جب سے تحریکِ انصاف کی حکومت گئی ہے، ملک میں ایک بالکل نئی قسم کی سیاسی و سماجی انارکی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ انارکی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ شاید ہماری سیاست میں ایسی انارکی نہ پہلے کبھی تھی اور نہ اب ہونی چاہیے۔ حالاں کہ ہماری سیاسی و معاشرتی تاریخ اس سے کئی گنا زیادہ المیات دیکھ چکی ہے۔ مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، بینظیر بھٹو کی المناک شہادت، نواب اکبر بگٹی کا قتل، نواز شریف کی پانامہ کیس میں نا اہلی، کراچی میں آپریشنز اور فرقہ واریت وغیرہ۔ خصوصاً بھٹو کی پھانسی نے پورے ملک کو خاص حالات کا شکار کر دیا تھا اور یہ معاشرتی تقسیم اب تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے…… لیکن یہاں پر ہماری سیاسی قیادت کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پھر بھی اس کو انتہا پر نہیں پہنچایا۔ نہ طلال بگٹی نے فسادات کی شروعات کی، نہ مسلم لیگ احتجاج کو اس حد پر لے گئی۔ خاص طور پر ہم پاکستان پیپلز پارٹی کی تعریف کریں گے کہ انہوں نے اپنی مقبول ترین قیادت کی جان کی قربانی ایک نہیں دو بار قبول کی…… لیکن اس طرح تمام اداروں کو کہ جو براہِ راست ملوث تھے، کلی طور پر متنازعہ نہ بنایا…… بلکہ بھٹو کی پھانسی کو ضیاء الحق تک محدود رکھا اور بی بی کی شہادت پر ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ بلند کیا…… لیکن عمران خان صاحب نے تو حد کردی، جب کہ ان کے خلاف کوئی ذاتی انتقام یا ظلم نہیں ہوا۔ ایک آئینی اقدام کیا گیا اور خان صاحب کی حکومت آئینی طور پر ختم کی گئی۔
سچ یہ ہے کہ اس میں حزبِ اختلاف کی حکمت عملی کم اور خان صاحب کی اپنی غلطیاں زیادہ تھیں۔ اب ایک ایسا مراسلہ کہ جو کسی امریکی کا نہیں بلکہ امریکہ کے ایک سطحی عہدیدار نے ایک پاکستانی سفارت کار سے گفتگو کی، اور اس گفتگو کو مذکورہ پاکستانی سفارت کار نے خود لکھ کر پاکستانی وزراتِ خارجہ کو آگاہ کیا، ساتھ یہ سفارش کی کہ حکومت پاکستان اس پر امریکن حکومت سے باقاعدہ سرکاری سطح پر توجیح لے یا احتجاج کرے…… لیکن عمران خان کی حکومت نے اس کو مناسب تک نہ سمجھا اور نہ اس پر کوئی عملی اقدام کیا…… لیکن جب سیاسی گیم حکومت کے ہاتھ سے نکل گئی، تو انہوں نے اس کو جواز بنا کر رونا دھونا شروع کر دیا۔ بالکل آخری مرحلہ پر اس پر قومی سلامتی کی میٹنگ بلائی جنہوں نے اس مراسلہ کے تناظر میں یہ واضح کر دیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی۔ البتہ آپ زیادہ سے زیادہ مداخلت کَہ سکتے ہیں۔ اس قومی سلامتی کے اجلاس کو جب حکومت نے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی، تو آئی ایس پی آر نے اس پر مکمل وضاحت دے دی جو خان صاحب کے لیے مزید باعثِ تکلیف بن گئی۔
الغرض مداخلت اور سازش کو لے کر عمران خان صاحب سڑکوں پر نکل آئے، اور ایک خاص عوامی گروہ بہرحال ان کے ساتھ وابستہ ہوگیا…… جس سے خان صاحب کو مزید تقویت ملی۔ اب حالت یہ ہے کہ پورا سوشل میڈیا سازش و مداخلت پر بحث میں مصروف ہوگیا ہے۔ ان الفاظ کا ترجمہ و تعریف ہر شخص اپنی مرضی سے کر رہا ہے اور پوری قوم تقسیم ہوگئی ہے۔
آئیں ذرا ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ویسے تو عام فہم میں سازش ہوتی ہے ایک طریقۂ کار کو وضع کرنا، اور مداخلت کا مطلب ہے کہ اس سازش کو عملی شکل دینا۔ لیکن ہم مذکورہ خط کو عام فہم یا عمومی لغت میں نہیں بلکہ ایک خاص سفارتی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اب سفارتی زبان یا طریقۂ کار میں مذکورہ دونوں الفاظ کے مطالب و مقاصد بالکل برعکس ہوتے ہیں اُس ترجمہ کے جو عمومی کیا جاتا ہے۔ سفارتی زبان میں ’’سازش‘‘ اس کو کہیں گے کہ جو عملی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ مثلاً امریکہ نے ایران میں انقلاب کو ناکام کرنے کی کوشش کی۔ کیوبا میں رجیم چینج کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح سعودی عربیہ میں شاہ فیصل کا قتل اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا کامیاب خاتمہ اس کی کامیاب مثالیں ہیں…… لیکن آج کے حالات میں اس قسم کی کسی سازش کا شایبہ تک نہیں۔
جب کہ مداخلت بالکل ایک اور چیز ہے۔ مثال کے طور پر جب بھی کوئی ایک ملک کسی بھی خاص ایشو پر کسی دوسرے ملک کو متوجہ کرتا ہے، تو یہ اس ملک میں مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
امریکہ بار ہا سعودی عرب اور ایران میں انسانی حقوق کی بات کرتا ہے کہ انسانی حقوق کو مد نظر رکھا جائے۔ اسی طرح آج کل میانمار کی فوجی حکومت پر تنقید ہو رہی ہے۔ اکثر یورپی ممالک مصر کی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایک مثال برصغیر کی…… آپ آئے دن بھارتی سرکار کی کشمیر پالیسی پر تنقید کر تے ہیں، بلکہ کشمیر تو دور کہ وہ متنازعہ مسئلہ ہے…… لیکن آپ بھارت کے اندر اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی اور تعصب پر تنقید کرتے ہیں، تو جواباً آپ دیکھ لیں بھارتی وزراتِ خارجہ کے بیانات کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے داخلی معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ پھر جوابی طور پر ہندوستان، کشمیر، گلگت بلستان حتی کہ بلوچستان پر بات کرتا ہے…… بلکہ بہت سے بھارتی چینل تو وہاں کے کچھ مخصوص لوگوں کے انٹرویو تک چلاتے رہتے ہیں۔ آپ اس پر کہتے رہیں کہ یہ مداخلت ہے۔ سو یہ فرق ہے مداخلت و سازش میں…… اگر آپ سفارتی حلقوں کی نظر سے دیکھیں تو۔
اچھا اب اگر آپ اس کو سیاسی ڈکشنری میں بھی چیک کریں، تو پاکستان کی حد تک جب حکومتوں کو بذربعہ فوج یا عدلیہ ختم کیا گیا، تو آپ کَہ سکتے ہیں کہ سازش ہوئی۔ بعد 70ء سے لے لیں۔ بھٹو حکومت، محمد خان جونیجو کی حکومت، نواز شریف کی دوسری حکومت اور ظفر اﷲ خان جمالی حکومت ایک آمر کے ہاتھوں ختم ہوئی…… جب کہ دو حکومتیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی اور ایک نواز شریف کی ’’اٹھاون ٹو بی‘‘ کا شکار ہوئی۔ پھر یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی تیسری حکومت بذریعہ عدلیہ ختم کی گئی، تو آپ اس میں سازش کا عنصر محسوس کرسکتے ہیں…… لیکن جب آپ حکومت کے کسی اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، جلسے جلوس، لانگ مارچ، اسمبلی میں بائیکاٹ اور احتجاج کرتے ہیں، تو سازش نہیں…… بلکہ آپ بالواسطہ مداخلت کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی آپ موجودہ حکومت کو بذریعہ سیاسی یا عوامی طاقت کسی اقدام سے روکنے کی سعی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے مداخلت و سازش کی سادہ تعریف سفارتی اور سیاسی تناظر میں۔
لیکن تحریک انصاف اس کو خواہ مخواہ اپنی سیاسی ضرورت کے مطابق استعمال کر رہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ شاید عمران خان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی تو نہیں۔ ہم اپنی گذشتہ تحریر میں یہ تحریر کر چکے ہیں کہ بظاہر عمران خان کے پاس دِکھانے اور عوام کو بتانے کے لیے کارگردگی کی بنیاد پر تو کچھ بھی نہیں، سو وہ کیا کرتا…… غلط یا صحیح اس واحد آپشن کو استعمال کرنا بہرحال اس کی ایک سیاسی مجبوری ہے۔ اور پھر جب اُس کو یہ یقین بھی ہے کہ اُس کا یہ بیانیہ کم از کم اُس کے فالوورز میں مقبول بھی ہوگا، تو وہ یہی کرے گا۔
معذرت کے ساتھ عمران خان جیسے کردار والے شخص کے لیے ملکی مفادات کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ آخر میں ہم حکومت سے یہ اپیل ضرور کریں گے کہ وہ خان صاحب کا یہ مطالبہ بنا کسی تاخیر کے فوراً منظور کرلیں کہ اس پر ایک عدالتی کمیشن بنایا جائے اور اس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کھلی عدالت میں کی جائے۔ اس کمیشن میں ہر متعلقہ فریق کو پیش ہونا چاہیے اور اس کمیشن کی حتمی رپورٹ کو عوام کے سامنے من و عن پیش کیا جانا چاہیے۔ تاکہ کم از کم اس معاملے میں کسی حد تک ٹھہراؤ تو آجائے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اس کمیشن کے بعد خان صاحب کو چند مزید ماہ میڈیا میں مل جائیں گے، لیکن یہ بہرحال منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔ وگرنہ دوسری صورت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ خان صاحب اس کو خوب پروپیگنڈا کریں گے اور ملک کے اندر سیاسی عدمِ استحکام بڑھتا جائے گا کہ جس سے ہماری سیاست و معاشرت تو آلودہ ہوگی ہی، لیکن اس کے ہماری معیشت پر بھی بہت منفی اثرات پڑھ سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم حکومت سے یہ التماس کرنے پر مجبور ہیں کہ جب آپ کو یقین ہے کہ خان صاحب کا بیانیہ غلط ہے، تو پھر ہاتھ کنگن کو آر سی کیا! بنا دیں عدالتی کمیشن اور کر دیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔ کوئی قیامت نہیں آنی۔ اور ویسے آپ کی وجوہات کتنی ہی مضبوط یا ملکی مفادات کے پیش نظر کیوں نہ ہوں لیکن اگر آپ یہ کمیشن نہیں بناتے تو پھر عمران خان کا یہ بیانیہ روز بروز مقبول ہوتا جائے گا۔اور اسکا آپ کو ہی ناقابل تلافی سیاسی نقصان ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔