دوست مسلسل اس کرب میں مبتلا ہیں کہ تحریکِ انصاف حزبِ اختلاف میں کرتارپور کی طرح کے اقدامات کو غداری قراردیتی تھی، لیکن اب امن کی علمبردار کیوں بن گئی؟ محترمہ شیریں مزاری کی ایک تقریر باربار شیئر کی جاتی ہے جس میں واہگہ کی سرحد سے تجارت بھی بندکرانے کی وہ دہائی دیتی ہیں۔
نون لیگ کے لیڈروں کا دکھ دیدنی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ہر اقدام کو شک کی نظر سے ہی نہیں دیکھا گیا بلکہ سبوتاژ بھی کیاگیا۔ عرض ہے کہ حضور! وقت اور منظر نامہ بدلتا ہے، تو سیاسی حکمت عملی بدلنا پڑتی ہے۔ پرانے قصے دہرانے اور پوائنٹ سکورنگ کا اب کوئی فائدہ ہے نہ موقع۔ اس خطے کو امن اور خوشحالی چاہیے۔ تنازعات کا حل مذاکرات اور محبت سے کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم عمرن خان کی تقریر مجھے بہت پسند آئی۔ نیلسن منڈیلا کے لب ولہجے میں وہ بولے اور ایک ایک لفظ دل سے نکلتا ہوا محسوس ہوا۔ سیاست دان کی نہیں یہ ایک مدبر کی تقریر تھی، جو خطے کی تقدیر بدلنے کا وِژن رکھتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے نہ کہ ان کی ٹانگ کھینچی جائے۔
سوشل میڈیا پر لوگ کہتے ہیں کہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے تقریب میں شرکت کیوں کی؟ یا وہ حکومت کی اس ایشو پر پشت پناہی کیوں کرتے ہیں؟ سابق وزیراعظم نوازشریف کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کوئی اقدام اداروں کی مشاورت اور انہیں اعتماد میں لے کر کرتے نہیں تھے۔ بادشاہوں کی طرح اپنے عزیز و اقارب کی مشاورت سے ریاستی امور کے فیصلے کرتے۔ اگر انہوں نے قومی سلامتی کے اداروں کو بروقت اعتماد میں لینے کی زحمت کی ہوتی، تو وہ امن کے عمل میں شراکت دار ہوتے۔ یہ اچھا نہیں کہ قومی سلامتی کے حلقے کرتارپور راہداری کی پشت پر چٹان کی طرح کھڑے ہیں؟ حکومت اور اداروں کا ایک صفحے پر آئے بغیر خطے میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ بھی آج نہیں تو کل مذاکرات ہی کی کوکھ سے نکلے گی۔ دیگر دستیاب آپشن آزمائے جاچکے۔ کوئی نتیجہ نکلا نہ نکلنے کی امید ہے۔ اگر چہ پاکستان کے اقدامات کے جواب میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی کا ردِ عمل حوصلہ افزا نہیں، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بھاری سرمایہ کاری کرکے پاکستان کا دشمن نمبر ایک کا امیج ابھارا ہے۔ کرتارپورراہداری نے اس پروپیگنڈا مہم کی ہوا نکال دی۔
وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خطابات کو بھارتی ٹی وی چینلز نے لائیو دکھایا۔ بہت ہی مؤثر انداز میں انہوں نے خطے میں غربت کے خاتمے کی اور باہمی اشتراک کی بات کی۔ کشمیر پر بھی عمران خان کا اظہارِ خیال لچک اور مذاکرات سے تنازعہ کے حل کی رضامندی کی عکاسی کرتا تھا۔ مجھے یقین ہے ان خطابات کا بھارتی رائے عامہ پر مثبت اثر ضرور ہوگا۔
بھارت کی حکمران جماعت کے منفی طرزِ عمل کا جواب اسی کے لب و لہجے میں دینے کی ضرورت نہیں۔ یہ جال ہے جس میں پھنس گئے، تو نکل نہ پائیں گے۔ قرآن مجید کی تعلیم ہے: ’’برائی کو بھلائی سے دفع کرو، پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔‘‘ بی جے پی کو عام الیکشن کا معرکہ درپیش ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے اس نے ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کی سالگرہ دھوم دھام سے منائی۔ اب وہ کیسے کرتارپور کھلنے کی تعریف کرتی؟ اسے بھارتی پنجاب کی حکومت اور رائے عامہ کے سامنے ’’یوٹرن‘‘ لینا پڑا۔ اپنے دووزرا کو پاکستان بھیجا اور دنیانے اس کے طرزِ سیاست کا مشاہدہ کیا اور اسے ناپسند بھی کیا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے اس تقریب کی نمایاں کوریج کی۔ اسے ایک تاریخی دن قرار دیا۔ پاکستان کے اقدام کی تعریف کی۔ پاکستان کا امیج ایک پُرامن ملک کے طور پر ابھرا۔
یہ تاثر بھی دور ہوا کہ حکومت اور فوج دو مخالف سمتوں کے مسافر ہیں بلکہ بقولِ عمران خان کے ایک ہی صفحے پر ہیں۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ قومی سلامتی کے ا داروں میں اب غالب سوچ یہ ہے کہ پاکستان کو دنیا سے الگ نہ کیا جائے بلکہ اسے عالمی نظام سے مربوط کیا جائے۔ رفتہ رفتہ پاکستان کو اس خطے ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں امن کے علمبردار کے طور پر ابھارا جائے، جہاں مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دنیا میں امن و استحکام کے لیے کردار ادا کرنے کو بے تاب ہے۔ اس پس منظر میں کچھ ادارے کام کر رہے ہیں اور اگلے چند برسوں میں درجنوں نئے ادارے سرگرم ہوتے نظر آرہے ہیں۔
یمن میں ثالثی کی پاکستانی پیشکش کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ افغانستان کے حوالے سے چلنے والے ہر ٹریک میں پاکستانی سرگرم ہیں اور بھرپور تعاون کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پنجاب او رپنجاب کے درمیان بہت کچھ سانجھا ہے۔ زبان، کلچر اور بے شمار روایات ایک سی ہیں۔
دونوں خطوں کے درمیان پائی جانے والی اس یکسانیت کو ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ پنجاب ہی تھا جس کے سینے پر تقسیم کی لکیر کھینچی گئی۔ ایک ملین لوگ، جی ہاں! دس لاکھ انسان پُرتشدد واقعات میں لقمۂ اجل بن گئے۔ نفرت کی دیواریں کھڑی ہوئیں۔ اب یہ پنجاب ہی ہے جو محبت اور دوستی کا پل بننے کے لیے بے تاب ہے، تو اسے روکا ٹوکا نہیں جانا چاہیے۔
پاکستان کی اقلیتیں اس کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ وہ دنیا کے کئی ایک ممالک کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات استوار کرانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انہیں قومی سطح پر بھرپور نمائندگی دی جانی چاہیے، تاکہ وہ نمایاں اور ممتاز کرداراداکرنے کے قابل ہوسکیں۔ گنتی کے چند انتہا پسندوں کے سامنے سرجھکانے کے بجائے ریاست کو جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
پاکستان کا مستقبل ایک روشن خیال، اعتدال پسند، اسلامی و فلاحی ریاست کا قیام ہے جہاں ہر شہری کی جان و مال محفوظ ہو۔ انہیں مسجد، چرچ یا مندر میں جانے کی مکمل آزادی ہو۔ سیاسی اور فکری اختلاف کی بنیاد پر کسی کی جان و مال کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ ہو۔ ایسا کرنے والوں کے لیے جیل کی کال کوٹھڑی ہر وقت استقبال کے لیے تیار ہو۔
قائداعظم محمد علی جناح ایک ایسا ہی پاکستان دکھانا چاہتے تھے۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔