تجمل کلیم: پنجابی شاعری کا امام

Blogger Rafi Sehrai

پنجابی زبان کے عظیم شاعر تجمل کلیم انتقال کرگئے۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے، مگر گذشتہ ایک سال سے اُن کی طبیعت سخت ناساز تھی۔
پچھلے سال جناح ہسپتال میں ننگے فرش پر پڑے تجمل کلیم کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، تو دوستوں کی کوششوں سے اُن کو علاج میں کچھ سہولت میسر آئی تھی۔ اس مرتبہ موت نے مہلت ہی نہ دی۔ 22 مئی جمعرات کے روز دوپہر کے وقت جاوید ساحرؔ نے فیس بُک پر اُن کی شدید علالت کی خبر دیتے ہوئے دعائے صحت کی اپیل کی تھی۔ پھر سوشل میڈیا پر ہر طرف یہ خبر پھیل گئی۔ اُن کے چاہنے والے اضطراب اور بے قراری کے عالم میں ایک دوسرے سے رابطے کرتے رہے۔ سب اُن کی صحت کے بارے میں پریشان تھے۔ اگر بے خبر رہا، تو مین سٹریم میڈیا، ٹی وی چینل اور ہمارے حکومتی زعما رہے کہ جو ہمیشہ چڑھتے سورج کے پجاری رہے ہیں، یا خوشامدی ٹولے پر مہربان رہے ہیں۔
ایسے میں تجمل کلیم کو کون پوچھتا، جو عام آدمی کی آواز بنا ہوا تھا۔ وہ غیرت مند تھا۔ ذاتی دُکھوں پر رونا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ وہ خود دُکھی رہ کر بھی جگ کے لیے سکھ کی تلاش اور کوشش میں رہتا تھا۔
مَیں نچیاں جگ دے سُکھ پاروں
سَدّ بُلھے نوں میری دھمال ویکھے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تجمل کلیم موجودہ پنجابی شاعری کا سب سے بڑا نام تھے۔ وہ جدید پنجابی شاعری کے امام تھے۔
تجمل چڑھدے اور لہندے پنجاب میں یک ساں مقبول تھے۔ شروع میں وہ پنجابی کے علاوہ اردو میں بھی اشعار کہتے تھے۔ پھربلھے شاہ کے اس سیوک نے خود کو پنجابی زبان کے لیے وقف کرلیا۔ اُن کا تعلق ضلع قصور کی تحصیل چونیاں سے تھا۔
تجمل کلیم پر بابا بلھے شاہ کا فیض مینھ کی طرح برسا تھا۔ وہ جتنا بڑا شاعر تھا، اُتنا ہی بڑا انسان بھی تھا۔ لوگ اُس کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے۔ اُس سے مصافحہ کرنا، اُس کے ساتھ تصویر بنوانا باعثِ اعزاز سمجھتے تھے۔ اس قدر شہرت اور پذیرائی انسان کا دماغ خراب کر دیتی ہے، مگر تجمل مزید عاجز ہو جاتا تھا۔ انکسار اُس کی شخصیت کا خاصا تھی۔
پنجابی زبان کے مہان شاعر شیو کمار بٹالوی کے بعد تجمل کلیم وہ واحد شاعر تھے، جنھوں نے دنیا بھر میں اپنی شاعری کے ذریعے اپنی الگ پہچان بنانے کے ساتھ ساتھ بے پناہ محبت اور شہرت کمائی۔
ساہ تے گِن میں مر جانا ای
تیرے بِن میں مر جانا ای
جیہڑے دن توں کنڈ کرنی اے
اوسے دن میں مر جانا ای
تجمل کلیم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے اپنے ہی صوبے میں عملی طور پر تیسرے درجے کی حیثیت اختیار کر جانے والی پنجابی زبان کو عوام کے ساتھ ساتھ خواص میں بھی قابلِ قبول اور مقبول بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ گھروں میں پنجابی کو دیس نکالا دے کر اُردو اور انگریزی میں بات کرنے والی کلاس کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچوں کو تجمل کلیم کے درجنوں پنجابی اشعار اَزبر رہتے۔
دونواں صدیاں تیکر جینا
چج دے شعر تے چج دے بندے
تجمل مشاعروں کی جان تھا۔ وہ جس مشاعرے میں چلا جاتا، وہ مشاعرہ اُسی کے نام ہوجاتا۔ خدا نے اُسے خوب صورت آواز سے نوازا تھا۔ وہ جب ترنم میں پڑھتا، تو سماں باندھ دیتا۔ اُس کا تحت اللفظ میں پڑھنے کا انداز بھی سب سے جدا تھا۔ الفاظ کو مجسم روپ دے کر سامعین کے سامنے لا کھڑا کرتا تھا۔
چند ہفتے پہلے اُس کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں عباس تابش، جی اے نجم سمیت ملک کے طول و عرض سے اُردو اور پنجابی زبان کے شعرا اُسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ یہ شاید اُس کی زندگی کی آخری بڑی تقریب تھی، جس میں شدید علالت کے دوران میں اُس نے شرکت کی تھی۔
ادبی حلقوں میں اُسے اُستاد تجمل کلیم کہا جاتا تھا۔ وہ پنجابی شاعری میں اپنے منفرد لہجے، خوب صورت انداز اور گہرے فکری اظہار کے باعث بلند مقام رکھتے تھے۔ وہ اپنی شاعری میں روایت، مزاحمت، درد، اپنائیت اور عوامی احساسات کے ترجمان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
میری وار دا پانی لا لَے
میری نہیں تے تیری اُگّے
بلاشبہ روزمرہ کے وہ سب سے بڑے شاعر تھے۔ چھوٹی بحر اور روزمرہ کی زبان میں ایسی غزل کسی اور نے شاید ہی کہی ہو۔ اُس کی شاعری میں ہمیں پنجاب پوری آب و تاب سے لشکارے مارتا نظر آتا ہے، جس میں رسم و رواج کی جھلک بھی ہے، سماجی ناہم واری، معاشی و معاشرتی مسائل کا تذکرہ بھی ہے اور پنجاب کے گبھروؤں کی کہانیاں، الہڑ مٹیاروں کی اٹکھیلیوں اور جھومر ڈالتی فصلوں کے مناظر بھی آپ کو ملتے ہیں۔
بلاشبہ تجمل کلیم ایک ہی تھا، جس نے پنجابی غزل کو سماجی رنگ میں رنگ دیا۔ اُس نے غزل کے روایتی معذرت خواہانہ انداز کو جب اپنے نویکلے لہجے میں للکار کے انداز میں بدلا، تو ایسا لگا کہ غزل نے ایران میں نہیں، بل کہ ماجھے کے علاقے میں جوانی کی منازل طے کی ہیں۔
رُکھاں وانگ اُچیری اُگّے
گاٹا بِیج دلیری اُگّے
ڈاہڈا ڈنگر چھڈ دیندا اے
نئیں تے کنک بتھیری اُگّے
تجمل چلا گیا ہے۔ سب نے ہی جانا ہے، مگر دکھ اِس بات کا ہے کہ سرکاری سطح پر اُسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ وزیر، مشیر اَدبی ذوق کے لحاظ سے اکثر کورے ہوتے ہیں۔ یہی حکم رانوں کے کان اور آنکھیں ہوتے ہیں۔ تجمل اُن کی لاعلمی اور جہالت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ زندگی میں سرکاری سطح پر اُسے مانا نہیں گیا۔ وہ کوئی سرکاری، درباری شاعر یا قصیدہ گو ہوتا، تو ہسپتال میں بے یارومددگار نہ پڑا ہوتا۔ اُس کے لیے ڈاکٹروں کی لمبی قطار لگ جاتی۔ وہ نہ تو صوبائی شاعر تھا اور نہ وفاقی، بل کہ وہ ایک آفاقی شاعر تھا، جو بدقسمتی سے وسطی پنجاب میں پیدا ہوگیا تھا۔ شاید یہی بات اس کی محرومی کی وجہ بنی مگر اِس میں اُس کا کیا قصور تھا……؟
پہلی گل میں خود نہیں جمیا
دوجی گل میں جین نہیں آیا
تجمل کلیم ہزاروں چاہنے والوں کی اشک بار آنکھوں کے سامنے چونیاں کی سرزمین میں آسودۂ خاک ہوگیا۔
جاتے جاتے یہی دعا ہے کہ پروردگار اس کی اگلی منزلیں آسان فرمائے ، آمین ثم آمین!
ساہ جُثّے دا سچا رشتا
کھوٹا ساڈی یاری وانگر
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے