سیر و سیاحت ذہنی تازگی، دوستانہ مراسم، مختلف رسم و رواج اور ثقافتوں سے آگاہی کا اہم ذریعہ ہے۔ لانگ ڈرائیو، ہرے بھرے میدان، سبزہ اور چراگاہیں، ٹھنڈی اور صاف آب و ہوا، لہلہاتی جھلیں، شفاف آبشاریں، ٹھنڈے اور شفاف پانی کے چشمے، برف پوش پہاڑوں پر بادلو ں کی اٹکھیلیاں، نکھرتے پھول، لہلہاتی فصلیں اور چہچہاتے پرندے ہماری یادداشت کا اَن مول حصہ بن جاتے ہیں…… مگر سیاحتی مقامات پر گداگروں کے ڈیروں نے اس سارے لطف کو غارت کر رکھا ہے۔ یہ اتنے ضدی ہیں کہ سرکاری افسران کی طرح ان کی مٹھی گرم کیے بغیر کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ آپ کی سالانہ آمدن کا 5 فی صد کسی نہ کسی صورت میں گداگر مافیا لے اُڑتا ہے۔ گداگرمافیا ایک منظم اورتاریخی نوعیت کا حامل پیشہ ہے…… جو قدیم یونان سے اب تک آئے روز پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ گداگری ان شعبوں میں سے ایک ہے جس میں ہر نسل، رنگ، ملک، جگہ اور عمر کے لوگ شامل ہیں۔ یہ مافیا دیکھنے میں معصوم اور لاچار دکھائی دیتا ہے…… مگر درحقیقت اس کے برعکس کئی گنا بھیانک اور خوف ناک ہے۔ اکیسوی صدی میں یہ شعبہ جرایم کی آماج گاہ بن چکا ہے۔
بھیک مانگنا صرف ترقی پذیرممالک ہی کا المیہ نہیں…… بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی گداگری کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی گداگر ویزے لے کر بھیک مانگتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے ساتھ ہونے والے کسی حادثے کا ڈراما رچا کر واپسی کے ٹکٹ کے نام پر پیسے بٹورتے ہیں۔ تاریخ اور سیاحتی مقامات ان کی ترجیحی منزل ہیں۔ بھیک مانگنا ایک منفی رسم ہے…… ہم آئے دن اس کو مضبوط کیے جا رہے ہیں۔ بھکاریوں کی بھر مار سیاحوں کی خوشی اور لطف کو خراب کر نے کے علاوہ ہمارے ملک کے اچھے تاثر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے اور پوری قوم کی عزتِ نفس کا مجروح کرنے کے ذمے دار ہیں۔
سیاحتی مقامات پر گداگروں کے ڈیرے سیاحت اور سیاحوں پر حملے کے مترادف ہیں۔ الفاظ بہت بڑا ہتھیار ہیں اور بھکاری ان ہتھیاروں کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ الفاظ کے ساتھ چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات کا بھر پور سہارا لیتے ہوئے اپنے شکار کو قابو میں کرلیتے ہیں۔
گداگر مافیا کے رابطے انڈر گراؤنڈ کام کرنے والے مافیا سے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون ہونے کے باوجود یہ لوگ دندناتے پھرتے ہیں۔ اگر کسی دن غلطی سے پکڑ بھی لیے جائیں، تو چند گھنٹوں بعد دوبارہ اپنے اڈے پر پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے باضابطہ طور پر اپنے علاقے تقسیم کیے ہوتے ہیں اور اپنے علاقے میں کسی اور بھکاری کو بھیک نہیں مانگنے دیتے۔ اس مافیا کی درپردہ خفیہ طاقتیں موجود ہوتی ہیں، جو ان کو روزانہ اس کام پر نہ صرف لگاتی ہیں بلکہ ان کی نگرانی بھی کرتی ہیں۔
پیشہ ور بھکاریوں کے علاوہ کچھ افراد حالات کی ستم ظریفی سے تنگ آکر بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے لیے حکومت متبادل ذریعۂ معاش کی منصوبہ بندی کرے، تاکہ اس معاشرتی ناسور سے جان چھڑائی جاسکے۔ کیوں کہ کچھ افراد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔
قارئین! سیاحتی مقامات پر بھیک مانگنا ایک نفع بخش پیشہ بن چکا ہے۔ سیاح بھکاریوں کو پیسے دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو کہ سرا سر غلط اور معاشرے کے بگاڑ کاسبب ہے۔ اکیسویں صدی میں سیاحتی مقامات بھکاریوں کے لیے جنت بن چکے ہیں۔ اندرون یا بیرونِ ملک آپ کسی بھی سیاحت مقام پر چلے جائیں…… بھکاریوں سے جان چھڑانا ناممکنات میں سے ہے۔ شہری اور مضافاتی علاقوں کے تاریخی و سیاحتی مقامات مری، سوات، کالام، وادی ناران کاغان، گلگت بلتستان، وادیِ نیلم یا آزاد کشمیر حتی کہ کسی بھی خطے کی سیر پر روانہ ہوں، بھکاری سائے کی طرح آپ کا پیچھا کرتے ہیں۔
وادیِ نیلم جو گذشتہ چند سالوں سے سیاحت کا مرکز بنی ہوئی ہے، وہاں بھیک مانگنے کو انتہائی گھٹیا سمجھا جا تا تھا۔ اب وادیِ نیلم میں بھی بھکاریوں نے اپنے ڈیرے جمالیے ہیں۔ دور دراز کے گاؤں کے بچے گھر سے لکڑیاں یا پانی لینے کے بہانے نکلتے ہیں اور سڑک پر سیاحوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں علم نہیں کہ سارا دن ان کے بچے کہاں رہتے ہیں؟ کچھ خاندان نہ صرف خود بھیک مانگتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی بھیجتے ہیں۔ انتظامیہ اور مقامی افراد کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان بچوں کے خاندان سے رابطہ کرکے ان کو آگاہ کریں…… اگر وہ بچوں کو نہ روکیں، تو انتظامیہ قانونی کارروائی کریں، تا کہ پھیلتے ہوئے اس ناسور کو روکا جاسکے۔کچھ افراد معمولی نوعیت کی چیزیں بیچنے کے بہانے بھی بھیک مانگتے ہیں۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بھیک مانگنے کا ایک انداز ہے۔
بھکاری اپنے آپ کو ’’اَپ ڈیٹ‘‘ کر تے رہتے ہیں۔ اپنے آپ کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ کچھ بھکاری اب اچھے خاصے قیمتی لباس میں بن سنور کر بھیک مانگتے ہیں۔ ان کے پاس مہنگی گاڑی بھی موجود ہوتی ہے اور اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی ناخوش گوار سانحہ کی کہانی سنا کر پٹرول ڈلوانے اور واپسی کے خرچے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایسے پیشہ ور گداگروں نے ساتھ خواتین گداگروں کو بھی فیملی کے طور پر رکھا ہوتا ہے، تاکہ ہم دردیاں حاصل کرکے رقم ہتھیائی جائے۔ بعض اوقات یہ اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے پھنس جانے یا گم ہونے کا بہانہ بھی استعمال کرتے ہیں۔
شہری علاقوں میں تو بھیک مانگنے کے لیے باضابطہ طور پر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔’’ایزی لوڈ والی صبا‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ کچھ افراد اپنی ناگفتہ بہہ حالت کے ذریعے سیاحوں کی ہم دردی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کچھ نے لوشنز لگا کر حالت بگاڑی ہوتی اور اکثر اداکاری کا سہار ا لیتے ہیں۔ بعض بھکاری بھیک مانگنے کے بجائے کھانا کھلا دینے یا گھریلو ضرورت کی اشیا کا تقاضا کر تے ہیں…… جو ان کا جدید ہتھیار اور طریقۂ واردات ہے۔ ایسے افراد سارا دن چیزیں اکٹھی کر تے ہیں اور شام بیچ کر پیسے جمع کر تے ہیں۔
بعض بھکاری اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے بھیک مانگتے ہیں اور یہ زیادہ تر گاڑیوں کے رش والی جگہوں کا انتخاب کر تے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات دوسروں سے قدرے مختلف ہوتا ہے۔ یہ جان بوجھ کر مہنگی گاڑی کے ساتھ ٹکراتے ہیں اور پھر اپنی اداکاری کے ذریعے پیسے بٹورتے ہیں۔ کچھ بھکاری تو پرس نکالنے پر آپ کا پرس چھین کر بھاگ جاتے ہیں۔
کچھ بھکاری کچھ نفسیاتی طریقے بھی اختیار کرنے لگے ہیں۔ آپ کا حلیہ اور آپ کی سواری کے حساب سے آپ پر نفسیاتی حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، سیٹھ جی اتنے امیر ہیں، لاکھوں کی گاڑی ہے اور دس روپے دے رہے ہیں! بعض اوقات تو یہاں تک بھی کَہ دیتے ہیں کہ دس روپے آپ مجھ سے لے لیں، اب دس روپے سے آتا ہی کیا ہے؟
کچھ خواتین اپنے بچوں کو اٹھائے ان کے دودھ کے پیسوں کی التجائیں کرتی ہیں۔ کچھ بھکاری مزدورں کا حلیہ بنا کر سڑکوں پر بے روزگاری کا رونا رو کر پیسے مانگتے ہیں۔ اگر انہیں کام پر لے جانے کی پیشکش کی جائے، تو راستہ بدل لیتے ہیں۔ اکثر بھکاری عشروں سے بھیک مانگ رہے ہیں…… اور ان میں سے بعض نے کئی گھر بنا کر کرایے پر دیے ہیں اور ان کی کئی گاڑیاں بھی چلتی ہیں…… مگر وہ ابھی تک بھیک مانگ رہے ہیں۔
بھکاریوں میں سے اکثر جرایم پیشہ ہوتے ہیں یا ان کے جرایم پیشہ افراد سے روابط ہوتے ہیں۔ یہ بھیک مانگنے کے بہانے سیاحوں کی جاسوسی کرتے اور پھر گینگ کی صورت میں ان کو لوٹ لیتے ہیں۔ بعض واقعات میں سیاحوں کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ تے ہیں۔
کوئی بھی چوک، چوراہا، سگنل، پارک، مزار، تاریخی مقام، تعلیمی ادارے غرض یہ کہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر گداگر موجود نہ ہوں۔ انتظامیہ کو اس مسئلے کی طرف فوری توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے…… اور مقامی افراد کے ساتھ سول سوسائٹی کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔