8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کا دن منایا جاتا ہے۔ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی یہ دن کافی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ دنیا بھر کی خواتین نے اس میں حصہ لیا۔ کسی نے پلے کارڈ لے کر سڑکوں پر اپنا احتجاج ریکارڑ کرایا، تو کوئی گھر بیٹھے انٹرنیٹ کی دنیا پر اپنے مسائل سے دنیا کو اُجاگر کرتا رہا۔ کسی نے تحریر لکھ کر اپنے مسائل سے دنیا کو خبردار کیا، تو کوئی گھر بیٹھے ہمیشہ کی طرح اس سال بھی خاموش رہا۔ اس طرح خدا خدا کرکے عورت مارچ کا دن اس مرتبہ بھی نسبتاً خیریت سے گزرا۔
قارئین، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عورت مارچ کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ کوئی خاتون ہاتھ میں پلے کارڈ لیے سڑک پر کھڑی دکھائی دی۔ کوئی گھر میں قید، زِنداں کی طرح خاموشی سے یہ مناظر دیکھتی اور سہتی رہی۔ کوئی گھریلو تشدد اور ظلم سے تنگ آکر پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرکے دکھائی دی، تو کوئی ہمیشہ کی طرح اس سال بھی خاموشی کی زنجیریں نہ توڑ پائی۔ یوں پچھلے سال کی طرح اس سال بھی یہ دن دنیا بھر کی خواتین کے لیے اپنے مسائل معاشرہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے مددگار ثابت ہوا۔
اس مارچ میں خواتین کے مساوی حقوق، جنسی ہراسانی کا خاتمہ، جائیداد میں حصہ، قانونی تحفظ، غیرت کے نام پر قتل اور دیگر فرسودہ رسوم کے خاتمے اور بہت سے امور پر خواتین اپنی بات کرتی دیکھی گئیں۔ اس سال عورت مارچ کا موضوع پدرشاہانہ تشدد تھا۔ تشدد کی مختلف شکلیں ہیں: زبانی، جذباتی، جسمانی، جنسی اور معاشی استحصال۔ جو عورتوں، بچوں خواجہ سرا اور ایسے لوگوں کے خلاف ہوتا ہے جن کے جنس کا تعین نہیں ہوا ہوتا۔
اگر ہم جائزہ لیں، تو پدرشاہانہ تشدد زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔ یہ ہمارے گھروں میں، سماج اور ریاست کے ہر ادارے میں موجود ہے۔ دراصل پدرشاہی تشدد کا سبب اس کا بنیادی ڈھانچا ہے۔ گھروں میں اس کا اظہار، اپنے جسم پر اختیار، فیصلہ سازی، تعلیم اور پیشے کے چناؤ پر پابندی، جنسی و جسمانی تشدد، بچوں پر تشدد اور جہیز کے مطالبات پورے نہ ہونے کی شکل میں نظر آتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین روزِ اول سے کئی سماجی مسائل کا شکار رہی ہیں۔ ان سماجی مسائل کے حل کے حصول کے لیے خواتین نے ہمیشہ آواز بلند کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ عناصر ان آوازوں کی نفی بھی کرتے آئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے خواتین کے حقوق تو جائز ہیں لیکن ان کی نعرہ بازی ٹھیک نہیں۔ کوئی کہتا ہے خواتین کے مطالبات بھی جائز ہیں لیکن مارچ میں بینر ٹھیک نہیں۔ یقین مانیں خواتین اگر اس قسم کی منفی سوچ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئیں، تو دیگر سارے چھوٹے بڑے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے، ہذا القیاس۔
ایک اور جملہ جو یہاں کثرت سے سننے کو ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ خواتین ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی گردان کیوں کرتی ہیں؟ اس سے بے حیائی جنم لیتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بھئی، آپ کے جسم پر آپ ہی کی مرضی ہونی چاہیے، محلے کے لوگوں کی نہیں۔ جن دوستوں کو اس جملے سے مسئلہ ہے، وہ ایک ہفتہ کے لیے اپنا جسم اپنے محلے والوں کے حوالے کردیں، تب اس جملے کی گہرائی سمجھ آئے گی۔
’’میرا جسم میری مرضی‘‘ سے فقط اپنی مرضی کی شادی اور لباس مراد نہیں بلکہ اس جملے کے اپنے وسیع معنی اور تاریخ ہے۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ عورت کا جسم صرف مرد حضرات کی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے اور نہ عورت اس کے تابع ہے کہ وہ ہر حال میں مرد کی ضرورت بن کر جیے۔
اس جملے کی آسان الفاظ میں مراد یہ لی جاسکتی ہے کہ مرد کی طرح عورت بھی انسان ہے، اس کے اپنے احساسات ہیں اور وہ اپنی مرضی کی مالک ہے۔ تعلیم، شادی، نوکری اور دیگر چھوٹے بڑے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ اسے اپنی نفسانی خواہشات پورا کرنے اور بچے جننے کی مشین نہ سمجھا جائے۔
قارئین، ہمارے معاشرہ میں عورت مارچ اور عورت حقوق کے مخالفین میں کچھ ایسے افلاطون دوست بھی ہیں جو گالی کے ساتھ بات شروع کرتے ہیں اور آخر میں کہتے ہیں کہ ’’مذہب نے عورت کو سارے حقوق دیے ہیں۔ اس لیے اب خواتین کو خاموش ہونا چاہیے۔‘‘ ان حضرات کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر خواتین کو لگتا ہے کہ اُنہیں وہ تمام حقوق نہیں مل رہے جو دین نے اُن کے لیے وضع کیے ہیں اور وہ اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں، تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اپنے حقوق ہی کے لیے تو آواز اُٹھا رہے ہیں۔
بعض دانشوروں کو عورت کا نام سنتے ہی کھجلی سی ہونے لگتی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مسئلہ خواتین کے لباس میں نہیں بلکہ معاشرہ میں موجود عورتوں کے بارے میں عمومی سوچ اور تربیت کا ہے۔ عورتوں کو لباس کا طعنہ دینے والے حضرات سے سوال یہ ہے کہ پانچ اور چھے سال کے بچو اور بچیوں کے لباس میں ایسا کیا ہے، جنہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟
قصہ مختصر، کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین کے لباس کو لے کر انہیں بے حیا ہونے کا طعنہ دیں۔ جس معاشرے میں عورت کو جنسی خواہشات کی تکمیل اور بچے جننے کی مشین سمجھا جاتا ہے، وہاں عورت مارچ نہیں کرے گی، تو اور کیا کرے گی؟
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔