قاضی حسین احمد کے ساتھ چکیسر کی ایک شام

Blogger Qazi Hussain Ahmad

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
مجھے چکیسر کا مون سون موسم (موسمِ برسات) بہت پسند تھا۔ بجلی کی روشنی سے عاری مکمل اندھیرے میں بھیگ رہے گاؤں کی سیاہ تاریک راتیں کیا سماں باندھ دیتیں۔ پورے علاقے میں 1960ء کی دہائی میں بجلی تھی ہی نہیں۔
بادلوں کی، آنکھوں کو چندیانے والی، چمک کے بعد گرجتا ہوا آسمان اور مکئی کے اونچے کھیتوں پر برستی بارش، جو ایک نرم سرسراتی آواز پیدا کرتی۔ کتنا پُر کیف تھا یہ سب کچھ۔ چکیسر میں اعلا معیار کی مکئی پیدا ہوتی تھی۔ ہر پودے پر اکثر تین سے چار بالیاں ہوتی تھیں، اور اوسطاً ان کی لمبائی 16 فٹ تک ہوتی تھی۔
اُن دنوں مَیں دس بستر کے ایک ہسپتال کی تعمیر کی نگرانی کے سلسلے میں چکیسر میں موجود تھا۔ ہسپتال میں اُو پی ڈی اور آپریشن تھیٹر شامل تھے۔ جہانزیب کالج کے بی اے کے آخری سال کے طلبہ کا ایک گروپ وہاں کیمپ لگا رہا تھا، جس کی نگرانی پروفیسر ہمایوں خان کر رہے تھے۔ وہ توتانو بانڈئی، نیکپی خیل (سوات) سے تھے اور ڈگری کلاسوں کو معاشیات پڑھاتے تھے۔
اس گروہ کے کچھ طلبہ میرے ذاتی دوست تھے اور کچھ کے ساتھ اَب تعلق بن گیا۔ کیوں کہ ہم اکثر شامیں اکٹھے گزارتے تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر نے بعد میں عملی زندگی میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اُن میں امنوَر (بونیر) کے عثمان شاہ، کانجو کے میاں گل سعید ایڈوکیٹ اور کبل کے محمد ضمیر خان شامل تھے، جو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بنے اور سوات میں شورش کے دوران میں طالبان کے ہاتھوں مارے گئے۔ اُن میں دیر کا عبدالرزاق بھی شامل تھا۔ چوں کہ مجھے پروفیسر ہمایوں خان کے ساتھ قریبی و قلبی تعلق تھا، تو ہم اکثر ایک ساتھ ’’واک‘‘ کرتے اور طلبہ کے ساتھ سوشل ورک میں بھی شریک ہوتے تھے۔
ایک بار ایک ٹیم خدنگ بھیجی گئی، جو ایک پہاڑی پر واقع چند گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ ہمایوں خان نے مجھے اس ٹیم کے ساتھ جانے کو کہا، تاکہ گاؤں والوں کو خسرے سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جائیں، جو وہاں بہت عام تھا۔ جب ہم پہاڑی کے اوپر پہنچے اور گاؤں کے ایک بزرگ سے کہا کہ خواتین اور بچوں کو ایک گھر میں لے آئیں، تاکہ ان کی ویکسی نیشن کی جا سکے۔ گاؤں کے مردوں نے چہ میگوئیاں شروع کیں اور اس بزرگ نے کہا کہ گاؤں والے اس بات کے لیے تیار نہیں کہ ان کی خواتین کو یہ طالب علم چھوئیں۔
بہ ہرحال، انھوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ (مَیں) ویکسی نیشن کرے، تو وہ قبول کریں گے۔ یوں مجھے پورے گاؤں کے بچوں، لڑکیوں، خواتین اور مردوں کی ویکسی نیشن اکیلے کرنی پڑی۔
خدنگ سے واپس آتے ہوئے، ہمیں بتایا گیا کہ پروفیسر قاضی حسین احمد، مارتونگ سے منگا کنڈاؤ کے راستے پیدل، چکیسر آ رہے ہیں ۔ وہ اُس وقت جوان تھے اور ہائیکنگ کے شوقین تھے۔ میں طلبہ کی طرف سے قاضی صاحب کے اعزاز میں منعقدہ پارٹی میں شامل ہونے کے لیے بہت پُرجوش تھا۔کیوں کہ مَیں پہلے ہی ہمایوں خان کے توسط سے انھیں جانتا تھا۔
طلبہ نے ایک دنبہ خریدا اور شان دار بار بی کیو اور پلاؤ وغیرہ کا انتظام کیا۔ قاضی صاحب شام کو پہنچے۔ انھوں نے اپنا رَک سیک زمین پر رکھا اور آرام کرنے کے لیے اپنی ٹانگیں پھیلا دیں۔ رات کے کھانے کے بعد طلبہ نے موسیقی کا ایک پروگرام ترتیب دیا۔ میانگل سعید نے کہیں سے ایک ہارمونیم اور طبلے کا انتظام کیا تھا۔ انھوں نے کچھ پرانی دھنیں بجائیں اور پھر سیف الملوک صدیقی کی ایک غزل گائی جس کے بول تھے:
لوبے می کوَلے د خنجر سرہ
زکہ مشغولیگم د پرھر سرہ
قاضی صاحب چند منٹ تک توجہ سے سنتے رہے اور پھر قوالی کے انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے کورس میں شامل ہوگئے۔ یہ ایک پُر لطف رات تھی۔ اُس رات کی یادیں آج بھی مجھے ستاتی ہیں۔ اگلے دن قاضی صاحب ہم سے رخصت ہوگئے اور کروڑہ کی طرف اوپل کنڈاو کے راستے روانہ ہوگئے۔ اگلے روز مَیں نے ہمایوں خان اور اُن کے طلبہ کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے گنگر نامی گاؤں کی سیر کی۔
نوٹ از مترجم:
1:۔ "Rucksack” ایک ایسا بیگ ہوتا ہے، جو عام طور پر کندھوں پر یا پیٹھ پر باندھ کر اُٹھایا جاتا ہے۔ اسے اکثر پیدل سفر، کیمپنگ یا سفر کے دوران میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانوں میں اسے پشتارہ کہتے تھے۔
2:۔ یاد رہے کہ قاضی حسین احمد جہانزیب کالج میں جغرافیہ کے اُستاد بھی رہے ہیں۔

……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے