امریکہ کو دنیا کے نقشے پر ترقی یافتہ ملک اور متحدہ امریکہ بنانے میں ایک کسان کے بیٹے کا اہم کردار تھا۔ زندگی کے بد ترین حالات سے گزر کر سیاست کے ذریعے عوام کے دلوں میں گھر کرنے والا ابراہیم لنکن کہلایا۔جنہیں اپنی ذاتی زندگی سے زیادہ اپنے ملک اور عوام کی فکر لاحق تھی۔ جنہوں نے امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار سیاہ فام امریکیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ حالاں کہ ان کے علم میں تھا کہ جو راستہ اس نے چنا ہے، کتنا کٹھن اور دشوار ہے۔ اور یہ بھی کہ ان کا منتخب کردہ راستہ یقینا ان کی سیاسی زوال اور موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ لیکن نتائج کی کوئی پروا کئے بغیر وہ اسی راستے پر چل پڑے اور سیاہ فام امریکیوں کے حق کے لئے اپنی زندگی کی آخری سانس تک لڑتے رہے۔ نیلسن منڈیلا نے اپنے عوام کو برابری کا حق دلانے کے لئے زندگی کے ستائیس سال جیل میں کاٹے اور بد ترین تشدد سہنے کے باوجود اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ وہ تب تک ڈٹے رہے، جب تک اپنے مقصد میں کا میابی نہ پائی۔

قائد اعظم محمد علی جناح ایک موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے عوام کو ایک آزاد مملکت دینے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس لئے وہ عوام کے دِلوں کے لیڈر کہلائے۔جو آج تک عوام کے دلوں اور تاریخ کے سنہری پنوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس جس نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اپنی رعایا پر ظلم ، جبر اور بربریت کا پہاڑ ڈھایا،وہ عوام کو نظر انداز کرکے جیسے جیسے دور ہوتے گئے، مقدر نے بھی ان سے منھ موڑ لیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح ایک موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے عوام کو ایک آزاد مملکت دینے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس لئے وہ عوام کے دِلوں پر راج کرنے والے لیڈر کہلائے۔

آج کی اس تحریر میں کچھ ایسے ہی شاہی خاندانوں کا ذکرکرنا چاہوں گا، جنہوں نے عوام کے مسائل کو ترجیح دینے کے بجائے اپنی شہنشاہیت کو زیادہ فوقیت دی۔ جن کے حکم کے بغیر پرندہ تک پرَنہیں مارسکتا تھالیکن شومئی قسمت کہ آج وہ کسمپرسی اور گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سیف الاسلام، کرنل معمر قزافی کے بعد ملک کے دوسرے طا قتور ترین آدمی سمجھے جاتے تھے۔ جاوید چوہدری نے ان کے حوالے سے کچھ دلچسپ باتیں کی تھیں جو اس کالم کا حصہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیف الاسلام کا ایک دفعہ لندن میں اپنی کار میں بیٹھے ایک راستے سے گزر ہوا، تو ان کی نظر ایک محل پر پڑی، جو انہیں بے حد پسند آیا۔ انہوں نے اس محل کا سودا اپنی کار میں بیٹھے بیٹھے طے کیا۔ سیف الاسلام جب اپنی انتالیسویں سال گرہ منا رہے تھے ، تو کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی مہنگی ترین سالگرہ تھی۔جس میں سونے کی کان کے مالک، دنیا کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ اور مشہور بزنس ٹائیکونز سمیت ہالی ووڈ کے اداکاروں نے شرکت کی۔ جس کو ٹونی بلیئر اپنا ’’دوست‘‘ کہہ کر بڑا فخر محسوس کرتا تھا۔ اس کا زیادہ تروقت پیرس، لندن اور دنیا کے خوبصورت ممالک میں گزرتا تھا۔ لندن میں ان کا قیام اکثر شاہی محل میں ہوا کرتا تھا۔ پھر وقت نے بازی پلٹی۔ لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد کرنل قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے راہِ فرار اختیار کرلی اور انیس نومبر کو وہ ایسے کمرے سے برآمد ہوا، جس میں ٹائلٹ تھا نہ عالی شان بیڈ۔ سیف الاسلام بے بسی کی حالت میں ایک پھٹا پرانا کمبل اوڑھے ہوئے بے یارو مددگارپڑا تھا،جس کی ایک انگلی بھی کٹی ہوئی تھی، جس پر پلاسٹر لگا تھا۔

سیف الاسلام جب اپنی انتالیسویں سال گرہ منا رہے تھے ، تو کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی مہنگی ترین سالگرہ تھی۔جس میں سونے کی کان کے مالک، دنیا کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ اور مشہور بزنس ٹائیکونز سمیت ہالی ووڈ کے اداکاروں نے شرکت کی۔ جس کو ٹونی بلیئر اپنا ’’دوست‘‘ کہہ کر بڑا فخر محسوس کرتا تھا۔ اس کا زیادہ تروقت پیرس، لندن اور دنیا کے خوبصورت ممالک میں گزرتا تھا۔ لندن میں ان کا قیام اکثر شاہی محل میں ہوا کرتا تھا۔ پھر وقت نے بازی پلٹی اور۔۔۔۔۔

اب دوسرا قصہ ملاحظہ کریں۔ برغت اور رانا دونوں عراق کے سابق صدر صدام حسین کی چہیتی بیٹیاں تھیں۔ کچھ سال پہلے ان کے پاس کئی محلات تھے۔ برغت کے محل میں ستاون ملازم تھے۔ اس کے محلات کا سالانہ خرچہ پچاس ملین ڈالر تھا جبکہ رانا کے لئے اٹلی کی ایک مشہور کمپنی اسپیشل جوتے بناتی، جس پر انگریزی حروف میں’’اونلی فار پرنسز رانا‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ جس کے لئے لندن سے خصوصی ڈریس منگوائے جاتے، اور پیرس سے سب سے منفرد قسم کا عطر۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ ایسی خوشبوپورے بغداد میں ملنے سے نہیں ملتی ،جو رانا کے لئے خصوصی تیار کی جاتی۔ دونوں بہنیں شادی شدہ تھیں اور ان کے نو بچے تھے ۔ ان کے بچے سونے کے برتن میں کھانا کھاتے۔ ریشم اور اطلس پر سوتے۔پورے محل میں ائیر کنڈیشنڈسسٹم تھا۔ حتیٰ کہ جس طبیلے سے دودھ لایا جاتا، وہ بھی کسی محل سے کم نہ تھا۔ان کے بچے ملازمین کے منھ میں لگام ڈالے ان کی پشت پر بیٹھ کر سواری کرتے۔ذرا سی کوتاہی پر ا ن کی چمڑی ادھیڑ دی جاتی۔ یہ دونوں شہزادیاں جہاں سے گزرتیں، عوام کا سمندر ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بیتاب رہتا۔ پر آج حالات کی ماری ہوئی یہ دونوں بہنیں اپنے بچوں سمیت ایک ایسے مکان میں رہنے پر مجبور ہیں، جہا ں پانی ہے نہ پانی ٹھنڈا کرنے کا ریفریجریٹر۔ آج وہ خود سرکاری نل سے پانی بھرنے پر مجبور ہیں۔ بچوں کے لئے کھانا بنانے کے لئے کوئی ملازم ہے نہ صفائی کے لئے ملازمہ۔ دونوں بہنیں اپنے نازک ہاتھوں سے جھاڑوں لگاتی اور خود ہی ٹوائلٹ دھوتی ہیں۔ صدام کے ایک قریبی دوست کے مطابق جب وہ رانا اور برغت کے گھر اُ ن سے ملنے گئے، تو شہزادیاں ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ رانا اور برغت کی مظلومیت، مفلسی اور کسمپرسی کی حالت سے زیادہ افسوسناک اور دل دکھانے والی بات ان شہزادیوں کے ساتھ عام لوگوں کا رویہ تھا۔ یہ دونوں جس سرکاری نل سے پانی بھرنے جاتی ہیں، وہاں لوگ انہیں پانی بھرنے نہیں دیتے۔ حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ شاہی خاندان سے ہیں، پھر بھی ان کے ساتھ متعصب اچھوتوں جیسا رویہ رکھے ہوئے ہیں ۔

برغت اور رانا دونوں عراق کے سابق صدر صدام حسین کی چہیتی بیٹیاں تھیں۔ کچھ سال پہلے ان کے پاس کئی محلات تھے۔ برغت کے محل میں ستاون ملازم تھے۔ اس کے محلات کا سالانہ خرچہ پچاس ملین ڈالر تھا جبکہ رانا کے لئے اٹلی کی ایک مشہور کمپنی اسپیشل جوتے بناتی، جس پر انگریزی حروف میں’’اونلی فار پرنسز رانا‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ جس کے لئے لندن سے خصوصی ڈریس منگوائے جاتے، اور پیرس سے سب سے منفرد قسم کا عطر۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ ایسی خوشبوپورے بغداد میں ملنے سے نہیں ملتی ،جو رانا کے لئے خصوصی تیار کی جاتی۔ دونوں بہنیں شادی شدہ تھیں اور ان کے نو بچے تھے ۔ ان کے بچے سونے کے برتن میں کھانا کھاتے۔ ریشم اور اطلس پر سوتے، مگر یہاں بھی وقت نے پلٹا کھایا اور۔۔۔۔

’’میرے محل میں میرے ذاتی ساٹھ ملازم ہوتے جو ہر وقت میرے اشارے کے منتظر ہوتے ۔پر آج حالات یکسر بدل گئے ہیں ۔ اب میرے پاس ایک ڈرائیور اور ایک ملازم ہے۔ جب ملازم چھٹی پر ہوتا ہے، تو گھر کا سارا کام مجھے کرنا پڑتا ہے۔ آج اتنی تنگدستی ہے کہ گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے اپنے دوستوں سے ادھار بھی لینا پڑتا ہے۔‘‘یہ ایران کے سابق شاہ رضا پہلوی کی ملکہ فراح رضا پہلوی کے الفاظ ہیں، جو انہوں نے نیو یارک ٹائم کو ایک انٹرویو میں کہے۔ انیس سو اناسی میں جب ایران میں انقلاب برپا ہوا، تو شاہِ ایران اور فراح پہلوی اپنی جان بچاکر امریکا فرار ہوئے۔ امریکہ بہادر نے انہیں زیادہ عرصہ ٹکنے نہیں دیا۔یہ وہی امریکہ تھا جس کے ایک اشارے پر شاہِ ایران نے ہم جنس پرستوں کی شادی اور چورانویں امریکیوں کو سفارت کاروں کا درجہ دیا۔ یہ وہی شاہِ ایران تھا کہ جب اس کی گھڑی ایک گھنٹہ پیچھے تھی، تو گھڑی کی سوئی گھومنے کے بجائے پورے پینتیس ملین ایرانیوں کو اپنی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کرنا پڑیں۔ شروع شروع میں وہ ہر اس ملک کا رُخ کرتے چلے گئے،جو کبھی ان کے ساتھ نجی تعلقات کے دعویدار ہوتے۔لیکن جلد ہی وہاں سے نکل جانے کا حکم ملتا۔ دربدر ٹھوکریں کھاتے کھاتے وہ مصر قاہرہ میں ایک خستہ حال گھر میں رہنے لگے۔ تھکا ہارا شاہِ ایران دل برداشتہ ہوکر انیس سو اسّی میں اس دنیا فانی سے کوچ کرگیا۔ مرنے کے وقت شاہِ ایران کے سر تلے سرہانہ تھا نہ صو رۂ یاسین پڑھنے کے لئے کوئی قاری۔ جنازہ کو سہارا دینے کے لئے چار کاندھے تک نصیب نہ ہوئے۔ بس رات کی تاریکی میں اسی گھر کے ایک صحن میں اسے چپکے سے دفنا دیا گیا۔ فراح رضا پہلوی اب امریکہ میں ایک مہاجر کی زندگی گزارنے پے مجبور ہیں ۔

میرے محل میں میرے ذاتی ساٹھ ملازم ہوتے جو ہر وقت میرے اشارے کے منتظر ہوتے ۔پر آج حالات یکسر بدل گئے ہیں ۔ اب میرے پاس ایک ڈرائیور اور ایک ملازم ہے۔ جب ملازم چھٹی پر ہوتا ہے، تو گھر کا سارا کام مجھے کرنا پڑتا ہے۔ آج اتنی تنگدستی ہے کہ گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے اپنے دوستوں سے ادھار بھی لینا پڑتا ہے۔

قارئین، جو حکمران برسرِ اقتدار آکر اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صرف زبانی جمع خرچ اور نہ پورے ہونے والے وعدوں تک محدود رہ جاتے ہیں اور عوام کے َسر غربت و افلاس اور طرح طرح کے مسائل کے ڈھیر چھوڑ جاتے ہیں، ان کا سورج بھی ایک دن اسی طرح تاریکی اور گمنانی کی دنیا میں ڈوب جاتا ہے۔ پھر ان کے مقدر میں صرف رسوائی ہی رسوائی لکھ دی جاتی ہے۔