آریاؤں سے لے کر عربوں تک اور عربوں سے لے کر ترک، افغان اور انگریزوں تک، ہندوستان ہزاروں سال سے بیرونی اقوام کے لیے آماج گاہ رہا…… لیکن ہندوستان میں رہنے والی ایک ایسی قوم بھی تھی، جو اپنی دھرتی چھوڑ کے دنیا کے کئی حصوں میں قیام پزیر رہی اور پھر وہ جگہیں بھی چھوڑ کر مستقل سکونت کی تلاش میں رہی۔ یہ قوم ’’جپسیز‘‘ (Gypsies) ہے۔ وہ جپسیز جن کے بارے میں کارل وگنز نے کہا تھا کہ جپسیز زندہ شاعری ہیں۔
مشہور ناول نگار سٹیفین کِنگ نے کہا تھا کہ ہم سب کو ہمیشہ سے جپسیز کی ضرورت ہے، اگر تمھارے پاس ایسا کوئی نہیں، جو تمہیں شہر سے باہر لے کے جائے، تو تم کیسے جانوگے کے تم یہاں کے ہو؟
جپسیز کا نام یورپین نے دیا۔ کیوں کہ اُن کا خیال تھا کہ یہ لوگ "Egypt” (مصر) سے آئے ہیں، لیکن 18ویں صدی میں یہ دریافت ہوا کہ یہ لوگ دراصل ہندوستانی ہیں۔ اس دعوے کے پیچھے کئی وجوہات تھیں، جیسے کہ جپسیز اور ہندوستانیوں کی کلچر کے درمیان مماثلت اور ان کے عقائد جو ہندوستان میں تو پائے جاتے تھے، لیکن اُس دور کے مصر کے لیے وہ انجان تھے۔ کچھ تاریخ دان یہ رائے رکھتے ہیں کہ جپسیز ہندوستانی ریاست اُتر پردیش سے تھے، لیکن زیادہ تر سکالرز کے ہاں جپسیز راجستھان اور سندھ سے تھے۔
جپسیز کی یورپ یاترا دو ادوار میں تھی۔ ایک "Sinti” قوم جو اُموی دور کے حملوں کے بعد ہندوستان چھوڑ گئی تھی، اور ایک "Roma” جو غزنوی یلغار کے بعد ہجرت کر گئی تھی۔
غزنوی دور میں پنجاب اور راجستھان خاص طور پہ متاثر رہے۔ دوسرے دور کی ہجرت راجستھان سے روما (جپسیز) کی تھی۔
جپسیز کی ہجرت کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
٭پہلا، جب اُنھوں نے اپنی زبان قائم کی۔
٭ دوسرا، اپنی شناخت۔
٭تیسرا، جب وہ یورپ میں آباد ہوئے۔
٭ چوتھا اور آخری دور:۔ جب وہ یورپ کے بیش تر ملکوں میں پھیل گئے۔ کالا رنگ، مختلف مذہب، منفرد لباس، بڑی ناک اور گھنی داڑھی، یہ سب یورپ کے لیے انجان بھی تھا اور یہی ان کی الگ شناخت کا باعث بھی بنا۔
سکالرز کے لیے یہ حیران کن ہے کہ جپسیز نے آخر ہجرت کے لیے یورپ کا ہی کیوں انتخاب کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ جپسیز جن کاموں میں مہارت رکھتے تھے جیسے کہ لوہاری، دست کاری، موچی، جانوروں کی دیکھ بھال اور نجومیت ہندوستان میں بیش تر جگہوں پر تھی، لیکن یورپ کے لیے یہ چیزیں نایاب تھیں۔ اگر ان کا انتخاب ہندوستان کی کوئی ریاست ہوتا، تو ممکن تھا کہ وہاں کے آبائی لوگ جو ان پیشوں سے وابستہ تھے، اُن کو معاشی طور پہ ایک خطرے کے طور پر دیکھتے۔
جپسیز کی زبان میں کچھ لفظ فارسی کے اور قریب 300 الفاظ آرمینی زبان کے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آرمینیہ میں ان کی سکونت قدرے طویل تھی۔ جپسیز ایک اندازے کے مطابق فارس کے راستے آرمینیہ گئے ہوں گے۔ آرمینیہ اُس دور میں بازنطینیوں کے زیرِ انتظام تھا۔ بازنطینی، جپسیز کو "Athingani” کہتے تھے، یعنی ’’اچھوت۔‘‘
بازنطینیوں نے جپسیز کو فوج میں بھی برتی کیا۔ "John the Gypsy” ایک مشہور ملٹری لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔
فارس ان کو بازنطینیوں سے اچھا دیکھتے تھے۔ وہ ان کو "Lori” کہتے تھے۔ فارس میں جو جپسیز رہ گئے تھے، وہ بعد میں مسلمان ہوگئے، لیکن اُن کی اقدار اور روایات کو ہمیشہ تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، جس کی وجہ سے اُن کو وہ جگہ چھوڑنی پڑتی۔ فارس کے بعد آرمینیہ اور آرمینیہ کے بعد یہ باقی یورپ میں پھیل گئے۔ یورپ میں ان کو حراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جپسیز کو غلام بنانا معمول تھا۔ ان کے بچوں کو والدین سے دور کیا جاتا تھا۔ بازنطینی ان کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے اور اکثر ان کو دشمن کا جاسوس سمجھتے تھے۔
جپسیز بے وطن قوم ہیں، جیسے کہ کُرد…… لیکن جپسیز کے اوپر مظالم کی داستان ہزار سال پرانی ہے۔ سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ میں "Gypsy Hunting” کے نام سے ایک بھیانک کھیل بھی کھیلا جاتا تھا، جس میں لوکل لوگ جپسیز کا شکار کرتے تھے۔ نازی جرمنی نے تو اُن کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا انتظام کیا تھا۔ ہٹلر کی فوج نے 8 لاکھ جپسیز قتل کیے تھے۔
اس حوالے سے ایک جپسی کہاوت جپسیز کے اوپر کیے گئے مظالم کے صحیح عکاسی کرتی ہے: آپ ایک جپسی (خانہ بدوش) کے دس ٹکڑے کرنے سے اس کو نہیں مارتے، آپ دس اور جپسیز بناتے ہیں۔
نسل پرستی کا شکار رہنے والی اقوام کے بیچ احساس کم تری کا ایسا پودا اگایا جاتا ہے، جس کو یہ مظلوم اقوام بعد میں خود پانی دے کر پروان چڑھاتی ہیں۔ تیسری دنیا کی وہ اقوام جو بغیر کسی انقلابی تبدیلی کے آگے بڑھے، وہ آج بھی اپنی شناخت قائم نہ کرسکے ۔ یہ اپنی تاریخ کو بڑھا چڑھ کر تو پیش کرتے ہیں، لیکن "Inspiration” مذہب سے لیتے ہیں۔ مذہب یہاں اُن کو اقلیتوں کو محکوم بنانے کا آلہ فراہم کرتا ہے، لیکن جپسیز ہر مصیبت کے بعد بھی اپنی شناخت سے انکار نہیں کر رہے۔ اگر کیتھولک، ہندو یا مسلمان کارڈ کھیلتے، تو شاید اُن کے لیے باقی ملکوں سے آواز اُٹھ جاتی، لیکن وہ خانہ بدوش کہلانے پر ہی خوش ہیں۔
1530ء میں کِنگ ہینری نے جپسیوں کی برطانیہ سے بے دخلی کا حکم دیا۔ 1554ء میں کوئین میری نے جپسی امیگرنٹ کی سزا ’’موت‘‘ مقرر کی۔ اسی صدی میں 5 جپسی مردوں اور 9 عورتوں کو سولی چڑھایا گیا۔ 1650ء میں جپسیز کو غلام بنانے کے لیے امریکہ اور کیریبین بھیج دیا گیا۔
جپسیز کے اوپر مہذب دنیا کے مظالم آج بھی جاری ہیں۔ 1980ء میں چیکوسلواکیہ میں جپسیز کی جبری نس بندی کی گئی، تا کہ ان کی بڑھتی آبادی کو روکا جاسکے۔ اٹلی ان کو رہایش جیسی بنیادی ضرورت دینے سے انکاری ہے، خواہ وہ اطالوی شہری ہی کیوں نہ ہو۔ اٹلی میں یہ لوگ کنٹینروں میں رہتے ہیں۔
غربت اور بیماریوں کی وجہ سے جپسیز میں جرائم کی شرح بھی بڑھ گئ ہے۔ فرانس نے حال ہی میں 10 ہزار جپسیز کو "Kosovo” بے دخل کیا، جس کے جواب میں یورپی پارلیمان نے فرانس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی۔ 2005ء میں یورپی پارلیمنٹ نے جپسیز کے حقوق کے بارے میں ایک قرار داد بھی پیش کی تھی، لیکن وہ غیر موثر رہی۔
یورپ کی نسل پرستانہ سوچ کالونیاں بنانے سے کئی پہلے اپنا وجود رکھتی تھی۔ جپسیز کے ساتھ یہودی بھی نسل پرستی کا شکار رہے۔ یورپ میں نسل پرستی کی تاریخ بہت پہلے تک جاتی ہے۔ یورپ میں جن اقوام نے عیسائیت کو قبول نہیں کیا تھا، اُن کو غلام کہلانے کا فرمان جاری ہوچکا تھا۔ یورپ میں عیسائیت کے ابتدائی دنوں میں روس اور مشرقی یورپ کی اقوام نے عیسائیت قبول نہیں کیا تھا، اس لیے وہ غلام بن گئے اور جب اُنھوں نے عیسائیت قبول کی، تو یہ اقوام مشترکہ طور پر غلام کہلائے۔ عیسائیت آنے سے یورپ کو ایک منظم مذہب تو مل گیا، لیکن قانون سلطنتِ روم ہی کا تھا، جس میں غلام اور آقا کا تصور واضح موجود تھا۔
اب سوال ہے کہ کیا جپسیز جو پُرامن خانہ بدوش تھے، وہ کیسے جرائم پیشہ بن گئے؟ اس سوال کا جواب اور اس کی وجہ مہذب دنیا ہے، جو ایک طرف ان کو انسان ماننے سے انکاری ہے اور دوسری طرف ان کو حیوان ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بازنطینی ان کو اچھوت کہتے تھے اور آج بھی اچھوت ہی کہتے ہیں۔ صرف مشینی ترقی سے کوئی قوم مہذب نہیں کہلائی جاسکتی۔ اگر باقی انسانوں کو آپ کم تر سمجھیں، تو آپ کے اندر بھی ایک ہٹلر اور مسولینی ہے۔
فارسی کا یہ جملہ جو شاید کسی نے جپسیز کے لیے کہا ہوگا ’’مہاجر چیست؟ بدنام است یا نام است!‘‘ یعنی مہاجر کیا ہے ؟ نام یا گالی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
