پاکستان میں روزانہ لگ بھگ پندرہ افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ کی بنیاد پر 5475 کی حد تک پہنچتی ہے۔ ان جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تعداد موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہے۔
گذشتہ ماہ ہمارے ہی شہر اوچ دیر پائین میں تین نوجوان موٹر سائیکل کے مختلف حادثات میں جاں بحق ہوئے۔ اس کا تجزیہ کیا جائے، تو پچانوے فیصد موٹر سائیکل سواروں کی عمر اٹھارا سال سے کم ہوتی ہے۔ اس طرح ملاکنڈ ڈویژن میں سالانہ درجنوں نوجوان یا کم عمر افراد موٹر سائیکل حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں۔
ایک مطالعاتی جائزہ کے مطابق دنیا بھر میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے ہر سال سات لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں، جن میں چار لاکھ افراد کی عمر تیس سال سے کم ہوتی ہے جو موٹر سائیکل کی وجہ سے لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ ان حادثات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد پانچ کروڑ تک ہوتی ہے، جب کہ معاشی نقصان آٹھ ارب تک ہوتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے عالمی منصوبہ کے تحت سال 2011ء تا سال 2020ء کو ـ’’ٹریفک حادثات سے بچاؤ کی دہائی‘‘ قرار دیا ہے، جس کا مقصد ہر ملک خصوصاً ایشیائی ممالک حادثات کو کم کرنے کی کوشش کریں، کیوں کہ اس سے پچاس لاکھ افراد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موٹر سائیکل نے بہت سے کام آسان کر دیے ہیں۔ اس کو اگر آسان سواری کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا، لیکن ہمارے ہاں اس کا استعمال غلط ہو رہا ہے، جس سے یہ آسان سواری موت کی سواری بن گئی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو چیز جس کام کے لیے بنائی جاتی ہے، اس سے وہ کام بہت کم لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ موٹر سائیکل سائیلنسر یعنی آواز کم کرنے والا آلہ اس میں ایک چھوٹا سا سوراخ کیا جاتا ہے، جس سے بعد میں انتہائی باریک مگر تیز آواز نکلتی ہے۔ ایسا کرنے کے بعد اگر پاس سے کوئی موٹر سائیکل تیز رفتاری سے گزر جائے، تو کانوں میں سیٹیاں سی بجتی محسوس ہوتی ہیں۔ اس کے بعد موٹر سائیکل سوار کو جتنے منھ اتنی گالیاں ملتی ہیں، لیکن وہ سائیلنسر کی تیز آواز میں دب جاتی ہیں۔ مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ ایسا کرنے سے موٹر سائیکل سوار کو کیا فائدہ ملتا ہے؟
نوجوان ہیں جو دندناتے پھر رہے ہیں۔ اتنی تیزی سے موٹر سائیکل چلا تے ہیں کہ تھوڑی سی کوتاہی پھر ان کی جان لے لیتی ہے۔ دوسری طرف تحقیق سے ثابت ہے کہ بندہ جب دونوں پیروں پر چل کر معمولاتِ زندگی انجام دیتا ہے، تو اس سے صحت بنی رہتی ہے۔ آج کل کی تن آسان زندگی میں جینے کی امید یہی دو پیر ہے، لیکن اگر ان کی جگہ دو ٹائیرلے لیں، تو اکثر ایسی ایسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں کہ جن کا نام بھی انسان نے پہلے نہیں سنا ہوتا۔
موٹر سائیکل کا استعمال اگر طریقہ سے کیا جائے، تو بڑے بڑے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اکثر موٹر سائیکل سواروں کا لائسنس چیک نہیں کیا جاتا۔ اس طرح ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانہ کچھ دنوں تک برقرار تو رہا مگر چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کے مصداق وہ بھی ختم ہوا۔ مینگورہ جیسے شہر میں بارہ سے لے کر اٹھارہ سال کے کم سن بچے موٹر سائیکلوں پر دندناتے پھرتے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس ضمن میں سابقہ ڈی پی او سوات سلیم مروت صاحب لائقِ تحسین ہیں، جنہوں نے ایک طریقۂ کار وضع کیا تھا، جس سے ضلع سوات کی حد تک موٹر سائیکل حادثات میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ موصوف کا طریقہ یہ تھا کہ جس کم عمر ڈرائیور کو پکڑا جاتا، اسے موٹر سائیکل سمیت اس وقت تک تھانے میں رکھا جاتا، جب تک بچے کے والدین نہ آجاتے۔ اس کے بعد کم عمر ڈرائیور کا والد باقاعدہ ایک سٹامپ پیپر پر بیانِ حلفی جمع کرتا کہ اس کا بچہ آئندہ موٹر سائیکل نہیں چلائے گا۔ تب کہیں جا کر کم عمر ڈرائیور اور موٹر سائیکل کو چھوڑا جاتا۔ اُن دنوں کی خبریں چیک کی جائیں، تو لگ پتا جائے گا۔
اس حوالہ سے میری ڈی آئی جی ملاکنڈ ڈویژن سے خصوصی درخواست ہے اور کرنے کا کام بھی یہی ہے کہ وہ سابقہ ڈی پی اُو سوات سلیم مروت صاحب کے طریقۂ کار کو پورے ملاکنڈ ڈویژن میں رائج کرنے کے احکامات صادر فرمائیں۔ یہ ان کا اس ڈویژن کے عوام پر ایک طرح سے احسانِ عظیم ہوگا۔ ساتھ اگر پریشر ہارنز، کالے شیشوں اور خراب سائیلنسرز پر بھی پابندی لگانے کے احکامات صادر فرمائے جائیں، تو از چہ بہتر؟
امید ہے کہ ڈی آئی جی ملاکنڈ ڈویژن میری اس درخواست کو رد نہیں فرمائیں گے اور ملک و قوم کی بہتری کی غرض سے کم عمر ڈرائیوروں اور دیگر مسائل کا نوٹس ضرور لیں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔