حافظ الپورئی کی شاعری کا انگریزی ترجمہ

Blogger Fazal Rabi Rahi

حافظ الپورئی پختو شعر و ادب میں کلاسیکی شاعری کا ایک مستند نام ہے۔ وہ شانگلہ کی ایک مذہبی، روحانی اور بلند ادبی شخصیت گزرے ہیں۔ اُن کی شاعری میں زندگی سے جڑی تلخ و شیریں حقیقتیں موجود ہیں۔ اُن کی شاعری میں زندگی کا ہر رنگ جھلکتا ہے۔ اُنھوں نے مذہبی اور روحانی تصورات کے ساتھ عشق و محبت اور جمال کے موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔
’’دیوانِ حافظ الپورئی‘‘ پہلی بار سوات کے ریاستی دور میں 1940ء میں قاضی عبد السلام کے تعارفی کلمات کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ اُن کی شاعری میں عربی اور فارسی کے الفاظ بہت زیادہ استعمال ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کی شاعری عام پڑھنے والوں کے لیے سمجھنا مشکل بن گئی ہے۔ اس لیے قاضی عبد السلام نے اس کے پہلے ایڈیشن میں مشکل الفاظ ’’فُٹ نوٹ‘‘ کی شکل میں ہر صفحہ پر دیے تھے۔ اس کے بعد بھی حافظ الپورئی کا دیوان مختلف مواقع پہ شائع ہوتا رہا ہے، لیکن اس کے مختلف ایڈیشنوں میں کچھ ٹائپنگ کی غلطیاں رہ گئی تھیں اور کچھ اُن کی شاعری کی تشریح کرنے والے مؤلفین اور شارحین نے اس میں تصریحات اور تحریفات کی تھیں، جس کی وجہ سے اُن کی شاعری کے بعض حصوں میں صحیح اور غلط کا پتا لگانا مشکل بن گیا تھا۔
جس ایڈیشن کا انگریزی ترجمہ اب کیا گیا ہے، یہ ابھی تک شائع ہونے والے تمام ایڈیشنوں میں سب سے زیادہ صحیح اور اغلاط سے پاک ہے۔ اس کے علاوہ مترجم نے بھی اس اَمر کا خاص خیال رکھا ہے کہ وہ شاعری کے اصل متن کو تحریف و تبدل سے پاک رکھے اور اس میں پروف کی غلطیوں کا امکان کم سے کم ہو۔
حافظ الپورئی کا شمار پشتو شعر و ادب کے بلند پایہ شاعروں میں ہوتا ہے، لیکن ان کی مشکل اور پُرمعنی شاعری کی وجہ سے اس کے مفہوم کو سمجھنے میں عام قاری کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے حافظ کو پشتو ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا ہے، جس کے وہ حق دار ہیں۔ اس مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سوات سے تعلق رکھنے والے انگریزی کے پروفیسر مومن خان نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔
کسی ادبی تخلیق کا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا بہت مشکل کام ہے اور یہ مشکل اُس وقت اور بھی مشکل ہوجاتی ہے، جب شاعری کا ترجمہ دوسری زبان میں کرنا مقصود ہو۔ اس میں کئی مشکلات حائل ہوتی ہیں۔ ہر زبان کا اپنا اُسلوب، روانی اور محاورہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُسی زبان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا مخصوص کلچر اور عام زندگی سے تعلق رکھنے والے احساسات ہوتے ہیں، جنھیں دوسری زبان میں منتقل کرنا مشکل ہی نہیں، بل کہ بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے۔ اُس صورت میں مترجم کو اس کا مفہوم ہی دوسری زبان میں ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔
پروفیسر مومن خان کو بھی حافظ الپورئی کا دیوان ترجمہ کرتے وقت ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن اُنھوں نے بہت مہارت سے اس مشکل کام کو اپنی صلاحیت اور قابلیت سے آسان بنا دیا ہے۔ اُنھوں نے حافظ الپورئی کی شاعری کے ترجمہ میں اس کے اصل مفہوم کو متاثر کیے بغیر بہت روانی سے اس کا ترجمہ کیا ہے۔
یہ ترجمہ کئی حوالوں سے نہایت اہم ہے۔ ایک یہ کہ حافظ کی مشکل شاعری کو آسان اور عام فہم انگریزی میں ترجمہ کرکے اسے سمجھنے کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے۔ شاعری میں استعمال ہونے والے مشکل الفاظ کو آسان انگریزی زبان کا جامہ پہنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے پڑھنے والے کو شاعری سمجھنے میں بہت آسانی میسر آئی ہے۔
اس کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ پشتو زبان سے نابلد قارئین میں حافظ الپورئی کی شاعری اور افکار کو پہلی مرتبہ متعارف کرایا گیا ہے۔ یوں ہم کَہ سکتے ہیں کہ حافظ الپورئی کی شاعری کو دنیا کی بڑی زبان انگریزی میں ترجمہ کرکے مترجم نے اسے عالمی سطح پر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے، جو نہایت قابلِ قدر کام ہے۔
مومن خان نے اس سے پہلے رحمان بابا کی شاعری کو بھی انگریزی زبان میں منتقل کیا ہے، جس کو ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا ہے اور اب تک اُس ترجمہ کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔ اس لیے فاضل مترجم کو پشتو شاعری کے ترجمہ میں کافی مہارت اور تجربہ حاصل ہے۔
اس ترجمہ کا کمال یہ ہے کہ شاعری میں جہاں جہاں مشکل الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے، یا جہاں پہ مذہبی اور روحانی اصطلات استعمال ہوئی ہیں، اُن سب کی وضاحت مترجم نے "End Notes” کے ذریعے بڑی تفصیل اور علمی انداز سے کی ہے۔ یقینا اس ترجمے کا نہایت اہم حصہ اس کے "End Notes” ہیں، جس کے لیے مترجم نے کافی محنت اور عرق ریزی کی ہے اور اسے نہایت عمدہ طریقے سے ترتیب دیا ہے۔
پروفیسر مومن خان نے دیوانِ حافظ الپورئی کا انگریزی میں ترجمہ کرکے بہت اعلا علمی اور ادبی خدمت انجام دی ہے۔ ان کا ترجمہ واضح اور رواں دواں ہے۔ ریڈر کو اسے سمجھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مَیں اس اہم علمی اور ادبی خدمت انجام دینے پر مترجم کی کاوش اور مہارت کو سراہتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اس ترجمہ کے ذریعے حافظ الپورئی کی شاعری سے وہ لوگ بھی مستفید ہوں گے، جو پشتو زبان نہیں سمجھتے۔ اُنھیں شانگلہ کے برف پوش پہاڑوں اور خوب صورت مناظر سے مالا مال وادیوں میں رہنے والے حافظ الپورئی کی ادبی شخصیت اور اس کے عالمانہ افکار سے آگاہی حاصل ہوگی۔
میرے لیے ایک ناشر کی حیثیت سے یہ اہم ترجمہ شائع کرنا اعزاز کی بات ہے، جس کے لیے میں پروفیسر مومن خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس کتاب کی طباعت کے اخراجات شانگلہ کی سرزمین میں جنم لینی والی متنوع خوبیوں اور صلاحیتوں کی حامل شخصیت ضیاء الدین یوسف زئی نے برداشت کیے ہیں، جس کے لیے اُن کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ ضیا نے اس سے قبل بھی پشتو زبان کے شاعروں کی درجنوں کتابیں اپنے اخراجات پر شائع کروائے ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے اعلا ظرف عطا کیا ہے۔ وہ خاموشی کے ساتھ ادیبوں اور شاعروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اُن میں بیش تر کتابیں، جو اُن کی مالی معاونت سے شائع ہوئی ہیں، اُن میں سپانسر کی حیثیت سے اُن کا نام موجود نہیں، لیکن وہ ذاتی شہرت سے ماورا ہوکر ادبی خدمات انجام دیتے ہیں۔ وہ سوات کی ایسی بلند قامت شخصیت ہیں، جو اپنی مٹی سے بے حد محبت کرتے ہیں اور اس سے وابستہ ادبی، علمی، تعلیمی اور تہذیبی اقدار کی حفاظت اور ترویج و اشاعت میں وقتاً فوقتاً اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ ہم ضیا کی ان خدمات کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
’’دیوانِ حافظ الپورئی‘‘ کے انگریزی ترجمے کا اہتمام شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز نے نہایت اہتمام کے ساتھ کیا ہے۔ اسے پشاور میں یونیورسٹی بک ایجنسی خیبر بازار، کتاب کور انعام پلازہ (پخوانئی اورکزئی پلازہ) یونیورسٹی روڈ، اسلام آباد میں سعید بک بینک جناح سپر مارکیٹ اور شعیب سنز سے بہ راہِ راست رعایتی قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے