پی ٹی آئی کو ٹیکنیکل گراؤنڈ پر بطورِ پارٹی انتخابی عمل سے باہر کر دیا گیا ہے۔ اس میں سارا قصور سپریم کورٹ کا نہیں۔ ہم پی ٹی آئی کے وکلا پر بھی الزام نہیں دھر سکتے کہ اُن کی پوری طرح تیاری نہ تھی۔ وہ سپریم کورٹ میں پوچھے گئے بعض اہم سوالات کے جوابات نہ دے سکے۔ اپنے دلائل کے ثبوت میں دستاویزات پیش نہ کرسکے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس جانے میں اس کے سربراہ عمران خان اور ان کے مشیروں کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے۔ اس سے پہلے دو وزرائے اعظم جناب نواز شریف اور جناب یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ سے نااہل ہوچکے ہیں، مگر موجودہ فیصلے میں تو پوری پارٹی ہی نااہل ہوگئی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اس فیصلے کی وجوہات کیا ہیں یا پی ٹی آئی سے کہاں غلطی ہوئی۔ الیکشن کمیشن کا کردار یا سپریم کورٹ، لاہور اور پشاور ہائی کورٹ کی پروسیڈنگ بھی ہمارا موضوع نہیں۔ ہم آج اس بات کا جائزہ لیں گے کہ بلے کی واپسی کے بعد اب آگے پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا؟
سب سے پہلا نقصان تو پی ٹی آئی کو یہ اُٹھانا پڑا ہے کہ وہ الیکشن میں ہو گی بھی یا نہیں؟ یعنی اس کے امیدوار تو میدان میں ہوں گے، وہ ان آفیشلی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر بھی ہوں گے، لیکن ان کی یہ حیثیت الیکشن کمیشن میں تسلیم شدہ نہیں ہوگی۔ وہ سب آزاد حیثیت میں ان انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی خواتین کی اور دوسری مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی ہے۔ جوکہ جیتی گئی نشستوں کے تناسب سے اسے ملنا تھیں۔
دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں رہتے ہوئے کوئی ایک انتخابی نشان حاصل نہیں کر پائے۔ سب اُمیدواران مختلف نشانات کے تحت الیکشن لڑیں گے۔ اگر کوئی ایک نشان مل جاتا، تو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا میں اتنا دم خم ہے کہ وہ بھرپور مہم چلا سکتے تھے، مگر اب یہ بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ایک ہی ضلع یا تحصیل میں امیدواران کے نشانات مختلف ہوں گے، جس کی وجہ سے انتخابی مہم چلانے میں دشواری ہوگی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات اور شک کے منڈلاتے سائے  
نظریاتی کارکن پر ایک پیرا شوٹر کو ترجیح دی گئی ہے، آصف شہزاد  
الیکشن ایکٹ 2017 کے تابع نشان کا حصول کیسے کیا جاتا ہے؟ 
لیول پلینگ فیلڈ کا رونا روتی قوم  
ٹکراو کی نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے 
پی ٹی آئی کا پلان بی لانچ ہونے سے پہلے ہی بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی نظریاتی کے ساتھ دو ہفتے پہلے اس کا الحاق ہوگیا تھا۔ پی ٹی آئی نظریاتی کے سربراہ اختر اقبال ڈار کے ساتھ باقاعدہ تحریری معاہدہ تشکیل پاگیا تھا، جس کے بعد اُنھوں نے بلے باز کے انتخابی نشان کے تحت بلینک ٹکٹس پر دستخط بھی کر دیے تھے۔ جانے کس دانش ور نے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ایسے کم زور اور غیرمعروف شخص کے ساتھ اتحاد کرلیں؟ جس شخص نے پی ٹی آئی سے نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر 2012ء میں پارٹی سے الگ ہو کر نئی پارٹی بنالی تھی، اُس کے بارے میں یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ موجودہ حالات میں وہ پی ٹی آئی یا عمران خان کی بقا کی کوشش میں اپنے اوپر پڑنے والے دباو کو برداشت بھی کرسکے گا یا نہیں…… یہ کوشش اس لیے ناکام ہوئی کہ اسے ناکام ہی ہونا تھا۔
پی ٹی آی کے اندرونی ذرائع سے یہ خبر بھی لیک ہوگئی ہے کہ پی ٹی آئی ’’آرٹی فیشل انٹیلی جنس‘‘ کا سہارا لیتے ہوے ویڈیو کلپس بنانے جا رہی ہے جس میں عمران خان چلتے ہوئے آئیں گے اور کرسی پر بیٹھے ہوئے اپنے امیدوار کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر عوام کو بتائیں گے کہ فُلاں حلقے میں یہ ہمارا اُمیدوار ہے اور اس کا انتخابی نشان یہ ہے۔
پروگرام یہ ہے کہ الیکشن سے تین چار روز قبل یہ ویڈیو کلپ ہر حلقے کے لوگوں تک سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچائے جائیں گے۔ اُدھر پی ٹی آئی کے ناراض امیدواران جنھیں پارٹی ٹکٹ نہیں ملا، وہ بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ میرے پاس یہ غیر مصدقہ اطلاعات پہنچی ہیں کہ پی ٹی آئی ٹکٹ کے حصول میں ناکام بعض امیدواران نے بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا سہارا لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا، تو اس سے بہت بڑی کنفیوژن پھیل جائے گی۔ ایک ایک حلقے سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے دو سے چار عدد دعوے دار سامنے آ جائیں گے۔ سب کے کاندھوں پر عمران خان کا ہاتھ ہوگا اور یوں ووٹرز کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا کہ پارٹی کا اصل امیدوار کون ہے؟ اگر پارٹی کو کوئی ایک نشان یا پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر نمائندہ امیدواران کو کوئی ایک نشان مل جاتا، تو ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ پارٹی نے سارا زور سپریم کورٹ میں بلے کے حصول پر لگا دیا، جب کہ کسی نادان دوست کے مشورے پر بھونڈا سا پلان بی ترتیب دے دیا گیا۔ اس پلان کی منظوری دینے والے بھی زیادہ عقل مند ثابت نہیں ہوئے۔ یا پھر ممکن ہے کہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے صورتِ حال کا درست ادراک نہیں کرسکے۔ اس کی بجائے اگر پلان بی کے طور پر اپنے امیدواران کو خفیہ طور پر کوئی ایک متبادل انتخابی نشان بطورِ آزاد امیدوار لینے کی ہدایت کر دی جاتی، تو زیادہ بہتر ہوتا۔ امیدواران کے فیک پارٹی ٹکٹس سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے کی اطلاعات بھی زیرِ گردش ہیں۔ اگر ایسا کر دیا جاتا ہے، تو یہ پی ٹی آئی کے لیے یقینا بہت نقصان دہ ثابت ہو گا۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز سمجھ ہی نہیں پائیں گے کہ ان کا اصل امیدوار کون ہے؟
ان تمام حالات کے باوجود بھی اگر پی ٹی آئی کے لوگ انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں، تو اس کا بھی پی ٹی آئی کو کوئی خاص یا خاطرخواہ فائدہ پہنچنے کی امید نہیں۔ ان کامیاب ایم پی ایز اور ایم این ایز کی وفاداریاں تبدیل کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ کیوں کہ آزاد حیثیت میں جیتنے کی صورت میں وہ جس پارٹی کو چاہے جوائن کرسکتے ہیں۔ ان پر فلور کراسنگ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ کون ایسا ایم پی اے یا ایم این اے ہو گا جو کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد پانچ سال تک اپوزیشن میں بیٹھ کر اپنے حلقے کے عوام کو مایوس کرنا چاہے گا؟ جیتنے والوں کی اکثریت حکومتی کیمپ کو جوائن کر لے گی۔
درجِ بالا صورتِ حال میں یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ الیکشن 2024ء سے مائنس عمران خان ہی نہیں ہوا۔ مائنس پی ٹی آئی بھی ہو گئی ہے۔ اور اگلے پانچ سال پی ٹی آئی کے لیے کوئی حوصلہ افزا خبر لاتے نظر نہیں آ رہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔