بی بی سی اردو سروس کی طرف سے پنجاب کے قصبے کھاریاں کے بارے میں ایک ڈاکومینٹری دیکھی۔ پنجاب کے علاقے کھاریاں، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات سے بیرونِ ملک محنت مزدوری کے لیے نکلنے کا عام راوج ہے۔ ڈاکومینٹری 41 منٹ دورانیے کی تھی لیکن بہت دردناک تھی۔ آدھی رات ہو چکی تھی۔ ایک تو آدھی رات بعد انسان پر رقت طاری ہو جاتی ہے، دوسری بات ویڈیو میں جو درد تھا، وہ بآسانی محسوس کیا جا سکتا تھا۔ بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے غریب الوطنی کا درد سہا ہو، انہیں مسافری کی تلخی کا علم بخوبی ہوتا ہے۔ کل سے اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد میرا دل مغموم۔
بی بی سی کی ویڈیو کھاریاں شہر کی بڑی بڑی کوٹھیوں، ان کے مالکان اور پس منظر کے بارے میں تھی۔ عالیشان کوٹھیوں کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے مالکان سبھی بیرونِ ملک مقیم تھے اور ان کی کوٹھیاں عالی شان اور قیمتی ہونے کے باوجود خالی پڑی تھیں۔ کچھ کوٹھیوں کے بوڑھے، عمر رسیدہ مالکان یورپ میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر پاکستان میں کچھ مہینے کی چھٹی گزارنے اپنی کوٹھیوں میں موجود تھے، لیکن درد کی بات یہ تھی کہ یہاں زندگی اکیلے پن کا شکار تھی۔ ان کی عالی شان کوٹھیوں میں بڑے بڑے ہال، بیڈ رومز، کچن وغیرہ تو تھا، پر عجیب سا سناٹا تھا۔ قاتل خاموشی تھی۔ ایک کونے میں جانوروں کی آوازیں بھی تھیں۔ کوٹھیوں کے بڑے صحنوں میں آگے پودوں میں پرندوں کی بے نیازی کی چہک بھی تھی، لیکن انسانوں کی کمی تھی۔ بچوں کی شرارت بھری آوازوں کی کمی تھی۔ کھاریاں، گجرات اور ان سے ملحقہ کشمیر کے اضلاع میں یورپ جانے کا رواج عام ہے۔ کچھ لوگ قانونی طریقے سے جاتے ہیں، زیادہ تر غیر قانونی طریقے سے۔ کھاریاں کے جس گاؤں کا ذکر بی بی سی کی ویڈیو میں تھا، وہاں کے لوگ سادہ دیہاتی کسان تھے۔ ایک شخص حسن جو 1971ء میں گھر والوں کو بتائے بغیر افغانستان سے ہوتے ہوئے ایران پھر ترکی اور وہاں سے ڈنمارک گیا تھا، اس نے بڑی تفصیل سے اپنی پوری کہانی سنائی۔ ویڈیو میں وہ اپنی کوٹھی کے قریب تعمیرہ شدہ دیگر کوٹھیوں کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے: ’’وہ والی کوٹھی میرے بھائی کی ہے۔ وہ اٹلی میں مقیم ہے۔ فلاں کوٹھی بھی بھائی کی ہے۔ وہ انگلینڈ میں ہوتے ہیں۔‘‘ اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتے ہیں: ’’1971ء میں گھر والوں کو بتائے بغیر یورپ روانہ ہوا۔ افغانستان سے ہوتے ہوئے ایران پھر ترکی اور وہاں سے ٹرین کے ذریعے یورپ داخل ہوا۔ کچھ دن ڈنمارک میں رہا۔ اس کے بعد ناروے گیا۔ پچاس سال سے وہاں مقیم ہوں۔ میرے بیٹے اور پوتے سبھی اُدھر پیدا ہوئے۔ یہ عالی شان کوٹھی میری جوانی کی خواہش تھی۔ اللہ نے پوری کی، لیکن اب اس کوٹھی کا کیا فائدہ؟ جب اس میں اداس جدائیاں ہیں۔ میرے بیٹے اور پوتے پاکستان آنے اور رہنے کے لیے تیار نہیں۔ سال میں کچھ مہینے پاکستان آ کر گزارتا ہوں، لیکن اب میں نہ اِدھر کا ہوں نہ اُدھر کا۔ جب ناروے جاتا ہوں، تو چھے سات گھنٹے کی فلائٹ میں یہی سوچتا رہتا ہوں کہ کٹی پتنگ کی طرح میں اب کسی نامعلوم منزل کی طرف دن بدن بڑھ رہا ہوں۔‘‘
عمر رسیدہ حسن کی باتوں میں درد و غم نمایاں تھا۔ ناروے کی بہت تعریف کی کہ وہ ایک عیسائی معاشرہ ہے، مگر انہوں نے اس کو غربت سے نکال کر امیر بنایا۔ اسے تحفظ دیا۔ روزگار دیا۔ عزت دی۔ حتی کہ جن چپلوں میں وہ 1971ء میں غیر قانونی طور پر وہاں گیا تھا، وہاں کی ریاست نے بطورِ یادگار وہ اپنے پاس محفوظ رکھے۔
ویڈیو میں دو اور لوگوں کو بھی انٹرویو کیا گیا ہے۔ ایک 45 سالہ جوان دوسرا 65 سالہ عمر رسیدہ شخص۔ 45 سالہ شخص کی شادی ناروے میں مقیم کزن سے ہوئی ہے۔ اس کی بیوی اور اولاد ناروے میں جب کہ وہ اپنی عالی شان کوٹھی میں مقیم بوڑھے والدین کے پاس کچھ مہینے سے مقیم ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے والدین یورپ جانا نہیں چاہتے، جب کہ بیوی اور اولاد یہاں رہ نہیں سکتی۔ یہاں والدین کے لیے کوئی ریونیو اور انکم سورس بنا کر یورپ بھاگنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں اب وہ نہیں رہ سکتے۔
ایک تیسرا شخص جو باریش ہے اور کم بولتا ہے، پنجابی میں بات کرتا ہے۔ اس کی کوٹھی زیرِ تعمیر ہے، مگر رہنے والا کوئی نہیں۔ سارے یورپ میں مقیم ہیں اور پاکستان آنا نہیں چاہتے۔
قارئین، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی خوشی سے گھر اور وطن چھوڑ سکتا ہے؟ جواب ہے ’’نہیں‘‘۔ وطن سے اور اپنوں سے پیار فطری چیز ہے۔ بے نظیر بھٹو جب اکتوبر 2007ء کو خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن کی فضاوں میں آئی، تو کیوں زار و قطار روئی؟ اس وجہ سے کہ وطن کی ہواؤں میں اپنائیت ہوتی ہے۔ 17 جون 2010ء کو جب میں روزگار کے سلسلے میں پہلی دفعہ سمندر پار جا رہا تھا، تو وہ لمحات میری زندگی کے تلخ ترین لمحات تھے۔ یہ کہانی ہر اُس شخص کی ہے جو بیرونِ ملک روزگار کے لیے مقیم ہے۔ بیرونِ ملک میں چند سال گزارنے کے بعد وطن میں پھر ’’سیٹل‘‘ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ نہ اِدھر کے رہتے ہیں نہ اُدھر کے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یورپ میں زندگی ہے۔ امریکہ میں مزے ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ خوابوں کی تکمیل کا وطن ہے، لیکن ایسا نہیں۔ وہاں مقیم لوگ پھنس جاتے ہیں۔ لوگ اپنی پہچان کی قربانی دے کر وہاں سیٹل ہو جاتے ہیں۔ اپنی شناخت، پہچان، برادری اور کلچر کی عظیم قربانی دے کر بلآخر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ جنازے میں چند تعلق دار جمع ہو کر قبر میں اتار دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے۔ بیٹے پاکستان میں بچی کھچی جائیداد اونے پونے بیچ ڈالتے ہیں۔
پرسوں ایک دوست نے بتایا کہ حیات آباد میں اس کے گھر کے قریب 91 سالہ ایک بوڑھا کرنل تھا۔ اس سے روزانہ علیک سلیک ہوتی۔ اچانک کئی دنوں سے غائب رہا۔ میں اس کے گھر گیا، وہاں پر پتا چلا کہ وہ اپنا گھر اونے پونے بیچ کر امریکہ اپنے بیٹوں کے پاس روانہ ہوا اور وصیت کی کہ اس کی قبر بھی امریکہ میں بنائی جائے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ آج کیوں لوگ اتنی بڑی قربانیاں دے کر ملک سے بھاگ رہے ہیں؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی اپنے شہریوں کا خیال کیا ہی نہیں۔ یہاں "Survival of the fittest” ہے۔ یہاں جنگل کا قانون ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے۔ پریشان ہوں، غمگین ہوں اور کل سے انہی خیالوں میں گم ہوں کہ انتظار خان، کہیں تیرا انجام حسن کی طرح نہ ہو۔ کہیں تم بھی اُس ریٹائرڈ کرنل کی طرح بھاگ کے وصیت نہ لکھو!
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔