ریاست محفوظ ہاتھوں میں ہے

Blogger Fazal Manan Bazda

ریاست میں عوام کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ عوام ہی اصل میں وہ قوت ہیں، جو ریاست کی مضبوطی اور استحکام میں اہم کردار اد ا کرتے ہیں۔
ریاست، عوام کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے اورجب تک ریاست، عوام کو انصاف فراہم کرتی ہے، تو عوام کا اعتماد اس پر قائم رہتا ہے۔
جہاں ریاست کے تین اہم اداروں پارلیمنٹ، مقننہ اور عدالت کے اختیارات میں مداخلت کا تصور موجود ہو، تووہاں معاشرتی ترقی اور ملکی استحکام ممکن نہیں۔ جب تک ریاست عدمِ استحکام کا شکار رہتی ہے، تو معاشرے کا ہر شعبہ زوال پزیر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریاست کا استحکام جمہوری عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جو جواب دہی کا ایک موثرنظام، عوامی مفادات پر مبنی اور جمہوری عمل کے ساکھ کو قائم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
منصفانہ اور شفاف انتخابات جمہوریت کا اہم عنصر ہیں۔ کیوں کہ حکم رانی کا حق کسی خاص طبقے کو نہیں، بل کہ عوام کو حاصل ہوتا ہے۔ عوام اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنی سیاسی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا عمل مختلف نوعیت کے مسائل اور فکری تضادات کا شکار ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اقتدار تو چاہتے ہیں، لیکن اقتدار کو جمہوریت سے جڑے ہوئے خطوط پر استوار کرنے کے لیے تیار نہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کئی عشروں سے ریاستی اداروں میں یہ جنگ جاری ہے۔ جیسے سکندر مرزا نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے قوم سے کہا کہ ’’ریاست محفوظ ہاتھوں میں ہے!‘‘ لیکن پھر دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ ریاست کے ساتھ کیا ہوا؟
پھر جب جنرل محمد ایوب خان اقتدار میں آئے، تو اُن کا بھی یہی کہنا تھا کہ ’’ریاست محفوظ ہاتھوں میں ہے!‘‘، لیکن اُس کے 11 سالہ دورِ حکومت میں ریاست محفوظ ہونے کی بہ جائے مزید غیر محفوظ ہوکر تباہی کے دھانے پر پہنچی ۔
اس کے بعد جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے، تو اُسے یقین ہوچلا کہ اب وہ خود بھی محفوظ نہیں۔ اُس نے ریاست کو اپنے ایک جنرل یحییٰ خان کے ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں دے دیا۔
جنرل یحییٰ خان نے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے انتخابات کرائے، لیکن وہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو ’’عوامی مسلم لیگ‘‘ کو اقتدار منتقل کرنے پر تیار نہیں تھے، جو اُن کا جمہوری حق تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں ’’سرچ لائٹ آپریشن‘‘ شروع کیا، جس کے سبب ریاست دولخت ہوئی اور مشرقی پاکستان ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا۔ یحییٰ خان کو مجبوراً ریاست کا مغربی حصہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں دینا پڑا۔ بھٹو نے ریاست کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے ہی مخلص ساتھی، جو اُس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے، کو جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند کر دیا۔
ہاں! پاکستان کو متفقہ آئین دینا بے شک ذوالفقار علی بھٹو کا بہت بڑا کارنامہ ہے، جس کی تعریف نہ کرنا بخل کے مترادف ہوگا، مگر افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ وہ خود آئین پر اُس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور اُنھوں نے آئین میں من مانی ترامیم کی ابتدا بھی کر دی۔
سیاسی قائدین کی اقتدار کی جنگ میں جنرل ضیا ء الحق نے محسوس کیا کہ ریاست ’’غیر محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہے، تو اُس نے ریاست کی باگ ڈور اپنے ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں لے لی۔ ریاست کو محفوظ بنانے کے لیے جنرل صاحب نے امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے روس سے دشمنی مول لی اور نتیجتاً ہمیں بھاری جانی و مالی نقصانات اُٹھانا پڑا۔ اُن ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ کی وجہ سے ریاست میں کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا، منشیات فروشی اور اس کے استعمال میں اضافہ ہوا۔ مذہبی انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آنے لگیں۔ ریاستی اداروں میں سفارش اور رشوت خوری عام ہوئی۔ بھتا خوری کو عروج ملا اور معاشرتی رواداری میں شدت پسندی کا عنصر در آیا۔ ڈالروں کی خاطر ہم نے دوسروں کی لڑائی اپنے سر لے لی، جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ 11 سال تک اقتدار کے جھولے میں جھول کر اگست 1988ء کو ایک فضائی حادثے میں جنرل صاحب خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اُس کے بعد آنے والی ہر جمہوری حکومت عوام کو یہ ’’لالی پوپ‘‘ دیتی چلی آ رہی ہے کہ ملک ’’محفوظ ہاتھوں (ہی) میں ہے‘‘، لیکن اقتدار کی جنگ میں وہ خود محفوظ ہیں اور نہ ریاست۔
نومبر 1999ء تک جمہوریت کے ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ اُن کے ذاتی مفادات اور اقتدار کی جنگ نے ریاست کو مزید غیر مستحکم اور غیر محفوظ بنا دیا۔ کسی کی جان محفوظ رہی اور نہ مال۔ تعلیم اورعلاج معالجے کی سہولیات تک رسائی ناممکن ہوتی چلی گئی۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا گیا۔ لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ ان حالات کو دیکھ کر جنرل پرویز مشرف نے سمجھا کہ ریاست ’’غیر محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہے، جو نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا جنرل صاحب کو ریاست اپنے ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں لینا پڑا۔
ریاست کو مضبوط اور محفوظ بنانے کے لیے ہم نے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ بدلے میں بعض لوگوں کے بینک بیلنس میں اضافہ ہوا۔ اُن کے ذاتی مفادات پورے ہوتے گئے، لیکن ریاست کی جڑیں کھوکھلی ہوتی گئیں۔
جنرل پرویز مشرف کے ہوتے ہوئے ریاست’’مضبوط جمہوری ہاتھوں‘‘ میں منتقل کر دی گئی، لیکن مرغی کی وہی ایک ٹانگ کے مصداق بہتری دیکھنے کو نہ مل سکی۔ ملکی استحکام میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ 2008 ء سے آج تک اسٹیبلشمنٹ اور ذاتی مفادات کے اسیر سیاسی قائدین کایہ کھیل جاری و ساری ہے اور عوام کو ہر بار یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ملک ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہے…… مگر افسوس کہ ریاستی ادارے ایک دوسرے کے کاموں میں کھل کر مداخلت کر رہے ہیں اور ہر ایک اس کے سدباب کے لیے لائحۂ عمل تیار کرنے سے کنی کترا رہا ہے۔ مذکورہ مداخلت کی وجہ سے ریاست یہاں تک کم زور ہوچکی ہے کہ (خاکم بدہن) دو صوبوں کے ریاست کے ساتھ چلنے کے امکانات روز بہ روز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں صوبوں میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ وہاں بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ جہاں سیکورٹی اداروں کے اہل کار بھی جانے سے گھبراتے ہیں۔ پھر بھی برسرِ ِاقتدار طبقہ دشمن عناصر کی سرکوبی کی بہ جائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے میں لگا ہوا ہے، اور کچھ نادیدہ طاقتیں بھی اُن کا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں۔
دراصل حکم ران اپنے سیاسی مخالفین کو اس لیے تختۂ مشق بنا رہے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ’’محفوظ‘‘ نہیں سمجھتے۔ اب مملکتِ خداداد کے عاقبت نااندیشوں کو کون سمجھائے کہ جو خود محفوظ نہیں، تو اُن کے لرزتے ہاتھوں میں ریاست کیسے محفوظ ہوگی؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے