے واپس جواب دینے کی سچویشن میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی برائے نام طاقت کا مظاہرہ کررہا ہے، تاکہ اپنی بے یارو مدد گار ہونے کے احساس کو کم کرسکے۔ ایسے لوگ اپنے اندر اُٹھنے والی مجبوری، بے یار و مددگار ہونے کے احساس کو پراسس کرنے کی بجائے اُنھیں دوسروں پر پھینکتے ہیں۔
٭ جانب داری اور تعصب (Bias and Prejudice):۔ آپ کن چیزوں/ معاملات/ نظریات کے جانب دار ہیں؟ اس کا پتا لگائیے۔ آپ کی جانب داریاں اور تعصب آپ کے شیڈو ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اسکارف اور عبایہ کے خلاف ہیں اور مغرنی لباس کے حق میں ہیں، تو یقینا یہ آپ کی جانب داری ہے۔ آپ ہمیشہ اسکارف اوڑھنے والوں کی طرف جانب دار رہیں گے۔ اپنی ثقافت کو پسند کرنا غلط نہیں، لیکن کسی اور کی ثقافت کو غلط کہنا آپ کی جانب داری ہے، جو آپ کو اپنی سوچ، تجربات اور سوشل سرکل کا دائرہ وسیع کرنے سے روکتی ہے۔ آپ اپنی چھوٹی سی جانب دار حقیقت میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔
اگر آپ کسی خاص نظریے کے پیروکار ہیں، تو اُس کے مخالف نظریے کو بھی پڑھیں۔ اُس نظریے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کی جانب داریاں آپ کو کتنا محدود رکھتی ہیں۔
٭ مظلومیت والا کھیل کھیلنا (Playing the Victim):۔ کچھ لوگ اپنی غلطیوں کو قبول نہ کرنے اور اس کی ذمے داری نہ اُٹھانے کے لیے مظلوم نظر آنے کی ہر حد پار کر جائیں گے۔ ان کے شیڈو اتنے گہرے اور تاریک ہوتے ہیں، ان کی اَنا اس قدر کم زور اور محدود ہوتی ہے کہ وہ ہر ممکن جواز ڈھونڈ نکالتے ہیں اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے۔ ذمے داری اُٹھانا ایک بہت ہی مشکل کام ہے، اور مظلوم بن کر ذمے داریوں سے پیچھا چھڑانا نہایت ہی آسان کام۔ خواتین مظلومیت والا کارڈ زیادہ کھیلتی ہیں۔ مظلومیت ایک شیڈو ہے، جو آپ کو اپنے حالات کی ذمے داری اُٹھانے سے روکتا ہے۔
٭ شیڈو کو تلاش کرکے اس کو تسلیم کرنے سے کیا ہوتا ہے؟:۔ سب سے پہلے تو آپ کو خود آگہی (Self-awareness) کے کئی مواقع ملتے ہیں، جو کہ اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔
درجِ بالا بیان کردہ چند پوائنٹ آپ کو تھوڑی بہت معلومات دے سکتے ہیں کہ آپ حقیقت سے کتنا قریب رہتے ہیں، حقائق سے دور رہ کر آپ اپنی بربادی کا سامان تیار کرتے ہیں، آپ خود کو محدود رکھتے ہیں، خود کو ایک نہ ختم ہونے والی اندرونی جنگ میں پھنسائے رکھتے ہیں۔
شیڈو کو تلاش کرکے اَنا کے ساتھ ضم کرنے سے آپ کے اندر کی جنگ کسی حد تک کم ہوجاتی ہے۔ جب جنگ ختم ہوتی ہے، تو انرجی بچتی ہے، جسے آپ کسی بہتر جگہ صرف کرسکتے ہیں۔ شیڈو کی بند الماری میں تخلیقی خزانہ موجود ہوتا ہے، جس پر شعور کی روشنی پڑنا ضروری ہے۔ ایسا ’’کارل یونگ‘‘ کہتے ہیں۔ دوسروں سے جنگ لڑنے سے زیادہ توانائی اپنی ذات کے ساتھ لڑنے والی جنگ میں صرف ہوتی ہے۔ کیا آپ میں لالچ اور سخاوت دونوں عناصر موجود نہیں؟ جیسے ہی آپ خود کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی اس عادت کو درست کرنے لگتے ہیں، جیسے ہی آپ اپنے اندر کے منفی جذبات اور دبی ہوئی خصوصیات کو نوٹ کرلیتے ہیں، وہاں سے خودآگہی کا ایک سفر شروع ہوتا ہے اور اس سفر کو شیڈو ورک (Shadow Work) کہتے ہیں، جس پر میں اگلی تحریر میں بات کروں گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔